نتیش کمارنے دنگائیوں کو فساد ودہشت پھیلانے کی کھلی چھوٹ دے دی ہے

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 14-August-2020

اسلم رحمانی

ترجمان انصاف منچ بہار

بہار میں بھی وقت گزرنے کے ساتھ نظم ونسق اور قانون کا راج ختم ہوتا جارہا ہے۔ انتظامیہ اور پولیس کی مجرمانہ خاموشی سے دنگائیوں کے حوصلے دن بہ دن بلند ہوتے جارہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار نے دنگائیو ں کو فساد ودہشت پھیلانے کی کھلی چھوٹ دے دی ہے۔  اگر یہ بات صحیح نہیں ہوتی تو شمالی بہار کے مظفرپور و دربھنگہ میں فرقہ وارانہ واقعہ رونما نہیں ہوتا ۔

مظفرپور ضلع کےاورائی تھانہ حلقہ کے مصراولیا جگولیا گاؤں کی خواتین شاہدہ خاتون،شاہینہ خاتون،خوشبودہ،ثمینہ،عشرت خاتون،جمیلہ خاتون،و مرد مجیب الرحمان،

عبدالخالق،ظہیر،معین،عرفان،کوثر نے اشکبار آنکھوں سے پولیس کی بربریت کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ   مظفرپور ضلع کے اورائی اسمبلی حلقہ کے جگولیا مصراولیاء گاؤں  میں 12اگست کو جنم اسٹمی کا تہوار لوگوں نے منایا جہاں گانا بجانا اور ڈی جے کے ساتھ بغیر اجازت کے پانچ سو کے جم غفیر نے مورتی ویسرجن کو لیکر ماحول کو بگاڑنے کی کوشش کی اور حالات کو دھماکہ خیز بنایا گیا پولس پوری طرح جانبدار ہوکر حالات پر امن کرنے کے بجائے پر خطر بنانے کی کوشش کی جو انتہائی شرمناک ہے,رات کے 12 بجے جگولیا,مصراولیاء گاؤں میں پولس نے یکطرفہ مسلمانوں کی گرفتاری کی اور لاٹھی ڈنڈے بھی چلائے,حد تو یہ ہیکہ بے رحم خاکی وردی والوں نے بچے بوڑھے اور عورتوں کو بھی نہیں چھوڑا اور ان پر ظلم و بربریت کی انتہاء کردی ان  کے گھر میں گھس کر رکھے سامان کو بھی توڑ پھوڑ دیا کوٹھی میں رکھے اناج کو تباہ و برباد کردیا,تالے پڑے مکانات کا تالہ توڑ کر اندر گھس گئے,اور رکھے سامان کو نقصان پہونچایا،گاؤں کے باشندوں نے یہ بھی بتایاکہ جلوس سابقہ روایت کے مطابق پرانے راستہ ہوکر لے جانا تھا مگر فرقہ پرست عناصر نے نیا راستہ اختیار کیا جس میں مسلمانوں کا قبرستان پڑتا ہے

اقلیت طبقہ کے منع کرنے پر نہیں مانے اور جے شری رام اور جذبات کو بھڑکانے والے نعرہ کے ساتھ اقلیت فرقہ کو للکارتے اور اور نامناسب الفاظ سے نوازتے ہوئے نکلنے کی کوشش کی،مگر مسلم سماج کے کچھ نوجوان مشتعل ہو گئے اور روکنے کی کوشش کی آنا فانا اورائی تھانہ کو اس واقعہ کی جانکاری دی گئی،جائے وقوع پر تھانہ صدر پولس دستہ کے ساتھ پہونچ گئے اور موقع پر  تھانہ صدر راجیش کمار نے پولس دل کے ساتھ مورتی سرجن کی ذمہ داری لیتے ہوئے ماحول کو پر امن بنانے کی مسلم طبقہ کو یقین دہانی کرائی،مگر پولس اور فرقہ پرست عناصر کی ملی بھگت سے حالات مزید بے قابو ہوگئےاور پولس نے اسی رات ایک سو سے زیادہ کی تعداد میں آکر مسلم محلہ میں ظلم و بربریت کی اور بغیر سوچے سمجھے یکطرفہ 11/مسلمانوں کی گرفتاری کی،جو تشویشناک ہے۔ لیکن مسلمانوں کی طرف سے کوئی ردعمل نہ ہونے کی وجہ سے معاملہ بگڑ نہیں سکا,لوگوں کا الزام ہیکہ پولس اکثریت فرقہ کا ساتھ دے رہی ہے۔اور انہیں تحفظ فراہم کر رہی ہے۔وہیں مقامی لوگوں نے معاملہ کو رفع دفع کرنے کے اور بے قصور گرفتار افراد کی رہائی کو لیکر ایک مٹینگ بلائی تھی جس میں اورائی تھانہ کو بھی شریک ہونا تھا مگر اورائی تھانہ انتظامیہ یہاں بھی جانبدار بن کر فرقہ وارانہ رول ادا کر رہی ہے جس سے مسلم طبقہ میں اور خوف و دہشت کا ماحول قائم ہوگیا ہے۔

