*یوم عاشورا کے حقائق، فضائل اور اعمال*

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 27-August 2020

تحریر *محمد ہاشم اعظمی مصباحی* نوادہ مبارکپور اعظم گڈھ یو پی 9839171719  اس کائنات میں بہت سے انسانوں کو دوسرے انسانوں پر متعدد وجوہات کی بنا پر فوقیت حاصل ہے۔ اسی طرح رب العالمین کے بنائے ہوئے نظام الاوقات میں بعض دنوں اور راتوں کو سال کے باقی دنوں اور راتوں پر فوقیت حاصل ہے۔مثلاًماہِ رمضان کو باقی گیارہ مہینوں پر اور پھر لیلۃ القدر کو سال کی تمام راتوں پر فضیلت حاصل ہے۔ اسی طرح  یومِ عرفہ اور یومِ عاشورا سال کے عظیم ترین دن کہلانے کے حق دار ہیں۔یومِ عرفہ 9ذوالحج کو اوریومِ عاشورا 10محرم الحرام کو کہا جاتا ہے۔محرم الحرام قمری سال کا پہلا مہینہ ہے جس کی تاریخی اہمیت مسلم ہے۔ احادیث وروایات سے اس کے فضائل و برکات ثابت ہیں۔اس ماہ کی ایک فضیلت یہ ہے کہ مسلم شریف کی ایک روایت میں اس ماہ کو ’’شہر اللہ‘‘ یعنی اللہ کا مہینہ قرار دیا گیا ہے۔پھر اس پورے مہینے میں یومِ عاشورا  کو خاص فضیلت اورفوقیت حاصل ہے اور یہ دن بجا طور پر تاریخی اعتبار سے سال کا عظیم ترین دن کہلانے کا حق دار ہے۔مصنفین نے احادیث مبارکہ اور تاریخی روایات کی روشنی میں اس دن کی فوقیت اور فضیلت کی 25 وجوہات بیان کی ہیں جن میں سے ہر ایک سنہرے حروف سے لکھی جانے کے قابل ہےمحرم الحرام ان چار بابرکت مہینوں میں سے ہے جن کو اللہ تعالی نے کائنات بناتے وقت ہی عزت و احترام اور فضیلت و اہمیت عطا فرمائی ہے جیسا کہ اللہ تعالی سورة توبہ میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ عِدَّةَ الشُّھُوْرِ عِنْدَاللہِ اثْنَا عَشَرَ شَھْرًا فِیْ کِتَابِ اللہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّموٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْھَآ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ۔ ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْھِنَّ اَنْفُسَکُمْ”(پ 10 سورہ توبہ آیت نمبر 36)

 *ترجمہ* : بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں اللہ کی کتاب میں جب سے اس نے آسمان و زمین بنائے ان میں سے چار حرمت والے ہیں۔ یہ سیدھا دین ہے تو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو۔ اس آیت کریمہ سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اسلامی سال کے بارہ مہینے اللہ تعالی نے خود مقرر فرمایا ہے، جس سے اسلامی سال اور اس کے مہینوں کی قدر و قیمت اور اہمیت و عظمت بخوبی واضح ہوجاتی ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ان بارہ مہینوں میں سے چار مہینے مزید حرمت و عظمت اور احترام والے ہیں، ان کو اَشْھُرُ الْحُرُمْ بھی کہا جاتا ہے۔*یومِ عاشورہ کے فضائل* : یومِ عاشورہ کے فضائل کے تعلق سے بہت سی احادیث مبارکہ موجود ہیں۔تاہم یہاں پر اختصار کو ملحوظ رکھتے ہوئے چند مستند روایات کا ذکر مناسب ہوگا.حضرت عبد ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے عاشورہ کا روزہ رکھا اس کے لئے ساٹھ برس کی عبادت کا ثواب اللہ تعالی لکھ دیتا ہے، جس نے عاشورہ کا روزہ رکھا اس کو ہزار شہیدوں کا ثواب دیا جاتا ہے، جس نے عاشورہ کا روزہ رکھا اللہ تعالی اس کے لئے ساتوں آسمانوں کے فرشتوں کا ثواب لکھ دیتا ہے، جس نے عاشورہ کے دن کسی مسلمان روزے دار کو افطار کروایا گویا اس نے تمام امت محمدیہ کو افطار کروا دیا اور سب کے پیٹ بھردیئے، جس نے عاشورہ کے دن کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا تو یتیم کے سر کے ہر بال کے عوض جنت میں اس کا مرتبہ بلند کیا جائےگا۔( غنیةالطالبین صفحہ 426)عاشورہ کے دن ہی حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت ہوئی، حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف فرما تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس امام حسین بھی تشریف لے آئے میں نے دروازے سے دیکھا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینئہ مبارک پر کھیل رہے تھے، حضور کے دست مبارک میں مٹی کا ایک ٹکڑا تھا اور چشم مبارک سے آنسو جاری تھے جب حسین کھیل کر چلے گئے تو میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب گئی اور میں نے عرض کیاحضور میرے ماں باپ آپ پر قربان میں نے ابھی دیکھا کہ آپ کے ہاتھ میں مٹی تھی اور آپ اشکباری فرما رہے تھے؟ آپ نے فرمایا حسین میرے سینے پر کھیل رہے تھے میں بہت خوش تھا کہ جبرئیل امین علیہ السلام نے مجھے وہاں کی مٹی لاکر دی جس جگہ پر حسین( رضی اللہ تعالی عنہ) کو شہید کیا جائیگا اس سبب سے میری آنکھیں اشکباری ہو گئیں ( غنیةالطالبین صفحہ 430) بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یومِ عاشورا کی فضیلت شہادتِ حسین کی وجہ سے ہے اور اسی واقعہ کی وجہ سے یہ دن مقدس او ر حرمت والا بن گیا ہے۔ یہ بات صحیح نہیں ہے۔اس لیے کہ اس دن کو تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں بھی مقدس مانا جاتا تھا‘جبکہ حضرت حسین کی شہادت کا واقعہ تو نبی اکرم کی وفات کے تقریباً ساٹھ سال بعد پیش آیا۔

