کیا کریں؟ “دل ہے کہ مانتا نہیں”

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 04-September 2020

تحریر :محمد ایوب مصباحی مراداباد

کیا لکھوں؟کیا کہوں؟ کیا سنوں؟ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ حکومت کیا ہے؟ دل لرزتاہے، آنکھیں روتی ہیں، ہاتھ کانپتے ہیں لیکن کیا کریں؟ دل ہے کہ مانتا نہیں، اب لکھنا تو پڑے گا، بولنا تو ضروری ہے ورنہ پھر حق و باطل میں امتیاز کیسے ہوگا؟ سچ جھوٹ سے کیسے جیتے گا؟ قارئین! آج آپ بھی ورطہ حیرت میں ہوں گے کہ پتا نہیں راقم کا قلم آج کس عنوان پر چلنے والا ہے؟ آج محرر کی پروازِ تخیلات کن حقائق تک ہوگی۔ در اصل آج قارئین! آپ ہی حیرت میں نہیں ہیں بلکہ راقم کا ذہن خود محوِ حیرت واستعجاب ہے کہ بات شروع کرے تو کرے کہاں سے؟ ملک کے گوناگوں مسائل در پیش ہیں کس پر خامہ فرسائی کی جائے؟ کونسی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا جائے؟ آج ملک میں کوئی ایک آدھ مسئلہ نہیں بلکہ مسائل کا سامنا ہے۔  جب سے ملک کی ایک بڑی پارڑی آر۔ایس۔ایس۔کے نظریات کی حامل ہندتوا کا لیبل لگائے برسرِ اقتدار ہوئی ہے ملک کا تو چہرا ہی مسخ ہوگیاہے۔ ہر محاذ پر اس پارٹی کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا حالاں کہ اس کے کارکنان ڈینگیں اس قدر مارتے ہیں کہ لگتاہے کہ بس ملک کا مستقبل چمکنے ہی والاہے، اس ملک کا ستارہ اوجِ سریا پر پہونچنے ہی والا ہے اگر یہی رہا تو وہ دن دور نہیں کہ اس ملک کا ہر باشندہ غلامی کی بیڑیوں میں قید ہوگا۔  اس ملک کا مستقبل تو تاریک اسی دن سے نظر آنے لگاتھا جس دن ملک کی کرنسی بند کی گئی تھی اور ہزار، پانچ سو کے نوٹ ایسے لگنے لگے تھے جیسے: بچے دکان پر انعام کھولتے ہیں تو انھیں دکان دار نقلی نوٹ تھمادیتاہے۔ اور اس وقت بھی یہ سبز باغ دکھایا گیا تھا کہ کالا دھن واپس لایا جائے گا لیکن یہ فلسفہ ہمارے آج تک سمجھ میں نہ آیا کہ اگر کالا دھن ملک کے اندر ہوتا تو وہ تو انکم ٹیس اور بنک اکاؤنٹ ڈٹیل سے پکڑا جاسکتا تھا بلکہ کالا دھن تو وشو بنکوں میں بتایا جاتاہے تو ملک کے اندر نوٹ بند کرکے کونسا کالا دھن واپس لایا جارہا تھا؟

