فرانس کے ساتھ مل کر تارکینِ وطن کی آمد و رفت روکنا ہو گی: برطانیہ

Taasir Urdu News Network | London  (International)  on 12-August-2020

لندن: یورپی یونین سے انخلا کے بعد برطانیہ اپنی بحری سرحدوں کی کڑی حفاظت کر رہا ہے۔ ہزاروں تارکینِ وطن یورپی ملک فرانس سے برطانیہ کا رْخ کر رہے ہیں اور اس کے لیے وہ رودبادِ انگلستان کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔برطانیہ اور فرانس کے وزررائے خارجہ نے منگل کو پیرس میں رودبادِ انگلستان میں پھنسے ہوئے تارکینِ وطن کے مسئلے پر بات چیت کی ہے۔برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ سمندر میں کسی المناک حادثے سے بچنے کے لیے ہمیں رودبادِ انگلستان کا راستہ بند کر دینا چاہیے۔اب تک مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ کے چار ہزار سے زیادہ افراد نے اسی بحری راستے سے فرانس سے برطانیہ آنے کی کوشش کی ہے۔ ان میں وہ 700 افراد بھی شامل ہیں، جنہوں نے پچھلے ہفتے یہ سفر اختیار کیا تھا۔اس سفر میں استعمال کی جانے والی عارضی نا پختہ کشتیوں پر بے تحاشہ افراد سوار تھے اور ان کی زندگی کو خطرات لاحق تھے۔ ان کشتیوں میں دیگر مسافروں کے علاوہ بچے بھی شامل تھے۔پینتیس کلو میٹر کا یہ بحری راستہ جہازوں کی گزر گاہ ہونے کی وجہ سے خاصا مصروف رہتا ہے۔برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن نے لندن میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اقدامات اٹھائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ کو فرانس کے ساتھ مل کر تارکینِ وطن کی آمد و رفت کو روکنا ہو گا اور اْنہیں اس کے قانونی پہلوؤں کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے۔ حالیہ دنوں میں برطانیہ نے رودباِد انگلستان میں اپنے بحری جہاز تعینات کیے تھے، جو اس طرح کی آمد و رفت کی نگرانی کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ طیاروں کے ذریعے فضائی نگرانی بھی کی جا رہی تھی۔برطانوی بحریہ کے ایک سابق افسر کرس پیری کا کہنا ہے اس سلسلے میں برطانوی فوج کو استعمال کرنا درست ہے۔دوسری طرف امیگریشن کے وکیل کولن یے او نے بتایا ہے کہ تارکینِ وطن کی آمد و رفت کی بندش بحری اور بین الاقوامی قوانین کے تحت جائز نہیں ہے اور آپ کسی کو زبردستی اس طرح نہیں روک سکتے۔کولن کا مزید کہنا تھا کہ فرانس کی مرضی کے بغیر لوگوں کو فرانس کی سمندری حدود میں دھکیلنا ناقابلِ قبول ہے۔امیگریشن کے وکیل کولن کے مطابق اگر سمندر میں کوئی انسان مشکلات کا شکار ہے، تو اس کی مدد کرنا لازم ہو جاتا ہے۔انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تارکین وطن کس قدر پریشان ہیں۔ ان کے بقول برطانیہ کو چاہیے کہ عالمی مہاجرین کے اس بحران کے حل میں مدد دے۔