نظامیہ یونانی میڈیکل کالج کے پر نسپل انوار الحسن کا انتقال بڑا خسارہ ۔۔۔۔۔سیف اللہ

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 21-August-2020

رکسول ۔20/ اگست ( پریس ریلیز)  نظامیہ یونانی میڈیکل کالج گیا کے پرنسپل ڈاکٹر انوار الحسن کے انتقال کی خبر سے مجھے ذاتی دکھ ہوا ہے کیونکہ ان سے میرے گہرے روابط تھے اور میں سمجھتا ہوں کہ ان کے جانے کے بعد ایک لمبے عرصے میں یونانی میڈیکل کے میدان میں ان کی کمی محسوس کی جاتی رہے گی لیکن اتنا ضرور ہے کہ انہوں نے کام کا جو میدان چھوڑا ہے اس سے نئی نسل کو اس سمت میں بڑھنے کے بہتر مواقع میسر آئیں گے یہ باتیں صحافی محمد سیف اللہ نے ان کے انتقال کے بعد اپنے تعزیتی پیغام میں کہیں،بتادیں کہ ڈاکٹر انوار الحسن یونانی طب کے ماہرین میں شمار ہوتے تھےانکے والد کا نام حکیم عبد الواسع تھا  یہ گیا ضلع کے گھوڑی گھاٹ نامی ایک چھوٹے گاؤں کے رہنے والے تھے لیکن حکیم بننے کے بعد اپنے آبائی گاؤں سے منتقل ہوکر گیا شہر کے درگا باری محلے میں مقیم ہو گئے تب سے اب تک وہیں رہتے آئے تھے اور آخری سانس بھی یہیں لی دو ماہ پہلے دلّی کے بی ایل کپور  ہاسپٹل سے گردے کے مہلک بیماری کو دیکھا کر لوٹے تھے اور ڈاکٹروں نے اُنہیں گردا لیکر ٹرانس پلانٹ کرنے کی رائے دی تھی انکو 2 بیٹیاں انجینئر حجاب فاطمہ،حنا اور ایک بیٹا ڈاکٹر راغب حسین ہے،بیٹا دلّی میں ڈاکٹر ہے،ان کی قابلیت کے اعتراف کے لئے یہی کافی ہے کہ 1985 یعنی نظامیہ کالج قائم ہونے کے پہلے دن سے اپنی وفات تک نہ صرف وہ اس کالج کے باوقار پرنسپل رہے بلکہ اس کی بے مثال تعمیر وترقی میں اپنی قابل رشک ذمہ داریاں بھی نبھائیں،انہوں نے اس کالج سے جڑے اپنے سنہرے خوابوں کی تعبیر تلاش کرنے کے لئے وہ تمام قربانیاں پیش کیں جو انہیں دینی تھیں،انہوں نے اس سفر کو کامیابی کے ساتھ آگے بڑھانے کے لئے جہاں کالج کے تعمیراتی کاموں میں خاصی دلچسپی دکھائی وہیں نئی نسل کی تعلیم وتربیت پر بھی قابل رشک انداز میں توجہ دی،اپنے لون جگر سے یونانی میڈیکل کالج کو سینچنے والے یہ عظیم ڈاکٹر برسوں سے لیبر میں پروبلم کے مسئلے سے دوچار تھے مگر گذشتہ کل زندگی کی جنگ ہار کر ہمیشہ کے لئے اس دنیا کو الوداع کہ گئے،ان کے انتقال کی اطلاع ملتے ہی نہ صرف ایک بڑے طبقے میں غم لہر دوڑ گئی اور تعزیتوں کا دور شروع ہو گیا بلکہ محمد سیف اللہ نے کہا کہ ڈاکٹر انوار الحسن ایک نہایت ذمہ دار اور سنجیدہ فکر رکھنے والے انسان تھے اور کالج سے جڑے تمام مسائل کو بڑی سلیقہ مندی کے ساتھ حل کرنے کا ہنر خوب اچھی طرح جانتے تھے،ذاتی زندگی میں بھی وہ اخلاق کا مجسم نمونہ تھے یہی وجہ ہے کہ ان سے ملنے والا پہلی ملاقات میں ہی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتا تھا،انہوں نے کہا کہ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے ہاتھوں سے لگائے گئے پودے کے تئیں اس قدر حساس وذمہ دار ہوتے ہیں جیسا وہ تھے بس یہ کہ لیجئے کہ یونانی میڈیکل کالج ہی ان کا عشق اور ان کی زندگی کا مشن تھا جسے کامیابی کی منزل تک پہونچانے میں انہوں نے اپنی پوری زندگی لگادی،حالانکہ ان کے سامنے کئی تکلیف دہ حالات آئے مگر انہوں نے تمام مرحلوں کو راہ کا پتھر سمجھ کر ٹھوکر مارتے ہوئے بڑی ہنر مندی کے ساتھ آگے بڑھتے چلے گئے اور کالج کو اس مقام تک پہونچایا جہاں آج ہم اسے دیکھ رہے ہیں،انہوں نے کہا کہ آج یہ کالج ترقی کی منزل پر ہے وہ ان ہی کی طویل جد وجہد کا نتیجہ ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ان کے جانے کے بعد ایک لمبے عرصے تک ان کی کمی یہاں سے جڑے لوگوں کو محسوس ہوتی رہے گی،ویسے بھی انکے موت کی خبر سنتے ہی اس وقت ہر طرف مایوسی چھا گئی ہے اور خاص طور سے کالج کے طلباء طالبات کے علاوہ کالج کے جملہ اساتذہ اور عملہ نے ان کی وفات کو بڑا خسارہ قرار دیا ہے جن میں شگوفے انجم،غزالہ،شمع، ڈاکٹر عرفان،یوسف بھائی،محد مصطفیٰ، حامد صاحب ، عتیق الرب ، شفیع الرحمان نے  غم کا اظہار کیا ہے۔