 کچھ تو ہے جس کی پرداداری ہے؟      آپ بھی کہیں گے کہ آج راقم کو کیا ہوگیا؟ بڑے تلخ لہجے میں ہے۔ کیا کریں؟ دل ہے کہ مانتا نہیں۔ دراصل حکومت کی پالیسی یہ ہونا چاہیے کہ ایسی تجاویز پاس کی جائیں جس سے ملک کی ترقی واستحکام ہو مثلا استے،سڑکیں، پل ایئر پورٹ، بندرگاہیں زیادہ سے زیادہ بنوائے جائیں اور جدید ٹکنالوجی کو فروغ دینے کے وسائل مہیا کراے جائیں اسکول کالجز،ہاسپیٹل یونیورسٹیاں تعمیر کرائی جائیں اور پھر ان میں بغیر عوض علاج و تعلیم کرائی جائے تاکہ لوگ جلد صحت یاب ہوکر بلا تفکروتدبر ملک کی ترقی کے لیے سرگرم عمل ہوجائیں اور طلبہ عمدہ تعلیم حاصل کرکے اچھا ذریعہ معاش تلاش کریں، ڈاکٹر، انجینیر، وکیل اور سائنس داں بنیں۔ ناکہ یہ کہ کسی خاص طبقہ کے ذاتی مسائل میں دخل اندازی کی جائے جس کا ترقی سے کوئی لینا دینا نہیں جیسے:طلاقِ ثلاثہ، سی۔اے۔اے۔ ، این۔آر۔سی۔،این۔پی۔آر۔وغیرہ لیکن کیا کہیے کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے؟     آپ پھر سوچ رہے ہوں گے کہ ہم پھر وہیں آگئے جہاں سے شروع ہوئے تھے، کیا کریں؟ دل ہے کہ مانتا نہیں۔  کشمیر کے باشندوں پر کیا ظلم وستم نہیں ہوا،سبھی جانتے ہیں ،آرٹیکل ٣٧۰ ہٹاکر ملک کی کس قدر ترقی ہوئی، کس قدر وکاس ہوا؟چلیے چھوڑیے! کیا وکاس وکاس؟ وکاس نے تو لوگوں کا بہت وکاس کیا جب اس نے کئی پولس اہلکار کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، بعد میں اس کا انکاؤنٹر بھی ظاہر کیا گیا وکاس اور ترقی کو تو اس نے ہی بتادیا تھا کہ کس قدر وزارتِ ہند کی ایک ریاست اترپردیش میں وکاس ہوا ہے؟ چلیے چھوڑیے نا کہاں سے کہاں پہونچ گئے؟ بات یہ چل رہی تھی کہ ریاستِ کشمیر سے دفعہ 370 ہٹاکر ملک کی کونسی ترقی ہوئی بلکہ اس دفعہ کے ہٹانے سے بھی ملک کی معیشت ہی تباہ ہوئی کہ ریاستِ کشمیر کا عالمی تجارت میں ایک بڑا حصہ رہتاہے کہ میوہ جات کہ وہ کان ہے لیکن ملک کی اس متعصب پارٹی نے یہاں بھی اپنے اند بھتوں کو میٹھی گولی دی اور انھیں یہ سبز باغ دکھایا کہ وہ وہاں جاکر شادی کرسکیں گے، وہاں کی اراضی پر محل تعمیر کرسکیں گے اور ولایتِ ہند کی جنت کشمیر کو اپنا مسکن بناسکیں گے۔لیکن کیا کہیےکچھ تو ہے جس کی پرداداری ہے۔

 آپ پھر کہیں گے کہ بات پھر وہیں آگئی جہاں سے شروع ہوئی تھی مگر کیا کریں دل ہے کہ مانتانہیں۔  اب تک دو کروڑ لوگ اپنا روزگار گنوا چکے ہیں مستقبل کے لیے حکومت کے پاس نہ کوئی لائحہ عمل ہے جس سے بگڑی ہوئی حالت معمول پر آسکے جب ملک میں کورونا کے کل متاثرین 4000/ ہزار تھے تو پورے ملک کو محض چار ساعت کے اندر مغلق و مقفل کردیا گیا اس کے لیے پہلے سے نہ کوئی مستعدی، نہ کوئی تدبیر کہ روزمرہ کھانے کمانے والوں کا کیا ہوگا، سڑکوں پر لوگ دم توڑتے رہے اور جب کورونا متاثرین کی تعداد تقریبا 3800000/لاکھ ہے تو پورا ملک ان لاک ہوچکا ہے یہ ایک معمہ ہے نہ سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ اس رویے سے سرکار کا کیا مطمحہ نظرہے ؟  “کچھ تو ہے جس کی پرداداری ہے ۔  آپ پھر کہیں گے کہ وہیں آگئے جہاں سے شروع ہوئے تھے لیکن کیا کریں دل ہے کہ مانتا نہیں۔   ملک کی کامیابی کا دارومدار طلبہ کی عمدہ کارکردگی پر منحصر ہے لیکن موجودہ حکومت کی پالیسی دور اندیشی سے بلکل ماورا نظر آتی ہے جس پر ملک کی ترقی تھی اسے ہی بند کررکھا ہے لاک ڈاؤن کھلنے کے چار مرحلے اب تک ہوگئے ہیں اور قریب قریب ساری چیزیں کھل بھی چکی ہیں لیکن اسکول و کالجز و مدارس ابھی تک بند ہیں جیسے سارا کورونا یہیں سے پھیل رہا ہو اتنا ہی نہیں بلکہ آپ یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ کورونا بہت سمجھدار ہے کہ ہفتہ اور اتوار کو ہی باہر نکلتاہے باقی پانچ دن لوگ باہر نکلتے ہیں کورونا باہر نہیں نکلتا تاریخ میں آج تک آپ نے ایسا وبائی مرض نہیں دیکھا ہوگا بلکہ یہاں تک ہی محدود نہیں بلکہ کورونا اتنا سمجھدار ہے کہ اپنے مریض کی جان صرف ہاسپیٹل ہی میں لیتاہے بلکہ اس سے ایک قدم اور آگے صرف غریبوں کی جان لیتاہے کسی کرکیٹر/فلم ساز یا کسی نیتا کی جان نہیں لیتا۔کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔    اب آپ بھی بار بار یہ کہنا بند کردیں کہ بات جہاں سے شروع ہوئی تھی وہیں آگئی، کیا کریں دل ہے کہ مانتا نہیں۔

