اسکولی نصاب میں تبدیلی کی تیاری اور اہمیت

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 06-July-2020

اس وقت پوری دنیا کورونا وبا کے مضر اثرات سے دوچار ہے اور اس سے اپنا وطن عزیز بھی مستثنیٰ نہیں ہے بلکہ متاثرین اور مرنے والوں کے اعدادوشمار کے مطابق عالمی سطح پر ہندوستان چوتھے نمبر پر آگیا ہے اور جس تیز رفتاری سے کورونا کی توسیع ہو رہی ہے اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ ملک میں کب تک اس کی توسیع ہوتی رہے گی اور اس لا علاج وبا سے لوگ باگ کی اموات ہوتی رہیں گی۔لیکن اس خوف وہراس کے ماحول میں بھی حکومت اپنے مخصوص نظریاتی ایجنڈوں کو پورا کرنے کے تئیں سنجیدہ ہے اور اس کے لئے عملی طورپر فعّال بھی نظرآرہی ہے۔گذشتہ پانچ مہینے سے تمام تر سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی ادارے بند ہیں ۔ تعلیمی سرگرمیاں معطل ہو کر رہ گئی ہیں ۔ البتہ بعض اداروں کے ذریعہ آن لائن کے ذریعہ نصاب پورے کئے جا رہے ہیں لیکن آن لائن تعلیم کتنی مفید ہے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ ہمارے ملک میں آن لائن تعلیم کے بنیادی ڈھانچے تیار ہونے میں ابھی کافی وقت لگیں گے ۔

