قیامت کی نشانیاں اور ایمان کی سلامتی

تاثیر اردو نیوز سروس،4؍جون، 2020

ابونصر فاروق،رابطہ:8298104514-6287880551ْ

(۱) سوال کرنے والے نے پوچھا، قیامت کی نشانیوںکے متعلق بتائیے:نبیﷺنے فرمایا پہلی نشانی یہ ہے کہ باندی اپنے آقا کو جنم دے گی، تم دیکھو گے کہ ننگے پیروں اور ننگے بدن رہ کر بکریاںچرانے والے مفلس عالی شان محلوںمیںعیش کریںگے۔حدیث کے راوی حضرت عمرؓکہتے ہیں کہ سوال کر کے وہ حضرت تو چلے گئے لیکن میں کچھ دیر بیٹھا رہا تو نبیﷺ نے مجھ سے فرمایا:جانتے ہو وہ سوالات کرنے والا کون تھا؟ میںنے کہا اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔نبیﷺنے فرمایا : وہ جبرئیل امین تھے جو تمہیں دین و اسلام کی تعلیم دلانے آئے تھے۔(مسلم)

اس حدیث کا نام حدیث جبرئیل ہے۔پوری حدیث کا یہ آخری حصہ ہے۔باندی آقا کو جنم دے گی کا مطلب یہ ہے کہ ماں جو بیٹے کو جنم دیتی ہے وہ اُس کی بیوی کے سامنے نوکرانی بن جائے گی۔جاہل اور گنوار لوگ اتنے دولت مند ہو جائیں گے کہ عالی شان محلوں میں رہنے لگیں گے۔یہ دونوں چیزیں آج ظاہر ہو چکی ہیں۔

(۲) حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:اندھیری رات جیسے فتنوں سے پہلے اعمال جلدی کر لوجن میں آدمی صبح کو مومن اور شام کو کافر ہوگا۔شام ایمان کی حالت میں کرے گا اور صبح کو کافر ہو جائے گا۔ اپنے دین کو لوگ دنیاوی مال کے بدلے بیچ دیں گے (مسلم)

اندھیری رات بڑی ڈراؤنی چیز ہوتی ہے۔یعنی دنیا کے حالات ایسے ہو جائیں گے کہ ایمان کا بچانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جائے گا۔ انسان مال و دولت کی خاطر اپنے ایمان کا سودا کرنے لگے گا۔وہ ارادہ کرے گا کہ اپنے ایمان کو نہیں بیچنا ہے،لیکن شام ہوتے ہوتے اُس کا ارادہ کمزور ہو جائے گا اور وہ دنیا والوں کے سامنے گھٹنے ٹیک کر اپنا ایمان بیچ دے گا اور دنیا کی دولت اور اسباب اکٹھا کر لے گا۔

(۳) حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:زمانہ قریب ہو جائے گا۔ علم اٹھا لیا جائے گا۔فتنے ظاہر ہوں گے۔ بخل (دلوں میں )ڈال دیا جائے گا۔اور ہرج (قتل) کی کثرت ہو جائے گی۔ (بخاری، مسلم)
علم جو دراصل قرآن میں موجود ہے اُس کے جاننے اور سیکھنے والے ختم ہو جائیں گے اور قرآن کے علم سے محروم بے علم لوگ دین کے نام پراپنی بے دینی کی باتوں سے لوگوں کے ایمان کے لیے فتنہ یعنی آزمائش بن جائیں گے۔مال کی محبت آدمی کو بخیل بنا د ے گی اور مال کی وجہ سے قتل و غارت گری بڑھ جائے گی۔یہ صورت حال بھی اب سامنے آ چکی ہے۔

(۴) حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ میںنے رسول اللہﷺ کوفرماتے سنا: قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ علم اٹھا لیا جائے گا، جہالت بڑھ جائے گی،زنا کی کثرت ہوگی،شراب بہت پی جائے گی،مرد گھٹ جائیں گے اور عورتیں بڑھ جائیں گی،یہاں تک کہ پچاس عورتوں کی نگرانی کرنے والا ایک مرد ہوگا۔ (بخاری، مسلم)

علم اس طرح ختم ہو جائے گا کہ اللہ تعالیٰ ایسے بندوں کو اٹھا لے گا جو علم والے ہوں گے اور دنیا میں عالم کے نام پر جاہل رہ جائیں گے جن کی کثرت ہو جائے گی۔آوارگی اتنی بڑھے گی کہ زنا کرنا آسان ہو جائے گا۔شراب کی تجارت کو ترقی ہوگی اور لوگ شراب پانی کی طرح پینے لگیں گے۔شراب پینے کی وجہ سے مرد مہلک بیماری کے سبب مرنے لگیں گے اور اس طرح عورتوں کی تعداد بڑھ جائے گی۔

(۵) حضرت جابر بن سمرہ ؓ سے روایت ہے کہ میںنے رسول اللہﷺکوفرماتے سنا قیامت سے پہلے جھوٹ بولنے والے بہت ہوں گے، اُن سے دور ہی رہنا۔ (مسلم )

سچ بولنے میں نقصان کا ڈر پیدا ہو جائے گا اور جھوٹ بولنے کا رواج ہو جائے گا۔ یہ حالت بھی اب سب کے سامنے ہے۔اہل ایمان کو نبیﷺ حکم دے رہے ہیں کہ ایسے جھوٹے لوگوں سے دور ہی رہنا۔لیکن مسلمان جھوٹنے بولنے میں ڈھیٹ ہو چکے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کے بغیر کام ہی نہیں چل سکتا ہے۔

