مدینۂ منورہ میں شہادت کی خبر

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 28-August 2020

شفیق احمد ابن عبداللطیف آئمی

اہل بیت کی مدینۂ منورہ روانگی حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کے اہل بیت کی مدینۂ منورہ روانگی کے تمام انتظامات مکمل ہو گئے تو یزید نے انہیں روانہ کر دیا ۔ علامہ محمد بن جریر طبری لکھتے ہیں : جب ان لوگوں نے روانہ ہونے کا ارادہ کیا تو یزید نے حضرت علی اوسط بن حسین رضی اﷲ عنہ کو بلا بھیجا اور اُن سے کہا : ’’ اﷲ مرجانہ کے بیٹے پر لعنت کرے ! اﷲ کی قسم! اگر حسین بن علی (رضی اﷲ عنہ) میرے پاس آتے تو جس بات کی وہ مجھ سے درخواست کرتے میں وہی کرتا ۔اُن کو ہلاک ہونے سے جس طرح بھی بن پڑتا میں بچا لیتا چاہے اِس میں میری اولاد میں سے کوئی تلف ہوجاتا تو ہوجاتا ۔ لیکن اﷲ کو یہی منظور تھا جو تم نے دیکھا ،تمہیں جس بات کی ضرورت ہو مجھے خبر کرنا میرے پاس لکھ کر بھیجنا ‘‘۔ پھر یزید نے ان سب کو کپڑے دیئے اور ان کے لئے ایک راہ نما مقرر کر دیا جس کا نام بدرقہ تھا ۔ یہ تمام اہل بیت کو لیکر روانہ ہوا ۔ سفر کے دوران قافلہ کے ساتھ اِس طرح رہتا تھا کہ سارا قافلہ اس کی نگاہ میں رہے اور جب پڑاؤ ڈالتے تھے تو کنارے ہو جایا کرتا تھا ۔ خود وہ بھی اور اُس کے ساتھی بھی ہر سمت قافلہ کے ارد گرد پھیل جاتے تھے جو طریقہ پاسبانوں کا ہوتا ہے ۔ وہ اور اُس کے ساتھی علیحدہ پڑاؤ ڈالتے تھے کہ اگر کوئی شخص وضو کرنا چاہے یا رفع حاجت کے لئے جانا چاہے تو اُسے کچھ بھی زحمت نہ ہو ۔ اِس طرح اُن لوگوں کو راحت پہنچاتا ہوا اُن کی ضرورتوں کو پوچھتا ہوا اور اُن کے ساتھ مہربانی سے پیش آتا ہوا سب کو لیکر مدینۂ منورہ آیا ۔سیدہ فاطمہ بنت علی رضی اﷲ عنہا نے اپنی بڑی بہن سیدہ زینب بنت علی رضی اﷲ عنہا سے عرض کیا : ’’ پیاری بہن ! یہ شامی شخص ہمارے ساتھ سفر میں بہت خوبیوں کے ساتھ پیش آیا ہے اسے کچھ انعام دے دیں‘‘ ۔ سیدہ زینب بنت علی رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : ’’ میرے پاس اِس کنگن کے سوا کچھ نہیں ہے جو اسے انعام میں دوں‘‘۔ سیدہ فاطمہ بنت علی رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : ’’ اچھا ہم دونوں اپنے اپنے کنگن اسے انعام میں دے دیتے ہیں‘‘۔ دونوں بہنوں نے اپنے اپنے کنگن اُتار کر بدرقہ کے پاس بھیجے ۔اُس نے عذر کے ساتھ کنگن واپس بھیج دیئے ۔ دونوں بہنوں نے کہلا بھیجا : ’’ راستے میں تم جس خوبی سے ہمارے ساتھ پیش آئے ہو یہ اُس کا صلہ ہے ‘‘۔ اُس نے جواب میں کہا : ’’ میں نے آپ لوگوں کی جو خدمت کی ہے اگر دنیا کی طمع میں کی ہوتی تو آپ کے اِس زیور سے بلکہ اس سے بھی کم میں خوش ہوجاتا ۔ لیکن اﷲ کی قسم! میں نے جو خدمت کی ہے وہ اﷲ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے آپ کی جو قرابت ہے اُس کے خیال سے کی ہے ۔

حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کی شہادت کی خبر مدینۂ منورہ میںحضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کو دس (۱۰) محرم الحرام ۶۱ ؁ ھجری عاشورہ کے دن شہید کیا گیا تھا ۔جب عبید اﷲ بن زیاد کو آپ رضی اﷲ عنہ کے شہید ہونے کی خبر ملی تو اُس نے فوراً اپنے قاصد کو مدینۂ منورہ یہ خبر دینے کے لئے روانہ کیا ۔ علامہ محمد بن جریر طبری لکھتے ہیں : عبید اﷲ بن زیاد نے جب حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کو شہید کیا اور اُن کا سر اُس کے پاس آگیا تو اُس نے عبد الملک سلمیٰ کو بلا کر حکم دیا کہ وہ خود مدینۂ منورہ جا کر وہاں کے گورنر عمرو بن سعید کو خبر دے ۔عبد الملک نے اِس حکم کو ٹالنا چاہا لیکن عبید اﷲ بن زیاد تو ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتا تھا ۔ اُس نے عبد الملک کو جھڑک دیا اور بولا : ’’ ابھی جا اور مدینۂ منورہ تک خود کو پہنچا اور دیکھ تجھ سے پہلے یہ خبر وہاں پہنچنے نہیں پائے ‘‘۔ پھر کچھ دینار اُسے عطا کئے اور تاکید کی کہ ذرا بھی سستی نہیں کرنا اور اگر تیرا ناقہ (اونٹ) راستے میں رہ جائے تو دوسرا اناقہ خرید لینا ۔ عبد الملک جب مدینۂ منورہ پہنچا اور اُسے قریش کا ایک شخص ملا اور پوچھا : ’’ کیا خبر ہے؟‘‘ عبد الملک نے جواب دیا : ’’ خبر امیر (گورنر) کو بتانے والی ہے‘‘۔ یہ سن کر قریشی نے کہا: ’’ حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ شہید ہوگئے ہیں ۔انا ﷲ وانا الیہ راجعون‘‘۔عبد الملک اب عمرو بن سعید کے پاس آیا ۔ دیکھتے ہی اُس نے پوچھا :’’ وہاں کی کیا خبر لایا ہے؟‘‘ اُس نے کہا : ’’ تمہارے خوش ہونے کی خبر ہے ۔ حسین بن علی (رضی اﷲ عنہ) شہید ہو چکے ہیں‘‘۔ عمرو بن سعید نے کہا: ’’ اِس خبر کی منادی کردے ’’۔ عبد الملک نے مدینۂ منورہ میں حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کے شہید ہونے کا اعلان کر دیا ۔ اِس کو سن بنو ہاشم کی خواتین نے اپنے اپنے گھروں میں نوحہ اور ماتم کرنا شروع کر دیا ۔ یہ سن کر عمرو بن سعید نے کہا : ’’ حضرت عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ کے شہید ہونے پر جو فریاد اور زاری ہوئی تھی یہ نوحہ اور ماتم اُسی کے بدلہ میں ہے ‘‘ ۔ اِس کے بعد عمرو بن سعید منبر پر گیا اور لوگوں کو حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کی شہادت کی خبر تفصیل سے بیان کی ۔

حضرت عبداﷲ بن جعفر طیار رضی اﷲ عنہ کا صبر حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کے ساتھ حضرت عبداﷲ بن جعفر طیار رضی اﷲ عنہ کے دو بیٹے بھی شہید ہوئے تھے ۔ حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کی شہادت کی خبر کے ساتھ ساتھ اُن کے دونوںبیٹوں کی شہادت کی خبر بھی ملی ۔ علامہ محمد بن جریر طبری لکھتے ہیں : حضرت عبداﷲ بن جعفر طیار کے پاس جب اُن کے دونوں بیٹوں کے شہید ہونے کی اطلاع ملی تو سب لوگ انہیں پرسہ دینے کے لئے آئے ۔اُن میں حضرت عبداﷲ بن جعفر طیار رضی اﷲ عنہ کا آزاد کردہ غلام ابو السلاس بولا: ’’ یہ مصیبت ہم پر حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ نے ڈالی ہے ‘‘۔ حضرت عبداﷲ بن جعفر طیار رضی اﷲ عنہ نے یہ سن کر اُسے جوتا کھینچ کر مارا اور فرمایا: ’’ او پسر لختاد! حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ نے بارے میں ایسی بات کہتا ہے ۔اﷲ کی قسم! اگر میں خود وہاں ہوتا تو اُن سے ہر گز جدا نہیں ہوتا اور یہی چاہتا کہ اُن سے پہلے میں شہید ہو کر اپنی جان اُن پر نچھا ور کر دوں۔ اﷲ کی قسم! وہ ایسے ہیں کہ اِن دونوں بیٹوں کے ساتھ میں بھی اپنی جان اُن پر فدا کردیتا ۔ میں اپنے دونوں بیٹوں کی شہادت کو مصیبت نہیں سمجھتا ہوں بلکہ انہوں نے میرے بھائی میرے چچا زاد بھائی کے ساتھ اُن کی رفاقت میںصبر و رضا کے ساتھ اپنی جان دی ہے ‘‘۔ یہ فرما کر اپنے ہم نشینوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : ’’ اﷲ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ جس نے ہمیں حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کی شہادت میں سے حصہنصیب فرمایا کہ حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کی نصرت میرے ہاتھ سے نہیں ہوئی تو کم سے کم میرے بیٹوں سے تو ہوئی ہے‘‘۔
حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کی شہادت پر مدینۂ منورہ میں آواز

حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کی شہادت سے زمین و آسمان لرز گئے اور زمین کے نیک لوگوں اور آسمان کی تمام مخلوق نے آپ رضی اﷲ عنہ کے قاتلوں پر لعنت کی ۔ علامہ محمد بن جریر طبری لکھتے ہیں : جب اہل مدینہ منورہ کو حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کی شہادت کی خبر ملی تو سیدہ اُم لقمان بنت عقیل رضی اﷲ عنہا اپنے خاندان کی خواتین کو لئے ہوئے نکلیں ۔وہ اپنی چادر کو لپٹتے ہوئے کہتی جا رہی تھیں : ’’ لوگو! اپنے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو کیا جواب دو گے ؟ جب وہ پوچھیں گے کہ تم پیغمبر آخرالزماں کی اُمت ہو کر میری عزت اور میرے اہل بیت کے ساتھ میرے بعد کیا سلوک کیا ؟ کہ اُن میں سے کچھ اسیر ہیں اور کچھ خون آلودہ ہیں‘‘۔ جس روز حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ شہید ہوئے اُسی دن صبح کو مدینہ منورہ میں یہ آواز آئی :’’ حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کے قاتلو! تم کو عذاب اور رسوائی مبارک ہو ۔تمام اہل آسمان ملائکہ اور انبیاء تم پر لعنت کر رہے ہیں ۔ تم پر حضرت موسیٰ ، حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام نے بھی لعنت کی ہے ‘‘۔ عمرو بن عکرمہ کہتا ہے :’’ میں نے یہ آواز سنی ‘‘۔ اور عمرو بن خیردم کلبی کہتا ہے :’’ میرے والد محترم نے بھی یہ آواز سنی ہے ‘‘۔

٭…٭…٭