حالات کے اشاروں کو سمجھنے کے لئے نئی نسل کی تربیت ضروری۔ ۔۔۔۔۔۔ صدر عالم نعمانی کربلا کی جنگ اقتدار کی بالا دستی کے لئے نہیں بلکہ اصولوں کی بقاء کے لئے تھی ۔۔۔۔۔

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 28-August 2020

رکسول۔ 28/ اگست ( محمد سیف اللہ ) یہ محرم کا مہینہ جب بھی آتا ہے ہم نواسہ حسین کی شہادت کو یاد کر کے جذباتی ہو جاتے ہیں لیکن یاد رکھئے اسلام کو ہمارے جذباتی نعروں کی نہیں بلکہ اس زندہ دلی کی ضرورت ہے جو کربلا کے میدان میں حضرت حسین نے پیش کرکے رہتی دنیا تک کے انسانوں کو یہ پیغام دے دیا تھا کہ اسلام کی بقاء ظالم کی اطاعت میں نہیں بلکہ اسلامی روایات کی پاسداری میں ہے اس لئے میں بلا کسی تردد کے کہونگا کہ آل رسول سے محبت اگر ہمارے ایمان کی پہچان ہے تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کو یاد کرکے سبق حاصل کرنا ہماری ذمہ داری اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم سڑکوں پر محبت حسین کے جھوٹے اور بناوٹی نعرے لگانے کی بجائے اپنے اندر حسینی کردار پیدا کرنے کی فکر کریں اور سماج کے ذمہ دار کی حیثیت سے اپنی نسلوں کو خرافات کی دنیا سے باہر نکال کر انہیں ان کا بنیادی فرض یاد دلائیں اور انہیں سمجھائیں کہ کربلا کی جنگ کا مقصد اقتدار حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ اسلام کے اصولوں کی بقاء کو یقینی بنانا تھا تاکہ کسی بھی طرح کے انتشار کے بغیر اسلام کی جڑیں ہمارے سماج میں مضبوط ہو سکیں یہ باتیں مولانا صدر عالم نعمانی معاون مدرس مدرسہ امداد العلوم بگہا نے جمعہ کے خطبہ سے قبل ذکر شہادت حسین کے دوران کہیں انہوں نے کہا کہ ملک کے موجودہ پس منظر میں قومی وملی مفادات کے تحفظ کے لئے ہمیں پوری اجتماعیت اور قوت ارادی سے کام کرتے ہوئے نئی نسل کے لئے مستحکم راہیں طے کرنے کے ساتھ انہیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس بھی دلانا ہوگا تاکہ وہ مکمل خود اعتمادی کے ساتھ ان راہوں پر چل کر اپنے مستقبل کی تعمیر میں پہل کر سکیں جو راہیں کامیابی کی منزل کو چھوتی ہوں یہ ہماری مشترکہ ذمہ داری بھی ہے اور ہمارا فرض بھی کیونکہ اگر ہماری بے توجہی سے یہ نسل غلط راہ پر چل پڑی اور اپنے طرز عمل سے اسلام کی غلط تصویر پیش کرنا شروع کردیا تو پوری امت کا مستقبل شک کے دائرے میں آجائے گا،ہم جانتے ہیں کہ ملک کے موجودہ حالات بڑے حساس ہیں اور سیاسی مفادات کے تحفظ کے لئے یہاں کی فضا میں نفرت وتعصب کا زہر گھولنے کی مسلسل کوشش کی جارہی ہے مگر وقت کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ ہم حالات کی سنگینی کے سامنے سر جھکا کر اپنے منصوبے کو فراموش کردیں یا غلط روش کے شکار ہو جائیں بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان حالات کا اسی جذبے سے مقابلہ کریں جس جذبے کا مظاہرہ ہم نے پہلے بھی کیا ہے اور جس کا پیغام ہمیں حضرت حسین کی شہادت سے بھی ملتا ہے،تاکہ ہماری آنے والی نسلوں سے احساس کمتری کا خاتمہ ہو سکے اور وہ کامیابی کی منزل کی طرف گامزن ہوں مگر یہ کام سڑکوں پر لگائے جانے والے نعروں سے نہیں بلکہ ہماری سنجیدہ فکر سے ہوگا،ہمیں اپنی نسلوں کو سمجھانا ہوگا کہ آزادی دیوار پر لکھی ہوئی کسی تحریر کا نام نہیں بلکہ اس بیدار ضمیری کا نام آزادی ہے جو کسی بھی قوم کو آگے بڑھنے اور دنیا کو اپنی حیثیت کا احساس دلانے کے مواقع فراہم کرتی ہے،اس لئے آپ کی یہ ذمہ داری ہے کہ حالات چاہیں جیسے بھی مگر آپ اپنے شرعی اصولوں کے ساتھ خود کو زندہ رکھنے کا پابند بنائیں،ورنہ اگر آپ موجودہ وقت میں مصلحت کی چادر اوڑھ کر خاموش ہو گئے یا آپ نے اپنے جمہوری حق پر حکومتی حملے کو قبول کر نے کے لئے خود کو تیار کرلیا تو آپ کی اپنی بے حسی اور دین سے بیزاری کسی بھی وقت انسانوں کی بستی میں آپ کو زندہ لاش بنا دے گی،انہوں نے کہا کہ کوئی بھی قوم دنیا کے نقشے پر اپنے وجود سے نہیں بلکہ اپنے علم اور مذہبی تشخص سے پہچانی جاتی ہے اس لئے آپ کا یہ فرض ہے کہ آپ اپنی مذہبی شناخت کو باقی رکھنے کے لئے اپنی انفرادی واجتماعی زندگی کو شریعت کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کیجئے اور یہ طے کیجئے کہ آپ اپنی زندگی کے ہر شعبے میں شریعت کے بتائے ہوئے راستوں پر چل کر اپنی زندگی گزاریں گے،ہمیں یہ بھی بھولنے کی غلطی نہیں کرنی چاہئے کہ اس وقت ملکی اور عالمی سطح پر اسلامی شریعت کو جس طرح نشانے بناکر اس کی حیثیت عرفی کو پامال کرنے کی مہم جاری ہے اور جس ڈھٹائی کے ساتھ ملک کے جمہوری قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے مسلمانوں کے عائلی مسائل میں تبدیلی کی راہیں تلاش کی جارہی ہیں وہ نہایت خطرناک ہیں ایسی صورت حال میں ہمیں اپنی نسلوں کی نہ صرف اخلاقی تربیت کرنی ہوگی بلکہ انہیں یہ بھی سمجھا نا ہوگا کہ آپ کی دینی بیداری اور شریعت سے گہری وابستگی ہی سازشی ذہن رکھنے والوں کے منصوبوں کو ناکام کر سکتی ہے اس لئے بحیثیت ذمہ دار آپ لوگ سماج کے ہر طبقے کو حالات کی سنگینی کااحساس دلا کر ان کے اندر دینی فکر پیدا کرنے کا فرض نبھائیں،ہم خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلام اس دنیا میں قیامت تک کے لئے آیا ہے اس کا پیغام ابدی اور پوری انسانیت کے لئے ہے لیکن اگر ہم اپنے رشتے کو اپنی شریعت اور آقا کے بتائے ہوئے اصولوں سے الگ کر لیں گے تو اللہ ہمیں عزت کے مقام سے اٹھاکر ذلت کی پستی میں گرا دے گا اور ہماری اس غلطی کی بنیاد پر دنیا کی قیادت کسی ایسی جماعت کے سپر کر دی جائے گی جو اللہ کے حکموں کو ماننے والے ہوں گے  ۔