چین امریکہ تعلقات: ’امریکہ ایسی بندوق بالکل نہیں بننا چاہتا جس میں کوئی گولی نہ ہو‘

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 17-August-2020

بیجنگ ،17اگست ( اے یوایس ) چین اور امریکہ کے درمیان موجودہ کشیدگی کو دیکھتے ہوئے کہا جانے لگا ہے کہ ’اس وقت دونوں ملکوں کے تعلقات کا خراب ترین دور‘ چل رہا ہے۔ وہ سارے موضوعات جن پر اب تک دونوں ممالک بات کرتے آئے ہیں، اب ان پر اختلافات کھل کر سامنے آ رہے ہیں۔چین نے حال ہی میں ہانگ کانگ کے لیے قومی سکیورٹی کا ایک سخت قانون متعارف کرایا ہے جس کی وجہ سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا ہے جبکہ کورونا وائرس کی عالمی وبا، ساؤتھ چائنا سی اور باہمی تجارت کے قواعد پر دونوں میں پہلے ہی سے اختلافات جاری ہیں۔امریکہ کی طرف سے چین کے خلاف الفاظ کی جنگ جاری ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ چین کو ’آمرانہ‘، ’ضدی‘، ’تخلیقی حقوق کا چور‘ اور ’استحصال کرنے والا‘ کہہ چکی ہے اور امریکی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے نے چین کو امریکہ کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔حال ہی میں کرسٹوفر رے نے کہا کہ ’چین کسی بھی طرح دنیا کا اکیلا سپر پاور بننے کی کوشش کر رہا ہے۔‘ وہیں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے امریکہ اور چین کے مقابلے کو ’آزادی اور ظلم کی لڑائی‘ قرار دیا۔تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ فی الحال پوری دنیا میں اس بات پر فکر ہے کہ ’الفاظ کی یہ جنگ کہیں ان دو بڑی طاقتوں کو حقیقی جنگ کی طرف نہ دھکیل دے۔‘لیکن سوال اٹھتا ہے کہ امریکہ جو چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو ’تاریخی‘ کہتا آیا ہے، اس کے رویے میں آئی تلخی کہ وجہ کیا ہے؟امریکی وزارت خارجہ کے آفس آف دی ہسٹورئین کے مطابق 1784 میں ’ایمپرس آف چائنا‘ نامی پہلا جہاز امریکہ سے چین کے صوبے گوانگزو پہنچا تھا۔ اسی کے ساتھ امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی روابط کا آغاز ہوا، جن میں چائے پتی، چینی مٹی اور ریشم نمایاں تھے۔ 1810 میں برطانوی تاجروں نے انڈین افیون چین لانے کا کام شروع کیا تھا۔ ان کے منافع کو دیکھ کر امریکی تاجروں نے بھی یہی کام شروع کیا لیکن وہ افیوں انڈیا سے نہیں بلکہ فارس سے لاتے تھے۔1830 میں پہلی بار کچھ امریکی پادری اپنے مذہب کو فروغ دینے کے ارادے سے چین پہنچے۔ انھوں نے چینی تاریخ، زبان اور ثقافت کا مطالعہ کیا اور امریکی تاریخ کو چینی زبان میں لکھا۔اس کے پانچ سال کے اندر اندر ایک امریکی ڈاکٹر چین پہنچے اور انھوں نے وہاں ایک کلینک قائم کیا۔ سنہ 1847 میں ایک جہاز چینی مزدوروں (جنھیں کولی بھی کہا جاتا تھا) کو لے کر کیوبا پہنچا۔ وہاں انھیں گنے کے کھیتوں میں کام پر لگایا گیا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد چینی مزدور امریکہ بھی پہنچنے لگے، جہاں انھیں مزدوری کرنے کی پوری آزادی دی گئی۔لیکن ان میں کانوں میں کام کرنے اور ریل کی پٹریاں بچھانے جیسے چھوٹے کام کرنے کے ہی مواقع شامل تھے۔ اس کے باوجود اگلے بیس برسوں میں ایک لاکھ سے زیادہ چینی مزدور امریکہ پہنچ چکے تھے۔ امریکی سینسس بیورو کی 2019 کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں چالیس لاکھ سے زیادہ چینی نڑاد لوگ رہتے ہیں۔امریکی وزارت خارجہ کے مطابق سنہ 1850 سے 1905 کے درمیان چین اور امریکہ کے تعلقات نے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے۔ اس دوران دونوں ممالک میں کئی تجارتی معاہدے ہوئے اور ٹوٹے، دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے شہریوں پر پابندیاں لگائیں اور دونوں نے ایک دوسرے سے کھل کر اختلاف بھی کیا۔ 1911-12 میں چین میں سامراجیت کا زوال ہوا جس کے ساتھ ہی چین ایک جمہوریہ بن گیا۔ 1919 میں امریکی صدر ووڈرو ولسن کے کہنے پر چین نے پہلی جنگ عظیم میں اتحادیوں کا ساتھ دیا، اس امید پر کہ اسے جرمنی کے تجارتی علاقے میں اپنا اثر بڑھانے کا موقع ملے گا، جو اس وقت تک صرف جاپان کے پاس تھا۔لیکن یہ امید ’ورسائے معاہدے‘ کی وجہ سے پوری نہیں ہو پائی کیونکہ جاپان، برطانیہ اور فرانس نے آپس میں ہی کچھ معاہدے کر لیے تھے جن کے بارے میں چین کو علم نہیں تھا۔اس سے چین کے لوگون میں امریکہ کے لیے غصہ پیدا ہو گیا اور چار مئی 1919 کو طالب علموں کے گروہوں نے دارالحکومت بیجنگ کے تیانیمن سکوائر میں بہت بڑا مظاہرہ کیا، جو اس وقت کا ’سب سے بڑا شہری انقلاب‘ تھا اور اسی کے ساتھ چین میں معاشی اور سیاسی تبدیلی کا آغاز ہوا۔ 1921 میں بائیں بازو کی سوچ رکھنے والے کچھ لوگوں نے شنگھائی میں چینی کمیونسٹ پارٹی قائم کی اور سنہ 1949 میں چینی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما ماؤ زے تنگ نے بیجنگ میں ’پیپلز ریپبلک آف چائنا‘ کی بنیاد رکھی۔کمیونسٹ پارٹی کو کسانوں کی حمایت حاصل تھی اور چیانگ کائی شیک کی قیادت میں قوم پرست کامنتانگ پارٹی کو ہرا دیا تھا۔اس سیاسی لڑائی میں امریکہ نے کامنتانگ پارٹی کی حمایت کی تھی، جس کی وجہ سے ماؤ زے تنگ کے اقتدار میں آنے کے بعد کئی دہائیوں تک چین امریکہ تعلقات محدود ہی رہے۔