قرآن مجید اور ہماری ذمہ داریاں

Taasir Urdu News Network | Uploaded  on 18-June-2020

اللہ رب العزت نے تخلیق کائنات کے بعد انسانوں کی رشد و ہدایت کے لئے انبیاء و رسل کو مبعوث فرمایا ، ہرزمانے اور ہر دور میں جو چیزیں بام عروج پر تھی اسی کے مطابق انبیاء و رسل کو معجزے عطاکئے ۔چنانچہ حضرت عیسی علیہ السلام کا دور بڑے ماہر ڈاکٹروں کا تھا ، تو دم عیسی میں وہ تاثیر بخشی کہ ایک ہی پھونک میں سینکڑوں ابرص و اعمی ٹھیک ہو جاتے موت کی آغوش میں ہونے والے، اور قبروں کے مردوں کو ” قم باذن الله ” کہ کر پکارتے تو اٹھ بیٹھتے ۔حضرت موسی علیہ السلام کے زمانے میں ساحروں اور جادوگروں کا طوطی بولتاتھا چہار دانگ عالم میں ان کی جادوگری کا ڈنکا بجتا تھا اور ساحر گری کے ذریعہ بڑے بڑے کارنامے انجام دیے جاتے تھے ۔تو رب کریم نے حضرت موسی علہ کو”ید بیضاء اور عصا موسوی” دے کر ساری دنیا کو حیران و ششدر کردیا اور بالآخر مقابلہ میں جادوگروں کو منھ کی کھانی پڑی ۔اس کے علاوہ اور انبیاء و رسل کو معجزے دئیے گئے، مگر یہ سب ایسے معجزے تھے جو وقت مخصوص کے لئے تھے اور یہ معجزے ان انبیاءکے ساتھ ختم ہوگئے ۔اب تاریخ میں ان کتابوں کے صرف نام ہی باقی رہ گئے ہیں ۔ مگر جب سرور کائنات محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا عہد مبارک آیا ، تو اس وقت عرب میں فصاحت و بلاغت کا زور تھا ،بڑے بڑے فصحاء بلغاء تھے ۔۔۔ان کے زور کلام ، جودت طبع ، جدت فہم ،اصابت رائے اور زبان آوری کی انتہاء یہ تھی کہ وہ اپنے آگے ساری قوم کو عجم یعنی گونگا تصور کرتے تھے ۔ لیکن جب قرآن مجید کا نزول ہوا اور ایسے شخص کے زبان مبارک سے ( جو ایک امی تھے ظاہری تعلیم و تعلم سے بالکل عاری تھے ، کبھی کسی استاذ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ نہی کیا تھا )ایسے کلام لوگوں نے سنے تو سن کر حیران رہ گئے اور ہزار کوششوں کے باوجود اس کے مثل بھی پیش نہ کرسکے ۔قرآن مقدس اللہ کا کلام ہے اور تمام بنی نوع انسان میں سے سب سے افضل فخر موجودات محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم معجزہ ہے ، جو آپ کے ذریعہ امت محمدیہ تک پہونچا ہے ۔قرآن ہی وہ آخری کتاب ہے جو جملہ آسمانی کتب و صحائف میں سے ہر تغیر و تبدل سے محفوظ و مامون اور قابل استحکام و استنادہے ۔قرآن ایک نسخہ کیمیا ہے اور اس کا پیغام عالمگیر ہے عالم انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے اللہ رب العزت نے قرآن کا نزول فرماکر اپنے بندوں کے ساتھ ہمدردی اور احسان مندی کا معاملہ فرمایا تاکہ انسان سیدھے راستے پر چلے اور اس کی رحمت سے محروم نہ ہو ۔بیشک قرآن وہ شرچشمہ علم و حکمت ہے کہ جو تحریف سے مبرا اور کتب آسمانی کا مجموعہ ہے ۔ تاریخ انسانی میں قرآن مجید وہ پہلی کتاب ہے جو نہ صرف مذہبی کتابوں میں بلکہ ہر قسم کی کتابوں میں وہ پہلی کتاب ہے ، جس نے انسان کو یہ بتایا کہ اس کائنات میں جو کچھ ہے وہ تمہارے فائدے اور استعمال کے لئے پیدا کیا گیا ہے، باری تعالی کا ارشاد ہے ” وسخر لكم ما في الارض جميعا ” زمین و آسمان کے درمیان جو کچھ پایا جاتا ہے، وہ اجرام فلکی ہوں ، وہ گرجتے بادل ہوں ، وہ بہتے دریا ہوں ، وہ چمکتے ستارے ہوں ، گہرے سمندر ہوں ، وہ خطرناک جانور یا دیگر مخلوقات ہوں ، یہ تمام کی تمام چیزیں انسان کے فائدے کے لئے ، اور اس کی خدمت کے لئے پیدا کی گئ ہیں ۔