اسی طرح دربھنگہ میں 13/اگست 2020 بروز جمعرات شام کے چھ بجے دوگھراگاؤں تھانہ جالے، کے باشندے مولانا ذکی احمدمظاہری،سمیع احمد، مولانا زاہد وصی ندوی اپنی بیوی بچوں کے ساتھ پڑوس کی بستی سے لوٹ رہے تھے کہ مہادیو چوک پر پہلے سے فساد مچا رہے چند دنگائیوں نے ان کی گاڑی جبرا روکوائی اور انہیں بے دردی کے ساتھ زد وکوب کیا ہے۔ سمیع احمد جو کہ ہارٹ کے مریض ہیں، ان کا سر بری طرح زخمی ہوگیا ہے، وہیں مولانا ذکی احمد مظاہری اور دیگر لوگوں کو بھی ہاتھ اور پاؤں میں بہت زیادہ چوٹیں آئیں۔ ان تمام میں سب سے تعجب اور خوفناک بات یہ ہے کہ جائے وقوعہ پر دنگائیوں سے کہیں زیادہ پولیس کے اہلکار موجود تھے۔ لیکن پولیس اہلکار خاموش تماشائی بنی رہی ۔نتیش کمار کے عہد حکومت میں پولیس کے ذریعے مسلمانوں پر ڈھائے گئے مظالم کی دومثال ملاحظہ کریں ۔

19/اکتوبر 2018 کو درگاپوجا مورتی وسرجن سے پہلے اور بعد میں رونما ہوئے فرقہ وارانہ فساد میں سیتامڑھی ضلع کے بھورہا تھانہ ریگا گاؤں کے ایک معمر شخص زین الانصاری کو پولیس کے سامنے دنگائیوں نے زندہ جلاکر موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

اسی طرح گزشتہ سال 14/اگست 2019کو مظفرپور ضلع ہیڈ کوارٹر سے متصل دامودرپور گاؤں میں عین عید الاضحی کے دن ہی نماز کے وقت عید گاہ کے باہر فرقہ پرست عناصروں نے ماحول بگاڑنے کی پوری کوشش کی لیکن یہاں بھی پولیس فرقہ پرستوں کو کیفر کردار تک پہنچا نے کے بجائے الٹے مسلمانوں کو ہی ظلم و ستم کا شکار بنانے میں مصروف ہوگئی، پولیس کی بربریت کی تاب نہ لاتے ہوئے ایک ضعیفہ جاں بحق ہوگئی ۔یہ ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے کہ وزیر اعلی نتیش کمار کی ایام حکومت میں بہار میں  شائد  ہی کوئی ایسا اچھوتاعلاقہ رہ گیا ہو جس کے دامن پر فرقہ وارانہ فساد و پولیس کی بربریت کا چھینٹا نہ پڑاہو اور فرقہ وارانہ فساد و پولیس کی بربریت کے زد میں آنے سے مسلمانوں کاجانی اور مالی نقصان نہ ہواہے ۔

جب کی ملک کی دستور کا دعوی یہ ہے کہ

امن و آمان کی برقراری میں حکومت اور محکمہ پولیس کا اہم رول ہوتاہے ،اس لئے ایسے افراد کومنتخب کرکےحکومت کے ایوانوں میں پہنچانا چاہئے جودیانتدار ،ہمدرد ،رعایہ کے بہی خواہ اور ملک کے سیکولر کردار کی حفاظت میں سنجیدہ ہوں، محکمہ پولیس میں ایسے افراد کو ملازمت دی جانی چاہئے جو انسانیت نواز اور عادلانہ و انصاف پسندانہ مزاج کے حامل ہوں اور ہر قیمت پر ملک میں امن و آمان برقرار رکھنے کی ان کو فکر دامن گیر ہو،پرامن سماج میں بگاڑو فساد برپا کرنے والوں پر ان کی کڑی نظر ہو،شہریوں کی جان و ما ل اور ان کی عزت و آبرو کی حفاظت ان کی اولین ترجیحات میں شامل ہو،محکمہ پولیس کے پورے ملازمین خواہ وہ اعلیٰ منصب پر ہوں کہ ادنیٰ منصب پر بھید بھائو سے بالکل پا ک ہوں،مذہبی ،قومی ،فکری و نظری ،سیاسی و خاندانی روابط و تعلقات ان کے فرائض و ذمہ داریوںکے نبھانے میں ہرگز حائل نہ ہوں،پولیس کوکشادہ ذہن ،وسیع النظر ،وسیع القلب، انسانیت نواز ،رحمدل ہونا چاہئے، محکمہ پولیس ’’انسان دوست ‘‘ ہوتاہے ،یقیناً ایسا ہی ہونا چاہئے ،لیکن ہمارے جمہوری ملک میں اکثر اس کے برعکس دکھائی دیتا ہے اور عملاً ایسے محسوس ہوتا ہے کہ گویا محکمہ پولیس میں انسان دوست کم اور انسان دشمن زیادہ ہیں کیونکہ حکومت اور پولیس میں چھپے شرپسند عناصر ہی اکثر لاء اینڈ آڈر کا مسئلہ پیدا کرنے کے ذمہ دار قرار پاتے ہیں، حکومت کے ذمہ دار اور پولیس امن و آمان کے قیام میں اگر سنجیدہ ہوں تو ہر گز شرپسند عناصر کو سراٹھانے کا موقع نہیں مل سکتا،حکومت اور پولیس کا فرض ہے کہ وہ شہریوں کو تحفظ فراہم کریں، سماج میں امن و آمان کو یقینی بنائیں ، جرائم کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کو روکنے کی ممکنہ کوشش کریں، یقیناً حکومت و پولیس عدل و انصا ف کے ساتھ اپنے پرائے کی تخصیص کے بغیر قانون نافذ کرنے میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں ، جرائم کے سدباب میں مجرمین کی تفتیش بڑی اہم ہوتی ہے ،اس لئے پوری دیانت داری کے ساتھ ثبوتوں اور حقائق کی روشنی میں مقدمہ کا اندراج ہونا چاہئے،اپنی منصبی ذمہ داری نبھانے میںغفلت و کوتاہی کے ارتکاب سے پولیس کا کردار داغدار ہوجاتا ہے