(۶) حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے حاضر ہو کر پوچھا، قیامت کب ہوگی ؟ رسول اللہﷺنے فرمایا:جب امانت ضائع کر دی جائے تو قیامت کا انتظار کرنا۔پوچھا گیا امانت کیسے ضائع کر دی جائے گی ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:دنیا کا کاروبار نااہل لوگوں کے حولے کر دیا جائے گا تو قیامت کا انتظار کرنا۔(بخاری)

جو لوگ قوم اور ملک و ملت کے ذمہ دار بنائے جاتے ہیں اُن کودولت اور اسباب کا مالک بنادیا جاتا ہے۔یہ ذمہ داری ایسے بے ایمان اور نااہل لوگوں کے ہاتھوں میں دی جانے لگے گی، جو خود کومال و اسباب کا امانت دار نہیں مالک سمجھیں گے اور لوگوں سے زیادہ اپنے فائدے کے لیے اُس مال و اسباب کا استعمال کریں گے۔عوام بھی ایسی جاہل اور احمق ہو جائے گی کہ کن لوگوں کے ہاتھ میں امانت دی جائیے اس کا صحیح فیصلہ نہیں کر سکے گی۔دنیا میں جب ایسے حالات پیدا ہو چکے ہیں تو اللہ او ر رسول کا فتویٰ کیا ہے وہ بھی پڑھئے:

(۷) تم نیکی کو پہنچ ہی نہیں سکتے جب تک اپنی وہ چیزیں (اللہ کی راہ میں )خرچ نہ کرو جنہیں تم عزیز رکھتے ہو۔اور جو کچھ تم خرچ کروگے اللہ اُس سے بے خبر نہ ہوگا۔(آل عمران:۹۲) حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں ،رسول اللہﷺنے فرمایا:مال کا لالچ اور ایمان دونوں کسی بندے کے دل میں ہرگز جمع نہیں ہوں گے۔ (نسائی)اللہ اپنی راہ میں مال خرچ کرنے کا حکم دے رہا ہے اور نبیﷺ کافتویٰ ہے کہ مال کا لالچ اور ایمان دونوں انسان کے دل میں رہ سکتے ہیں۔

(۸) تم میں کچھ ایسے لوگ تو ضرور ہی رہنے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں ،بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔(آل عمران:۱۰۴)حضرت حذیفہ ؓ روایت کرتے ہیںکہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے تم ضرور نیک باتوں کا حکم دیتے رہنا اور بری باتوں سے روکتے رہنا ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر عذاب مسلط کر دے گا پھر تم دعا کروگے مگر تمہاری دعا قبول نہیں ہو گی۔ (ترمذی) اللہ تعالیٰ حکم دے رہا ہے کہ جب مال و اسباب کے جمع کرنے والی ایمان کی دشمن برائی سماج میں رواج پا جائے تو اس سے روکنے والے کچھ لوگ ضرور ہونے چاہئیں۔جو لوگ یہ عمل کریں گے وہی کامیاب قرار دیے جائیں گے۔نبی فتویٰ دے رہے ہیں کہ بھلائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کا عمل لوگ نہیں کریں گے تواُن پر عذاب آئے گا اور اُن کی دعائیں قبول نہیں ہوں گی۔

مسلم نوجوانوں کو ملت کے تمام قائد و رہبر جوش دلا رہے ہیں کہ خوب ڈگریاں حاصل کرو،پھر اعلیٰ درجہ کی نوکری کرواور خوب دولت کما کر عیش و عشرت کی زندگی گزارو۔ایسے لوگ دیکھنے کو ملتے ہی نہیں ہیں جو بتا رہے ہوں کہ قیامت کی نشانیاں ظاہر ہو چکی ہیں۔ایمان کی سلامتی خطرے میں پڑ چکی ہے۔محنت و مشقت سے کمائی ہوئی کم اور تھوڑی حلال آمدنی پر قناعت کے ساتھ جینے کی عادت ڈالو۔ عیش و عشرت کی زندگی سے توبہ کرو،ورنہ ایمان سے محروم ہو جاؤگے اور دونوں جہان میں نامراد و ناکام بنو گے۔

ان تمام حدیثوںاور آیتوں کو پیش کرنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ لوگ ان کو پڑھ کر تبصرہ اوربحث و مباحثہ شروع کر دیں، جو آج کل لوگوں کی عام عادت ہو گئی ہے۔بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ ہر آدمی ان احادیث اور آیات کی روشنی میں اپنا جائزہ لے کہ اُس کا ایمان سلامت ہے اور کیا اللہ اُس کے مسلمان ہونے کی ضمانت دیتا ہے یا قیامت میں دے گا۔یا وہ خودبیان کی گئی ان تمام گندگیوں کا شکار بنا ہوا ہے۔خدا نہ کرے اگر ایسا ہے تو ایسے انسان کے لیے دنیا اور آخرت دونوں جگہ تباہی اور بربادی ہے۔

حسن عمل سے ملتی ہے اللہ کی رضا
خوش ہوتے ہیں نبی بھی اسی کار خیر سے
کرتے رہے گناہ تو شیطان بن گئے
کیسے نجات اور شفاعت تمہیں ملے
(صارمؔ)