بہر کیف!اس وقت قومی سطح پر اسکولی نصاب میں تبدیلی کا خاکہ تیار ہو چکا ہے اور حکومت اس پر بہت تیزی سے کام بھی کر رہی ہے۔ ضابطے کے مطابق قومی سطح پر ماہرین سے مشورے طلب کئے گئے ہیں ۔ ہر ایک اضلاع میں اس خاکہ پر مذاکرہ وسمینار کرنے کی ہدایت دی گئی ہے اور خاکہ کی منظوری کے بعد مرکزی ادارہ این سی آر ٹی اسکولی نصاب تیار کرے گا ۔ اس وقت کورونا کی وجہ سے تمام تر نقل وحرکت معطل ہے ، دفتری کام بھی ضروریات کے مطابق ہی ہو رہے ہیں ۔ ایسے وقت میں ملک کے اسکولی نصاب کو آناً فاناً میں تیار کرنے کی کوشش جاری ہے ۔ واضح ہو کہ کسی بھی ملک کی سمت ورفتار کے تعین میں اسکولی نصاب کو کلیدی حیثیت حاصل ہوتی ہے کیوں کہ ملک کے مستقبل کی ذہن سازی اسکولی نصاب کے ذریعہ ہی ہوتی ہے ۔اسکولی طلباء وطالبات کا ذہن گیلی مٹی کی طرح ہوتا ہے اور اس وقت اس کو جس روپ میں ڈھالنا چاہیں ہم ڈھال سکتے ہیں۔اگر اسکولی نصاب کوہندوستان جیسے کثیر اللسان ، کثیر المذاہب ، کثیر التہذیب وتمدن کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار نہیں کیا گیا تو پھر ملک کی تکثیریت کے لئے خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔واضح ہو کہ اس سے پہلے ۲۰۰۵ء میں اسکولی تعلیم کے نصاب پر قومی سطح پر مذاکرہ وسمینار وورکشاپ منعقد کئے گئے تھے اور اسی کی بنیاد پر ۲۰۰۶ء میں ایک نصاب تیار ہوا تھا۔اگر قومی تعلیمی پالیسی کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اسکولی نصاب میں ۱۹۷۵ء،۱۹۸۸ء، ۲۰۰۰ء اور ۲۰۰۵ء میں تبدیلی کی گئی ہے۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ۲۰۰۰ء میں جب نئے اسکولی نصاب کا خاکہ اضلاع میں بھیجا گیا تھا تو اس وقت درجنوں اجتماعی جلسوں اور تعلیمی اداروں میں ورکشاپ ومذاکرے کے ذریعہ اس خاکہ کو حتمی شکل دی گئی تھی۔مختلف طبقے کے ماہرینِ تعلیم کو مدعو کیا گیا تھا ۔ تعلیمی شعبے کے علاوہ دیگر شعبۂ حیات سے تعلق رکھنے والے مثلاً ڈاکٹر، انجنئیر، تاجر ، وکلاء ، سماجی کارکن، رضا کار تنظیموں کے اراکین کو مدعو کیا گیا تھااور پھر ایک خاکہ تیار ہوا تھا جس میں قومی یکجہتی اور مذہبی رواداری کو اہمیت دی گئی تھی تاکہ ہندوستان جیسے کثیر المذاہب اور سیکولر ملک کی نئی نسل کی ذہن سازی کی جا سکے۔ مگر اس دفعہ ایسا کچھ نہیں ہو رہاہے۔ البتہ اس نئے خاکہ میں کمپیوٹر سائنس اور جدید تکنیک پر زیادہ توجہ دینے کی بات کہی گئی ہے ۔ اسکولوں میں بھی سائنسی لیبارٹری پر فوکس کیا گیا ہے اور پہلے درجہ سے بارہویں تک کے لئے ایک صحت مند نصاب کی وکالت کی گئی ہے جس میں تخلیقی شعور ، کھیل کود ، ثقافت اور تہذیب وتمدن کے اسباق کی شمولیت کو لازمی بنانے کی بات کہی گئی ہے ۔لیکن سچائی یہ ہے کہ اس وقت جس طرح کی نظریہ سازی کا ماحول ہے اس میں کس طرح کا نصاب تیار ہوگا اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ واضح ہو کہ گذشتہ دو ہائیوں میں اسکولی نصاب میں جس طرح ملک کی آئینی روح کو مجروح کرنے کی کوشش کی گئی اسی کا نتیجہ ہے کہ قومی سطح پر ملک کی تکثیریت کے تانے بانے ٹوٹے ہیں ۔کیوں کہ ملک میں ایک خاص شدت پسند تنظیم کے زیر اہتمام پچیس ہزار سے زائد اسکول چل رہے ہیں اور ان اسکولوں میں جس طرح کی ذہن سازی ہو رہی ہے اس کے اثرات نمایاں ہیں کہ کس طرح ملک کی قومی ہم آہنگی کو خسارہ عظیم پہنچا ہے۔اب جب کہ ایک خاص نظریہ سازی کا ماحول ہے اور اس میں اسکولی نصاب کا خاکہ تیار کیا جا رہاہے اور پھر اسے حتمی صورت دی جائے گی اور نیا نصاب قومی سطح پر نافذ کیا جائے گا ایسے وقت میں ضرورت ہے کہ ملک کے ماہرینِ تعلیم اس خاکہ کا بغور مطالعہ کریں اور نصاب سازی کے وقت بھی چاق وچوبند رہیں کہ کہیں اس طرح کا نصاب نہ تیار ہو جائے جو ملک کی آئینی روح کو مجروح کرنے والا ہو ۔بالخصوص اقلیت طبقے کے ماہرینِ تعلیم اور ادارہ سازوں کو قدرے زیادہ ہی محتاط رہنے کی ضرورت ہے اور اس خاکہ پر غوروفکر کرنے کے لئے اجتماعی مذاکرے ، ورکشاپ منعقد کرنے کی بھی ضرورت ہے ۔ کیو ںکہ اگر اس وقت ہماری طرف سے کوئی مشورہ نہیں دیا جاتا ہے تو سرکاری ایجنسی کل کو یہ بات کہہ سکتی ہے کہ عوام الناس سے مشورہ طلب کیا گیا تھا لیکن اس وقت اس خاکہ پر کسی طرح کا اعتراض نہیں ہوا۔اس لئے خاکہ سازی سے لے کر نصاب کے تیار ہونے تک اس پر نظر رکھنی ہوگی کہ کیا اسکولی نصاب کو ایک خاص نظریے کے رنگ میں رنگنے کی کوشش تو نہیں ہو رہی ہے کیوں کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو وہ نہ صرف کسی خاص طبقے کے لئے مضر ثابت ہو سکتا ہے بلکہ ملک کی سا لمیت کے لئے بھی خطرہ پیدا کر سکتاہے۔درجہ اول سے بارہویں تک کے نصابوں میں تبدیلی کا عمل ممکن ہے بہت جلد پورا ہو جائے اور پھر این سی آر ٹی کے ذریعہ کتابیں تیار کی جانے لگیں کیوں کہ قومی سطح پر این سی آرٹی ہی اسکولی نصاب کو تیار کرتا رہاہے اور اب بھی یہ کام اسی کے ذمہ ہے۔ظاہر ہے کہ اس وقت تمام اداروں پر ایک خاص نظریے کے لوگوں کو بیٹھایا گیاہے اور ان کے خاص مقاصد بھی ہیں ۔ لیکن ہم ایک جمہوری ملک میں رہتے ہیں اور ہمیں یہ آئینی حقوق حاصل ہے کہ ہم ملک وقوم کے مفاد میں اپنی آواز بلند کرتے رہیں ۔ لیکن آئین کا تقاضہ یہ ہے کہ ہمیں بھی تمام تر ذہنی تعصبات وتحفظات سے اوپر اٹھ کر بروقت آواز بلند کرنی ہے کہ وقت گذرنے کے بعد ہماری ہر ایک صدا ، صدا بہ صحرا ہی ثابت ہوگی۔اس لئے تمام رضا کار تنظیموں ، سماجی کارکنوں اور بالخصوص تعلیمی شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اپنے ضلع میں قومی اسکولی نصاب کے خاکہ کے تعلق سے اپنا تحریری مشورہ دیں تاکہ اسکولی نصاب قومی رائے عامہ کا آئینہ دار بن سکے۔