اپنی طاقت کا اس کو قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے بروقت استعمال کرنا چاہئے ، شرپسند عناصر اگر امن و آمان کو درہم برہم کرنے کی کوشش کریں تو ان کی سخت گرفت بھی ہواور ان کو قرار واقعی سزا دلانے میں محکمہ پولیس پوری طرح سنجیدہ ہویہی وہ حقائق ہیں جن پر عمل کرنے سے ملک میں امن و آمان برقرار رہ سکتا ہے ۔آزادی سے قبل پھر آزادی کے بعد ہمارے ملک میں کئی ایک فسادات رونما ہوئے ان کا تاریخی جائزہ لیا جائے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اکثر فسادات یکطرفہ رہے ہیں، مسلمانوں نے سونچے سمجھے منصوبہ کے مطابق منظم طریقہ سے کبھی کوئی فساد ہی نہیں کیا،اکثر غیر مسلم شرپسند عناصر نے ہی درندگی مچائی ہے،نفرت کی سیاست کرنے والے نیتائوں نے ہمیشہ نفرت کی آگ بھڑکاکر شرپسند عناصر کو اکسایا ہے ،پھر کیا تھا بے قصور شہریوں (مسلمانوں) کا خون بہایا گیا ،مسلمانوں کے املاک و جائیداد ،کاروبار و تجارت کو نقصان پہنچانے کیلئے لوٹ مار اور آتش زنی کا کھیل کھیلا گیا ،نہتے و بے قصور مسلمان ہجومی تشددکے ہاتھوں لٹتے پٹتے رہے۔لیکن افسوس اس وقت ہر آنے والے دن کے ساتھ سدھار کے بجائے بگاڑ میں اضافہ دیکھا جارہا ہے ، تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ یہ فسادات سیاسی سرپرستی کے بغیر انجام نہیں پاسکتے ، ان کے پیچھے ضرور حکومت کے بدعنوان عہدیداروں اور پولیس کے منصب داروںکا ہاتھ ہوتا ہے ، ان کی سرپرستی کے بغیر فسادی شرپسندوں کوپرامن ماحول کے بگاڑنے کی ہمت نہیں ہوسکتی ، آثار و قرائن بلکہ شواہد کی روشنی میں بہار اور ملک میں رونما ہونے والے فسادات میں یہی کچھ صورتحال مشاہدہ میں آئی ہے ، یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف اُکسانے والے سیاسی لیڈروں کے جارحانہ بیانات اور محکمہ پولیس کی جانبدارانہ روش پر کئی ایک سوالات اٹھائے جاتےرہے ہیں۔ کیونکی پولیس ایک ایسا آلہ ہے جو ریاست وحکومت کا ہتھیار ہوتا ہے۔مظفرپور ودربھنگی کے معاملے میں یہ ہتھیار نتیش  حکومت کے ہاتھ میں ہے۔حالانکہ ملک کا قانون کہتا ہے کہ اگر پولیس کے سامنے کوئی جرم ہو رہا ہے تو اسے فوراً حرکت میں آنا چاہیے لیکن آہستہ آہستہ یہ روایت ختم ہوتی جا رہی ہے۔لہذا وقت کی پکار ہےکہ ریاستی حکومت  بلالحاظ ِ مذہب و ملت رعایہ کے حقوق کا تحفط اور ملک و قوم کی بقا اور اس کی ترقی کی فکر کریں