اسلامی اعمال کواپنےزندگی میں لانےکی کوشش کریں، ایمان کی حفاظت جان سےبھی زیادہ ضروری سمجھیں:قاری شعیب احمد

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 29-August 2020

نوادہ /محمد سُلطان اختر س وقت ماہ محرم الحرام کے مہینہ سے ہم لوگ گذر رہے ہیں،اس کی فضیلت کیا ہیں افسوس کہ ہمیں اور آپ کو نہیں معلوم مذکورہ باتیں گذشتہ روز حضرت الحاج قاری شعیب احمددامت برکاتہم دارالقرآن مدرسہ عظمتیہ انصار نگر نوادہ نے فرمایا قاری صاحب نے مزید فرمایا کہ اسلامی ہجری سال کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے،سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمام مہینوں میں افضل ترین اللہ کا وہ مہینہ ہے جس کو تم محرم کہتے ہو، ایک اورروایت میں ہے کہ رمضان کے بعد سب سے افضل روزے ماہ محرم کے ہیں،یہ معلوم ہوناچاہٸے کہ اس مہینے کی فضیلت شہادت حسین کی وجہ سے نہیں، بلکہ حضرت حسین کی شہادت کے پہلے سے ہے،اسی مہینے کی دس تاریخ کو یوم عاشوراء کہا جاتا ہے، رمضان المبارک کے روزے کی فرضیت کے قبل اس دن کا روزہ فرض تھا، یہودیوں کے یہاں اس دن کی خاص اہمیت ہے، کیوں کہ اسی دن بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات ملی تھی، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ سےمدینہ ہجرت کرکے تشریف لے گٸے تو یہودیوں کو یوم عاشوراء کا روزہ رکھتے دیکھا، معلوم ہوا کہ یہودی فرعون سے نجات کی خوشی میں یہ روزہ رکھتے ہیں، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہم یہودیوں سے زیادہ اس کے حقدار ہیں کہ روزہ رکھیں، لیکن اس میں یہودیوں کی مشابہت ہے، اس لیے فرمایا کہ تم عاشورا کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو، اس طرح کہ عاشوراء سے پہلے یا بعد ایک روزہ اور رکھو۔ محدثین فرماتے ہیں کہ اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے اور حضرت یوسف علیہ السلام کنویں سے باہر آئے، حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی اسی دن واپس ہوئی، حضرت داؤد علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے، حضرت ایوب علیہ السلام کو مہلک بیماری سے نجات ہوئی، حضرت سلیمان علیہ السلام کو خصوصی حکومت ملی، اورنبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی دن ”غفر لہ ما تقدم من ذنبہ“کے ذریعہ مغفرت کا پروانہ عطا کیا گیا۔ اس طرح دیکھیں تو یہ سارے واقعات مسرت و خوشی کے ہیں اور اس دن کی عظمت وجلالت کو واضح کرتے ہیں،اس لیے اس مہینے کو منحوس سمجھنا، اور اس ماہ میں شادی بیاہ و دیگر تقریبات سے گریز کرنا، جہالت ہے،یقینا اس دن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی اہل خاندان کے ساتھ شہادت تاریخ کا بڑا دردناک اور افسوسناک واقعہ ہے، اس کے باوجود اس دن کو بُرا بھلا کہنا اور ماتم کرنا کہیں سے بھی درست نہیں ہے بلکہ تعلیمات اسلامی کے خلاف ہے اس لیے کہ مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت امام حسین ؓ اور ان کے خانوادے اللہ کی راہ میں شہید ہوئے ہیں، اورحق کی سر بلندی کے لیے شہید ہوئے ہیں، شہیدوں سے متعلق قرآن کریم میں صراحت ہے کہ جو اللہ کی راہ میں قتل کر دیئے گئے انہیں مردہ مت کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں، البتہ تم اُن کی زندگی کو سمجھ نہیں سکتے، قرآن شہید کو زندہ قرار دیتا ہے، ایمان والوں کو تو مُردوں پر بھی ماتم کرنے، سینہ پیٹنے اور زور زور سے آواز لگا کر رونے سے منع کیا گیا ہے، پھر جو زندہ ہیں، ان کے ماتم کی اجازت کس نے دیا ہم غور کریں اور سوچیں اصلاح کی فکرکریں ۔مزید یہ کہ تعزیہ نکالنا تعزیہ کے ساتھ نعرے لگانا یاعلی یا حسین ؓ صحابی رسول داماد رسول نواسہ رسول صل اللہ علیہ وسلم کا نام ٹیڑھا میڑھا لے کر نام کی توہین کی جاتی ہے، تعجب اور حیرت کی بات یہ ہیکہ اس لایعنی کام کو ثواب سمجھ کر کیا جا تا ہے،ڈھول بجانا ناچنا کسی کے نام پر مرغا پکانا یہ سب غیر اسلامی کام ہے اس لیے مسلمانوں کو ایسی کسی بھی غیر اسلامی حرکت سے پر ہیز کرنا چاہیے،خود بھی بچنا چاہئے اور بچوں کو بھی بچانےکی کوشش کرنی چاہیۓ،اسلام اور شعار اسلام کی حفاظت ضروری ہے ایمان نہیں تو کچھ نہیں زندگی کی کامیابی ایمان پر ہےاگر ہمارا ایمان مضبوط رہاتو ہمارا عمل ان شاء اللہ شریعت اسلامی کے مطابق ہوگا اگر ایمان کمزور رہا تو ظاہر ہے کہ ہمارا عمل کیسا ہوگا ہم خود سمجھ سکتے ہیں،ایمان کی حفاظت جان سے بھی زیادہ ضروری ہے،جو عمل اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند نہیں وہ ایک ایمان والے کو کیسے پسند ہو سکتا ہے غور کریں،رسم و رواج سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچاٸیں ،ان بابرکت ایام میں اگر توفیق ہو تو روزہ رکھیں نیک اعمال کثرت سے کریں، غیر اسلامی اعمال سے بچنےکی کوشش کریں اللہ سے دعا کریں ہم سب کا خاتمہ ایمان پر ہو اور اچھے اعمال کی توفیق ہوتی رہے یہ خبر مولانا ابوفضل رحمٰن مظاہری انصارنگر نوادہ نے دی ہے