Pin-Up Казино

Не менее важно и то, что доступны десятки разработчиков онлайн-слотов и игр для казино. Игроки могут особенно найти свои любимые слоты, просматривая выбор и изучая своих любимых разработчиков. В настоящее время в Pin-Up Казино доступно множество чрезвычайно популярных видеослотов и игр казино.

مضمون‎

قاضی القضاۃ، فقیہ العصر حضرت مولانا محمد قاسم مظفر پوری‎

Written by Taasir Newspaper

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 02-September 2020

قاضی القضاۃ،فقیہ العصر حضرت مولانا قاسم مظفر پوری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ تجھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                  محمد شاہ نواز سمستی پوری
                          امارت شرعیہ پٹنہ

حسب معمول گذشتہ کل نماز فجر کے بعد “صحن امارت شرعیہ پٹنہ “میں ٹہلنے گیا،استاذ محترم قاضی مجیب الرحمن بھاگلپوری صاحب معاون قاضی شریعت امارت شرعیہ پٹنہ بھی نماز و وظائف سے فارغ ہو کر ٹہل رہے تھے،انہوں نے اول وہلہ میں یہ خبر دی کہ ہم سب کے محسن و مربی ،فقیہ العصر قاضی القضاۃ مولانا محمد قاسم مظفر پوری دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کر گئے،یہ خبر سنتے ہی دل دھک سے رہ گیا، بے ساختہ زباں پر استرجاع کے کلمات جاری ہوگئے،اس الم ناک خبر نے دل ودماغ کو ہر دوسرے موضوع سے بے گانہ کر دیا۔ ہر جانے والا اپنے پیچھے ایسا مہیب خلا چھوڑ کر جارہا ہے کہ اس کے پُر ہونے کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ جہاں تک علم کے حروف ونقوش، کتابی معلومات اور فن کا تعلق ہے اس کے کرنے والوں کی تو کوئی کمی نہیں، لیکن دین کا ٹھیٹھ مزاج ومذاق اور تقویٰ وطہارت، سادگی وقناعت او رتواضع وللہیت کا البیلا انداز، جو کتابوں سے نہیں، بلکہ صرف اور صرف بزرگوں اور بڑوں کی صحبت سے حاصل ہوتا ہے وہ دھیرے ھیرے ختم ہو تے جارہے ہیں۔یوں تو چمنستان انسانی میں ابتدائے آفرینش ہی سے قسم قسم کے پھول کھلتے رہے ہیں، جو ہر زمانہ، ہر صدی ، ہر قرن میں اپنے اپنے حصہ کی خوش بو بکھیر کر پردۂ عدم میں مستور ہوگئے۔لیکن ان میں سے بعض پھول ایسے ہوتے ہیں ،جو اپنی یکتائیت وانفرادیت اور اپنی خلّابیت وجاذبیت کی بنا پر گلستاں کے دیگر پھولوں کی طرح مرجھاکر بے نام ونشان نہیں ہوجاتے؛ بلکہ بظاہر مرجھاکر ان میں ایسی رعنائی وشادابی آجاتی ہے کہ ہمیشہ ہمیش کے لیے بہ باطن تازہ دم ہوجاتے ہیں، اور ایک لازوال اور کبھی نہ ختم ہونے والی زندگی کے حق دار ہوجاتے ہیں۔یہ چیزیں لکھنے میں جتنی آسان ہیں ،برتنے میں اتنی آسان نہیں ہیں ،صدیوں میں دوچارخوش نصیب ہوتے ہیں جو ایسی زندگی پاتے ہیں ،بقول شاعر: ؎ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مدت میں ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا خاکسار نے اپنی چھوٹی سی زندگی میں جن چند ممتاز ہستیوں کو زندگی کی اس تعریف کا مصداق پایا، ان میں استاذ مکرم فقہ و حدیث کے بحرناپیداکنار ،قاضی القضاۃ حضرت مولانا محمد قاسم مظفر پوری شیخ الحدیث  معروف دینی درسگاہ رحمانیہ سپول دربھنگہ سر فہرست ہیں ۔

