ڈاکٹر چندانی کی یہ سزا ہے یا انعام؟ سید مصطفیٰ علی قادری۔

تاثیر اردو نیوز سروس،6؍جون، 2020

(علی گڑھ 06/جون) کانپور میں واقع میڈیکل کالج کی پرنسپل ڈاکٹر آرتی لال چندانی کی ایک ویڈیو مسلم مخالف سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں وہ مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز گفتگو کرتے ہوئے نظر آئی۔ ڈاکٹر آرتی لال چندانی وہ زہریلی عورت ہے جو اپنے بیان میں کہہ رہی ہے “مسلم مریضوں کے لیے حکومت ہمارے لوگوں کی جانیں خطرے میں ڈال رہی ہے میں کہتی ہوں کہ ان مریضوں کو زہر کا انجکشن لگائیں جائیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں اسپتال میں داخل کرنے کے بجائے جیلوں میں ڈال دینا چاہیے

یہ لوگ دہشت گرد ہیں” جب یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاھب کے لوگوں نے ڈاکٹر آرتی لال چندانی کے بیان کے خلاف قانونی کاروائی کرنے کا مطالبہ کیا لیکن بی جے پی گورنمنٹ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ملک میں نفرت پھیلانے والوں کے ساتھ کھڑی نظر آئی، ریاستی حکومت کو ڈاکٹر چندانی کے خلاف سخت ایکشن لینا چاہیے تھا تاکہ کوئی آئندہ کسی بھی مذہب کے خلاف ایسا بیان نہ دے سکے اور ملک کی گنگا جمنی تہذیب میں کسی بھی طرح سے کوئی مسئلہ پیدا نہ ہوسکے۔ لیکن ڈاکٹر زہریلی کے خلاف قانونی کاروائی کرنے بجائے اسے جھانسی میڈیکل کالج ٹرانسفر کیا گیا، انہیں سزا نہیں تحفہ دیا گیا۔

اس صورت میں علی گڑھ کی متحرک فعال تنظیم کل ہند انجمن اصلاح معاشرہ اہل سنت وجماعت کے تمام عہدیداران ریاستی حکومت سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر چندانی کے لیے یہ سزا ہے یا انعام؟ کیا یہ یقین کیا جاسکتا ہے اس زہریلی ڈاکٹر کی وجہ سے جھانسی میں امن و امان قائم رہے گا؟ کیا یہ لیڈی کانپور کی طرح وہاں بھی نفرت کی بیج نہیں بوے گی؟ کیا وہاں کی بھائی چارگی کو نقصان نہیں پہنچائی گی؟ کیا ایسی زہریلی عورت سے جمہوری ہندوستان کی خوبصورتی کو دوبالا کرنے کی توقع کی جاسکتی ہے؟ کل ہند انجمن اصلاح معاشرہ اہل سنت وجماعت علی گڑھ کے تمام عہدیداران کیطرف سے ریاستی حکومت سے مطالبہ ہے کہ ریاستی حکومت ڈاکٹر زہریلی کو جھانسی ٹرانسفر کرنے کے بجائے اس کے خلاف سخت کروائی کرے اور اس کی ڈگری کو فوراً رد کرے تاکہ ملک کی سالمیت میں ایسی زہریلی، گندی ذہن والی عورت سے خطرہ پیدا نہ ہو۔