*یومِ عاشورہ کے اعمال* : یوم عاشورہ کا روزہ بہت فضیلت رکھتا ہے یوم عاشورہ کا روزہ اسلام سے قبل اہل مکہ اور یہودی لوگ بھی رکھا کرتے تھے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ میں تشریف لائے تو یہودیوں کو عاشورہ کا روزہ رکھتے ہوئے پایا جب اس کی وجہ دریافت کی گئی تو یہودیوں نے عرض کیا کہ آج کے دن اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون پر غلبہ عطا فرمایا اس وجہ سے ہم اس دن کو عظیم سمجھتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری بہ نسبت حضرت موسی علیہ السلام سے ہمارا تعلق زیادہ ہے اس کے بعد حضور نے اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم صادر فرمادیا۔( غنیةالطالبین صفحہ 428) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بنی اسرائیل پر سال میں ایک دن یعنی عاشورہ کے دن روزہ فرض کیاگیا تھا، تم بھی اس دن روزہ رکھو.جس نے اس دن روزہ رکھا تو وہ روزہ اس کے چالیس سال کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا۔ جو شخص شب عاشورہ میں رات بھر عبادت میں مشغول رہے اور صبح کو وہ روزہ سے ہو تو اس کو اس طرح موت آئےگی کہ اس کو مرنے کا احساس بھی نہ ہوگا(غنیۃ الطالبین ص427)شریعتِ اسلامیہ نے اس دن کے لیے دوسری تعلیم دی ہے کہ اس دن اپنے اہل وعیال پر کھانے پینے میں وسعت اورفراخی اختیار کرنا اچھا ہے کیونکہ اس عمل کی برکت سے تمام سال اللہ تعالیٰ فراخیِ رزق کے دروازے کھول دیتا ہے چنانچہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ أوْسَعَ عَلٰی عِیَالِہ وَأہْلِہ یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ أوْسَعَ اللّٰہُ عَلَیْہِ سَائِرَ سَنَتِہ․ (رواہ البیہقی، الترغیب والترہیب ۲/۱۱۵) یعنی جو شخص عاشوراء کے دن اپنے اہل وعیال پر کھانے پینے کے سلسلے میں فراخی اور وسعت کرے گا تو اللہ تعالیٰ پورے سال اس کے رزق میں وسعت عطا فرمائے گا۔

*یوم عاشورہ کی خصوصیات* : عاشورہ کے دن کے ساتھ بہت سی باتیں مخصوص ہیں ان میں سے چند یہ ہیں کہ اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول کی گئی، اسی دن انہیں پیدا کیاگیا، اسی دن انہیں جنت میں داخل کیاگیا، اسی دن عرش و کرسی، آسمان و زمین، چاند و سورج اور ستارے اور جنت پیدا کئے گئے۔ اسی دن حضرت ابرہیم علیہ السلام پیدا ہوئے، اسی دن انہیں آگ سے نجات ملی، اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آپ کی امت کو نجات ملی اور فرعون اپنی قوم سمیت غرق ہوا، اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا کئے گئے، اسی دن انہیں آسمانوں کی طرف اٹھایا گیا،اسی دن حضرت ادریس علیہ السلام کو مقامِ بلند کی طرف اٹھایا گیا، اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کوهِ جودی پر ٹھہری، اسی دن حضرت سلیمان علیہ السلام کو ملک عظیم عطا کیا گیا، اسی دن حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے نکالے گئے، اسی دن حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی لوٹائی گئی، اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام گہرے کنویں سے نکالے گئے، اسی دن حضرت ایوب علیہ السلام کی تکلیف رفع کی گئی، آسمان سے زمین پر سب سے پہلی بارش اسی دن نازل ہوئی اور اسی دن کا روزہ امتوں میں مشہور تھا یہاں تک کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس دن کا روزہ ماہِ رمضان سے پہلے فرض تھا پھر منسوخ کر دیا گیا اور حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ہجرت سے پہلے اس کا روزہ رکھا(اسلامی مہینوں کے فضائل و مسائل ص 19)

Hashimazmi78692@gmail.com