‌حضرت قاضی صاحب ملتِ اسلامیہ کے لیے ایک عظیم سرمایہ اور پوری علمی دنیا کے لیے مشعلِ راہ تھے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو  گوناگوں اوصاف سے نوازا تھا ، آپ کی شخصیت ، رسوخ فی العلم، قوتِ استنباط، دقتِ نظر، سلاستِ بیان، فکر وتدبر،اصابتِ رائے، سلامتی فکر، صبر وقناعت، زہد واستغناء، تقویٰ وپاک دامنی، جود وسخا،  خوش گفتاری ونرم خوئی، شفقت ومحبت، احساسِ ذمہ داری، ذہانت وظرافت، بھرپور خوداعتمادی کے ساتھ کامل تواضع، قوتِ فیصلہ، دوربینی، دیانت وامانت، اعلیٰ تدریس وخطابت، سلیقہٴ زندگی اور سادگیِ بے تکلفی کو جامع تھی، آپ تقریباً نصف صدی تک ریاست بہار کی معروف و مشہور دینی درسگاہ میں مقبول درس و تدریس کے فرائض انجام دیئے اور شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہوئے،آپ کا انداز  درس بالکل منفرد ، پرکشش اور مسحورکن تھا ،آپ کی ادائیں دل کو بھانے والی تھیں آپ کے سمجھانے کا انداز  دل کی گہرائی میں اتر جانے والی تھی ، بات کرنے کا لب و لہجہ بڑا بے ساختہ اور بے تکلفانہ ہوتا،سادگی و بے ریائی آپ کی شخصیت کے لازمی اجزا تھے، بڑی یادیں آپ کے ساتھ وابستہ تھیں۔قاضی صاحب کی شخصیت ایسی دل نواز، حیات افروز تھی کہ جس کی خصوصیات کو ایک مختصر تحریر میں سمونا نہایت  مشکل ہے ۔ ہر فن میں اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک خاص ملکہ عطا فرمایا تھا۔ باب قضاء میں پورے ہندوستان میں آپ کا ثانی نہیں تھا،ایک لامبی مدت تک امارت شرعیہ پٹنہ کے قاضی رہے اور عہدہ قضاء کا حق ادا کیا اور اپنی قوتِ فیصلہ،دروں بینی و تہہ رسی،دلائل کے استناد اور فیصلوں کی اصابت کی وجہ سے امارت شرعیہ کے قاضی القضاۃ  کے مرتبے تک پہنچے۔ آپ بڑی ذمہ داری کے ساتھ قضاء کے امور کو انجام دیتے ،امیر شریعت رابع ؒ اور حضرت مولانا  قاضی مجاہدالاسلام قاسمی کو آپ پر بڑا اعتماد تھا،فریقین کے تنازعات و اختلافات کو بڑی حکمت و مصلحت اور تدبر و بصیرت سے اس طرح حل فرماتے کہ فریقین آپ کے تصفیہ کو بسر چشم قبول کرتے،آپ دمِ آخر تک اس منصب پر بڑی آن بان شان کے ساتھ رہے اور جو تصفئے اور احکام آپ نے تحریر کی ہیں،وہ طالبانِ قضا کے لئے سرمہ بصیرت ہے۔

