تاریخی معاہدے کے بعد اسرائیل اور یو اے ای کے درمیان ٹیلیفون رابطہ بحال

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 17-August-2020

ابو ظہبی ( اے یوایس ) اسرائیل اور متحدہ عرب امارات نے دوطرفہ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے گذشتہ ہفتے کیے جانے والے اپنے ‘تاریخی’ معاہدے کے بعد اب دونوں ممالک کے مابین براہ راست ٹیلیفون خدمات کا افتتاح کر دیا ہے۔ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے ایک دوسرے کو فون کیا اور ‘تاریخی امن معاہدے کے بعد مبارکباد کا تبادلہ کیا۔’دوسری جانب اسرائیل کے وزیر برائے انٹیلیجینس کا کہنا ہے کہ بحرین اور عمان اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو باضابطہ بنانے کے لیے متحدہ عرب امارات کی پیروی کرنے والے اگلے دو خلیجی ممالک ہو سکتے ہیں۔جمعرات کے روز صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان امریکی ثالثی والے ‘تاریخی’ معاہدے کا اعلان کیا تھا جو کہ مشرق وسطی میں اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان تیسرا امن معاہدہ ہے۔اسرائیل نے سنہ 1979 میں مصر اور سنہ 1994 میں اْردن کے ساتھ امن معاہدات کیے تھے۔ مگر متحدہ عرب امارات کے دیگر خلیجی ممالک کی طرح اسرائیل کے ساتھ نہ تو سفارتی تعلقات تھے اور نہ ہی معاشی۔عالمی برادری نے زیادہ تر اس کا خیرمقدم کیا ہے لیکن فلسطینیوں، ایران اور ترکی نے اس کی مذمت کی ہے۔معاہدے کی شرائط کے تحت اسرائیل مقبوضہ مغربی کنارے کے حصے ملانے کے اپنے متنازع منصوبوں کو معطل کرنے پر رضامند ہوگیا ہے۔اسرائیلی وزیر خارجہ گبی اشکنزئی نے اپنے اماراتی ہم منصب عبد اللہ بن زید النہیان سے ٹیلی فون پر بات کی ہے۔ انھوں نے اتوار کے روز ٹویٹ کیا کہ دونوں فریقوں نے ‘متفقہ طور پر دونوں ممالک کے مابین معمول کے معاہدے پر دستخط کرنے سے قبل براہ راست مواصلاتی چینل قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ جلد ہی ملاقات کریں گے۔’اسرائیل کی وزارت مواصلات کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات میں ٹیلی کام فراہم کرنے والوں نے اسرائیل کے +972 ملکی کوڈ والے نمبروں پر کال کو کھول دیا ہے۔اسرائیلی وزیر مواصلات یواز ہینڈل نے کہا: ‘میں نے نمبر پر عائد پابندی ہٹانے پر متحدہ عرب امارات کو مبارکباد پیش کی ہے۔’اب بہت سارے اقتصادی مواقع کے در کھلیں گے اور یہ اعتماد سازی کے اقدامات دونوں ممالک کے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے اہم ہیں۔’توقع ہے کہ دونوں فریقین کے درمیان تین ہفتوں کے وقت میں واشنگٹن میں معاہدے پر دستخط ہوں گے جن میں تعلقات معمول پر لانے میں ایک دوسرے کی سرزمین پر سفارت خانے کھولنا بھی شامل ہوگا۔اس سے قبل خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اسرائیل کے وزیر برائے انٹیلیجنس ایلی کوہن نے آرمی ریڈیو پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘امارات، اسرائیل معاہدے کے نتیجے میں مزید خلیجی ممالک اور افریقہ کے مسلم ممالک کے ساتھ بھی معاہدے ہوں گے۔’انھوں نے کہا کہ ‘میرے خیال میں بحرین اور عمان یقیناً ایجنڈہ پر ہیں۔ اس کے علاوہ، میرے جائزے کے مطابق، اگلے سال کے دوران اس بات کا امکان کہ افریقہ کے ممالک کے ساتھ بھی امن معاہدہ ہو گا۔ ان افریقی ممالک میں سرِفہرست سوڈان ہے۔’اد رہے کہ بحرین اور عمان نے امریکی کی سرپرستی میں کیے جانے والے اسرائیل، امارات معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے تاہم ان دونوں ممالک نے اس حوالے سے کوئی رائے ظاہر نہیں کی کہ آیا وہ بھی اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لائیں گے یا نہیں۔اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو گذشتہ دو برسوں کے دوران عمان اور سوڈان کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کر چکے ہیں اس میں اسرائیلی وزیر اعظم کا اکتوبر 2018 میں عمان کا دورہ بھی شامل ہے۔اسرائیلی وزیر اعظم کے آفس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ نیتن یاہو نے اپنی کابینہ کے اراکین کو بتایا ہے کہ ‘مجھے توقع ہے کہ مزید ممالک ہمیں امن کی خواہش کے تحت جوائن کریں گے۔”یہ ایک تاریخی تبدیلی ہے جو عرب دنیا کے ساتھ امن کو آگے بڑھائے گی اور اس کے ذریعے فلسطینیوں کے ساتھ ایک حقیقی، پْرامن اور محفوظ امن کی داغ بیل پڑے گی۔’فلسطین نے اس معاہدے کو ‘غداری’ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔دوسری جانب امارات کی سرکاری نیوز ایجنسی ڈبلیو اے ایم کے مطابق متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کورونا وائرس کی تحقیق میں تعاون کرنے پر رضامند ہو گئے ہیں۔امارات کی کمپنی ‘اپیکس نیشنل انویسٹمنٹ’ اور اسرائیل کی فرم ‘ٹیرا گروپ’ صحت کے دیگر شعبوں میں تحقیق کے علاوہ کورونا وائرس کے تشخیصی عمل کو تیز تر بنانے اور ایک معیاری ٹیسٹنگ ڈیوائس تیار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