قرآن عام کتابوں کی طرح کوئ کتاب نہی بلکہ یہ تو ایسی کتاب ہے جس نے دنیا کو ایک نئے انقلاب ، نئ تہذیب ، نئے تمدن ، نئے قانون ، نئے عقیدے ، نئ ثقافت اور پوری انسانی زندگی کو ایک نئے چلن اور نئ روش سے متعارف کروایا جو لوگ اس نئ روش اور نئے چلن کو جاننا چاہتے ہیں تو پھر انہیں قرآن مجید کا مطالعہ کرنا چاہئیے ۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا وہ دور دیکھئے کہ انہوں نے قرآن مجید کو روئے زمین کے کونے کونے میں پھیلایا ، حضرات صحابہ نے کس کس انداز اور کس کس نوعیت سے قرآن کو محفوظ رکھا ، اور کن کن طریقوں سے کام لیکر اس کو عام کیا ۔۔۔۔۔صرف اسی پر بس نہی بلکہ صحابہ کرام نے جو تابعین کی نسل تیار کی ، اور پھر تابعین نے تبع تابعین کی جو نسل تیار کی ۔انہوں نے مسلمانوں کے مزاج ، مسلمانوں کے رگ و پے اور مسلم معاشرہ کی بنیادوں میں قرآن مجید کو اس طرح رچا بسا دیا کہ جو شخص اس معاشرے میں داخل ہو گیا ۔۔۔وہ قرآن مجید کے رنگ میں رنگ گیا ۔ایک پوری نسل چین سے لیکر مراکش تک اور سائبیریا سے لیکر سوڈان کے جنوب تک ایسی پیدا ہو گئ ، جس کے سوچنےسمجنے اور نظر و فکر کا انداز قرآنی تعلیم کے مطابق اور جن کے عقائد و نظریات قرآن مجید کے دئیے ہوئے تصورات سے ہم آہنگ ، جس کا طرز عمل قرآن مجید کے احکام پر مبنی ، اور جس کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا ہر پہلو قرآن مجید کے نور سرمدی سے مستنیر تھا ۔وہاں ہر گھر قرآن کی درسگاہ تھا ، وہاں ہر مسجد قرآن کی یونیورسٹی تھی وہاں ہر بستی قرآنی تربیت گاہ تھی وہاں پر درسگاہ میں علم و بصیرت کی بنیاد ” کتاب الہی ” تھی ۔ تاریخی حیثیت سے بھی اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں نے قرآن مجید کو بنیاد بنا کر علوم و فنون کو کتنی ترقی دی اور کس طرح قرآنی فکر کو عام کیا ؛ تو محیر العقول انسانی کاوشوں کے عجیب و غریب داستانیں سامنے آئیں گے ۔ اللہ تعالی نے بندوں کو جتنی نمٹیں عطا کی ہیں ان میں قرآن پاک سب سے بڑی نعمت ہے جس کی تلاوت سے ایک مسلمان خدا سے قریب ہوتا ہے اور خدا اس سے قریب ہوتا ہے ۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ لوگوں میں سے کچھ خاص اللہ کے گھر کے لوگ ہیں ۔صحابہ کرام نے پوچھا کہ وہ کون لوگ ہیں ؟ آپ نے فرمایا : وہ قرآن والے ہیں ۔یہ اللہ کے گھر کے لوگ اور اسکےخاص بندے ہیں ۔یہ تعلق بندے کو اللہ سے اتنا قریب کر دیتا ہے جیسے کہ دنیا میں کسی کے گھر کے خاص لوگ ہوں ۔

 قرآن مجید خالق کائنات کا وہ سدا بہار ، دائمی عالمی اور انقلابی پیغام حیات ہے ، جو کتاب ہدایت بھی اور کتاب زندگی بھی ۔یہ عظیم نسخہ کیمیاء ہے جس کے ذریعہ دنیا میں بھی عزت و کامرانی ہوگی اور آخرت میں بھی کامیابی کی ضمانت مل جائیگی ۔لیکن ہماری بدقسمتی دیکھیے کہ اس نسخہ کیمیا کی عظمت و قدردانی سے بالکل ناواقف ہیں ، ہمارا تعلق قرآن سے کمزور کیا بلکہ بلکل منقطع نظر آتا ہے جو بہت ہی افسوسناک ہے ۔ قرآن ہمارے پاس موجود ہے ہم اس کا ادب و احترام ضرور کرتے ہیں ، طاقوں میں اور حریر و ریشم کے رنگ برنگ جزدانوں میں ضرور سجا کر رکھے ہیں۔مگر قرآن کے حقوق ادا نہی کرتے ، جبکہ ایک مسلمان کی زندگی قرآن کے بغیر ناقص اور ادھوری ہے ۔ تو آئیے ! ایسے پر آشوب دور ،سنگین حالات اور پر خطر زندگی میں ایک نیا عزم و ارادہ کریں ۔اور قرآن کو مضبوطی سے پکڑیں اور قرآن سے اپنا تعلق مضبوط کریں۔قرآن کے حقوق کہ “قرآن کی تلاوت کرنا ،قرآن کو سمجھنا اور غور و فکر کرنا ، قرآن پر عمل کرنا ،( احکام و قوانین پر عمل کرنا اور منہیات و منکرات سے پرہیز کرنا ) اور آخری یہ کہ قرآنی پیغام اور دعوت کو زیادہ سے زیادہ دوسروں تک پہونچانا” ان سب کو اپنی زندگی میں داخل کرلیں، اور اپنا نصب العین بنالیں ۔ ارشاد ربانی ہے ” کنتم خیر امة ۔۔۔اھ ۔کہ تم بہترین امت ہو لوگوں کو بھلی باتوں کا حکم دیتے ہو اور برائ سے روکتے ہو ۔ اگر ہم قرآن مجید کے حقوق ادا کریں گے تو دنیا و آخرت کی کامیابی ہمارے حصے میں آئیگی ۔اور اگر ہم نے ان ذمہ داریوں کو ادا نہ کیا تو یہی قرآن اللہ کی عدالت میں ۔ہمارے خلاف بطور دلیل پیش ہوگا ۔اور اس وقت کیا حال ہوگا ؛ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی بارگاہ میں عرض کریں گے : اے پروردگار! میری اس قوم نے قرآن مجید کو چھوڑ دیا تھا ۔.