موجودہ ماحول میں نئی نسل کو خود اعتمادی کا سبق پڑھایا جانا ضروری ۔۔۔۔۔۔

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 19-August-2020

رکسول ۔19/ اگست (محمد سیف اللہ)  ہمیں یہ بات بالکل نہیں بھولنی چاہئے کہ ملک ہمارا عشق ہے اور اس کو بچائے رکھنے کی کوشش کرنا ہماری مشترکہ ذمہ داریوں کا حصہ کیونکہ ہم خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ عظیم رہنماوں کی بے مثال قربانیوں سے آزاد ہوا یہ ملک آج کل اپنی راہ سے بھٹک کر جس رخ کی طرف جارہا ہے اور برسوں سے ہندو راشٹر کا خواب دیکھنے والی طاقتیں ہندوستان کی جمہوریت کو اپنے پاوں کا دھول بنانے کی جو سازشیں رچ رہی ہیں اگر ان کے بازو کو تھامنے اور ملک کی جمہوری قدروں کے تحفظ کو یقینی بنانے کی حکمت عملی پر غور نہیں کیا گیا تو آنے والے دنوں میں ہم خود کو آزاد کہلانے کا حق کھوکر ملک کے اکثریتی طبقہ کی فکری غلامی کا شکار ہوجائیں گے اس لئے ہمیں موجودہ منظر نامہ کی حساسیت کو سمجھتے ہوئے نہ صرف اپنی نئی نسل کو خود اعتمادی کے ساتھ آگے بڑھنے کا سبق پڑھانا ہوگا بلکہ انہیں ملک کی تعمیر وترقی کے حوالے سے ان کے فرائض یاد دلانے ہوں گے،لیکن یاد رکھئے اتنا عظیم کام ہماری خاموش مزاجی یا مصلحت پسندی سے انجام نہیں پاسکتا اور نہ ہی ہم اکثریتی طبقہ کی جی حضوری کے ذریعہ اپنے مشن تک پہنچنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں،بلکہ اس کے لئے ہمیں پوری احساس ذمہ داری کے ساتھ نئی نسل کے لئے مستحکم راہیں طے کرنی ہونگی اور انہیں بتانا ہوگا کہ ہندوستان اس ملک کے اکثریتی طبقہ کی جاگیر نہیں بلکہ ہمارے پرکھوں کی سرزمین ہے جس کی آزادی کے لئے ہم نے انگریزوں سے پنجہ آزمائی کی تھی،تاکہ ہماری نسلیں مکمل حوصلے کے ساتھ ان راہوں پر چل کر اپنے مستقبل کی تعمیر میں پہل کر سکیں اور اس ملک کو نفرت کی بنیاد پر توڑنے کی سازش ناکام ہو،یقین کیجئے اب مولانا ابوالکلام آزاد،حضرت شیخ الہند،مولانا حسین احمد مدنی،مولانا قاسم نانوتوی،سر
ید احمد خان اور مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی جیسے لوگ ہماری قیادت کے لئے لوٹ کر اس دنیا میں نہیں آئیں گے جن کی ایک آواز پوری قوم کے حوصلوں کا ترجمان ہوا کرتی تھی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آج پوری قوم جن باوقار ہستیوں کو اپنا قائد ورہبر سمجھتی ہے اور جن کی پکار پر لبیک کہنے پر وہ فخر کرتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں انہیں مصلحت کی چادر اتار کر اپنی تاریخی وراثت کے تحفظ کے لئے پیش رفتیں کرنی ہوں گی اور ملک کے خلاف گہری سازش میں مصروف لوگوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کی پیش رفتوں کا جواب مانگنا ہوگا،تاکہ اس ملک کو غلط راہ پر گامزن ہونے سے بچایا جا سکے،ورنہ کوئی بعید نہیں کہ اگر ہم آج بھی اتنے سارے ظلم کے باوجود مصلحت کی چادر اوڑھ کر سوئے رہے اور ہم نے مل کر اپنے آئینی حقوق کی بازیابی کے لئے جد وجہد نہیں کی اور ہم خاموشی سے اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا تماشا دیکھتے رہے تو نہ صرف مسلمانوں کی پوری تاریخ تبدیل کر کے اس پر بے اعتمادی کی چادر اوڑھا دی جائے گی بلکہ مستقبل میں بھی ہمیں قدم قدم پر کئی طرح کے دشوار کن حالات کا سامنا کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا،آپ کو یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ آج مسلمانوں کو صرف سماجی،اقتصادی اور تعلیمی شعبے میں ہی شدید دباؤ کا سامنا نہیں ہے بلکہ ملک کی سیاست میں ان کوحاشیے پر ڈالنے کے بھی بڑے پیمانے پر منصوبے تیار کئے جارہے ہیں یہی وجہ ہے کہ  پارلیامنٹ سے اسمبلیوں تک سیاسی نمائندگی میں اس وقت وہ سب سے نیچے ہیں اس کے علاوہ اعلیٰ تعلیم میں وہ پہلے کے مقابلے کافی پیچھے ہو گئے ہیں ظاہر ہے کہ ایسی صورت حال میں ٹھوس منصوبہ بندی کے سہارے ہی اپنے کھوئے ہوئے ماضی کو واپس لاکر بدلتے دور کے ساتھ پوری قوت کے ساتھ کھڑا رہا جا سکتا ہے اس لئے ہمیں اپنی موجودہ نسل کے اند خود اعتمادی کے ساتھ انہیں اقتصادی میدان میں اترنے کی صلاحیت پیدا کرنی ہوگی اور انہیں سیاست کے اصولوں سے واقف کراتے ہوئے اس میدان میں قابل اطمینان حصہ داری کے لئے تیار کرنا ہوگا،لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی نسلوں کو مایوسی سے باہر نکال کر انہیں زندگی کے مختلف شعبوں میں کلیدی رول ادا کرنے کے لئے ذہنی وفکری طور پر تیار کریں اور انہیں بتائیں کہ سیاسی میدانوں سے الگ ہوکر دوسرے کے رحم وکرم پر جیتے رہنے کی سوچ رکھنے والی قوم تاریخ کے پنوں سے کھرچ کر مٹادی جاتی ہے،ان کا نہ تو وجود باقی رہ پاتا ہے اور نہ ہی یہ سیاسی غلطی پھر انہیں سنبھل کر آگے بڑھنے کا ہنر سکھاتی ہے،مجھے یہ بتانے میں کوئی تردد نہیں کہ ابھی اس قوم کا نوجوان طبقہ اپنے رہنماوں سے مایوس نہیں ہوا ہے انہیں کل بھی ان کی قیادت پر یقین تھا اور آج بھی ہے بس ضرورت انہیں سہارا دینے کی ہے ۔۔۔