آپ فقیہ النفس تھے، فقہ جو در اصل قرآن وحدیث فہمی کے بعد اس سے مستنبط ہونے والے مسائل کا مصدر وسرچشمہ ہے، اس میں بھی آپ کو رب ذوالجلال نے مہارت عطا فرمائی، آپ کی مشہور کتاب ”ادلۃ الحنفیۃ“،جس میں فقہ حنفی کے دلائل کو مختلف کتب حدیث سے جمع کیا ہے،نیز مرحوم نے اپنے مخصوص قرآنی ذوق جس سے اللہ یاک نے آپ کو نوازا تھا، کی مدد سے بہت سے فقہی مسائل پر قرآنی آیات سے استشہاد کیا ہے، جو یقینا ایک منفرد علمی کارنامہ ہے ، جدید فقہی مسائل پر عمیق نظر رہتی تھی۔ فقہی سمیناروں میں آپ کی رائے وزن رکھتی تھی۔ آپ کے مقالے علم و تحقیق کا گنجینہ ہے،یہی وجہ ہے وہ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے معزز تاسیسی رکن تھے،قاضی صاحب شفقت و محبت کے پیکر تھے،بڑے کیا چھوٹے کیا سب پر یکساں مہربان رہتے، محبت و شفقت کا برتاؤ کرتے اور تکلم کے ساتھ مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے خیریت دریافت کرتے،دیر تک مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے قیمتی مشورے دیتے، بڑوں کی محفلیں ہوں یا چھوٹوں کی مجلسیں،کھانے کے دسترخوان پر ہوں یا درس گاہوں کی مسند پر ، سفر میں ہوں یا حضر میں ہر جگہ علمی موتی لٹاتے اور ہم طالب علم حسب استطاعت ان میں سے موتی چنتے رہتے،کبھی کبھی یہ مجلس بڑی طویل ہوجاتی ،لیکن آپ بغیر تھکے اپنے علم کے نور سے ہمارے قلوب کو منور کرتے رہتے،کوئی مسئلہ ہو، کسی فن سے تعلق رکھتا ہو ہم طلبہ آپ سے سوال کرتے اور آپ اس مسئلہ کے متعلق قرآنی آیت کا انبار لگا دیتے ،احادیث پیش کرتے ،فقہی عبارت یوں پڑھتے جیسے الحمدللہ کی قرأت کررہے ہوں ،  آپ کا قوت ضبط کا ذہن نہایت قوی تھا اور یاد داشت بہت ہی مضبوط،قدیم مراجع و مآخذ ان کی نگاہوں کے سامنے ہوتے اور مطالعے سے انھیں غیر معمولی دلچسپی تھی، اپنے گھر سے متصل ہی ایک بہترین اور تقریباً جدید تقاضوں کو پورا کرنے والی لائبریری بنوائی،جہاں بیٹھ کر وہ مطالعے کے علاوہ اپنے دیگر علمی و تصنیفی امور انجام دیا کرتے تھے۔آپ کی شخصیت ایک باغ بہار اور تازہ دم گلشن کی تھی ،آپ کے دم سے نہ جانے کتنے گلشن آباد اور کتنے ازہار شاداب تھے ،آپ کے وجود مسعود سے نہ جانے کتنے در و بام روشن تھے،آپ کی حاضری بڑے چھوٹے سب کے لئے نافع اور راحت بخش ہوا کرتی تھی،‌ آپ کے جانے سے درجنوں ادارے یتیم  اور ایک باکمال عالم دین سے محروم ہو گئے ، امارت شرعیہ پٹنہ کے در و دیوار سوگوار ہیں،کوئی آئے اور امارت شرعیہ کے در و بام کو سر کی نگاہوں سے دیکھے کہ کتنی اداسیاں چھائی ہوئی ہیں،آپ کے غم میں “ریاض امارت “کا اک ایک پھول مرجھایا ہوا ہے ، اس کی فضائیں بے رونق و بےنور ہیں،اس موقع سےکون کس سے کیا کہے۔سب غمزدہ ہیں سب مغموم ہیں،تمام تلامذہ اورتمام وابستگان “امارت شرعیہ” کے لئے یہ حادثہ یکساں ں نوعیت کا ہے۔ہرایک کو تسلی کی ضرورت ہے اورہر ایک کو تعزیت کی ضرورت ہے۔اللہ آپ کے تمام شاگردوں،محببین اوراہل وعیال کو صبر جمیل نصیب فرمائے اور اللہ تعالی آپ کی قبر پر انوارت کی بارش برسائے، آپ کے فیوضات کو جاری و ساری رکھے اور آپ کی جملہ دینی خدمات اور مساعی جلیلہ کو آپ کے لیے عظیم الشان صدقہ جاریہ بنائے۔ آمین !

About the author

Taasir Newspaper