ملک کی بڑی ایجنسیاں تقریبا سبھی فروخت کی جاچکی ہیں جو باقی ہیں وہ بھی فروخت ہونا طے ہے غریب روز بروز غریب تر ہوتاجارہاہے اور امیر روز بروز امیر تر ہوتا جا رہا ہے اس ملک میں ترقی صرف امبانی اور اڈانی جیسے لوگ کی ہی ہورہی ہے بتایا جارہا ہے کہ جیو کمپنی کے مالک لاک ڈاؤن کے لگنے کے بعد اب نمبر ایک پر ہیں لیکن جب ان مسائل کی کوئی بات کرتاہے تو حکومت اپنا ایک ایجنڈا (باہمی منافرت) سامنے لے آتی ہے اور رام مندر و بابری مسجد جیسے مسائل اٹھاکر اپنے اند بھکتوں میں ایک نئی روح پھونک دیتی ہے۔کچھ تو ہے جس کی پرداداری ہے۔  آپ پھر سوچ رہے ہوں گے کہ پھر وہیں آگئے آج آگے بڑھیں گے بھی یا نہیں لیکن کیا بتائیں دل ہے کہ مانتا نہیں۔   ہندوچین کی متنازعہ زمین پر باہمی تنازع ابھی برقرار ہے لداغ میں چائنیز فوج کی مداخلت ابھی جاری ہے لیکن حکومت کی اس بابت صرف اس قدر پیش قدمی ہے کہ پہلے 59/چائنیز ایپ پر قدغن اور اب مزید 118/چائنیز ایپ-بشمولِ پپ جی- پر پابندی عائد کردی گئی۔اور بیرونی ممالک سے روابط کی ناکامی کو ایک بار پھر چھپانے کی کوشش کی گئی۔ملک کے وزیرِ اعظم “من کی بات ” سے ایک پروگرام نشر کرتے ہیں اور اس میں کتے پالنے کے فوائد، اقسام، وغیر ذکرتے ہیں جس پر انھیں ناپسند زیادہ کیا جاتاہے ہے اس پر بھی اتنی جسارت کہ عام رائے دہی یعنی کمنٹ کا آپشن ہی بند کردیا جاتاہے۔آخر کار اپنی ناکامی کو اس طرح اور کب تک چھپایا جائے گا؟ لیکن کیا کہیے کچھ تو ہے جس کی پرداداری ہے۔  لیکن آپ پھر کہیں گے کہ بات وہیں آگئی جہاں سے شروع ہوئی تھی لیکن کیا کریں دل ہے کہ مانتانہیں۔  ملک کی معیشت اس قدر تباہ ہوچکی ہے۔ GDP -23 پر پہونچ گئی ہے۔ لیکن اسے بہتر بنانے کے لیے کوئی تدبیر نہیں اپنائی جارہی ہے۔بلکہ اس حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ جھوٹ اتنی صفائی سے بولا جائے کہ سچ لگنے لگے اگر آپ کو یقین نہ آئے تو گوگل پر سرچ کرکے دیکھ سکتے ہیں کہ پوری دنیا میں سب سے بڑا جھوٹا کون ہے؟ آپ ہم سے نہ پوچھیے گوگل سے ہی پوچھ لیجیے اسے وزیرِ اعظم کا کوئی ڈر نہیں ہے اگر ہم سے پوچھیں گے تو ہمارا حال بھی وہی ہوجائے گا جو ڈاکٹر کفیل خان کا ہوا اور “سپا” پارٹی کے قد آور نیتا “اعظم خاں” اور مجلسِ اتحاد المسلمین کے بے باک لیڈر امتیاز جلیل کے ساتھ گزشتہ روز ہوا۔  آپ کو اب تک معلوم ہوا؟ کیا ہے جس کی پردا داری ہے؟  کچھ نہیں بس مدتِ دراز تک کرسئ اقتدار پر قابض رہنے کا نشا ہے حالیہ دنوں میں 28/ بل پاس کرانا جس کا پیش خیمہ ہے ہاں ابھی ٹہریے! ایک بات اور سنتے جائیے! اس ملک کو ہندو راشٹریہ بنانے کا منصوبہ ہے۔ دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کےچراغ سے لیکن کیا کریں؟ اب ہمیں کچھ نہیں کہنا اب ہم آپ سے یہ بھی نہیں کہیں گے:کہ دل ہے کہ مانتا نہیں۔
جگا جگاکے تمھیں تھک چکے ہیں ہنگامے

  استاذ دار العلوم گلشنِ مصطفی بہادر گنج سلطانپور مراداباد، یو۔پی۔ہند
رابطہ نمبر:8279422079
3/ستمبر 2020ء بروزجمعرات