اسرائیل کو تسلیم کرنا عربوں کے لئے تاریخی رسوائی کے مترادف

Taasir Urdu News Network | Uploaded  on 22-September-2020

سپرپاور امریکہ اور اسرائیل کے مسلم دشمنی پر مبنی عزائم کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔انکی فہرست کافی طویل ہے ۔یہ بھی جگ ظاہر ہیکہ اسرائیل نے کئی دہائیوں سے سرزمین فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کرکے اسکےچپےچپے کو لہولہان کررکھا ہے۔لیکن ہزارہا ظلم وستم جھیلنے کے باوجود اپنی سرزمین کیلئے فلسطینیوں کا عزم واسقلال صیہونی یلغار کے آگے کسی آہنی چٹان کی مانند ٹکا ہوا ہے۔لہذا امریکہ اور اسرائیل اس بات کو اولین اہمیت کی حامل سمجھتے ہیں کہ کسی طرح فلسطینی قومی تحریک کو ختم کرکے فلسطینیوں کو سرخم تسلیم کرلیا جائے۔اسکے لئے وہ تمام تر سازشوں اورحربہ آزمائیوں میں دن رات مصروف ہیں۔دنیا جانتی ہے کہ امریکہ نے کسطرح اسرائیل کو تمام طرح کے خطرناک ہتھیاروں سے لیس اور طاقتور بنادیا ہے. وہیں عرب ومسلم ملکوں کو کمزور کرنے اور انہیں ورغلا کر انکی صفوں میں انتشار پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے.لیکن اسے بدقسمتی کہیے کہ یہ حکمران امریکی سازشوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں. گوکہ قبلہ اول پر ناپاک قبضہ کرنیوالے اسرائیل کے خلاف دنیا بھر کے تمام مسلمان کئ دہائیوں سے متحد رہے ہیں. لیکن افسوس کہ اب اس اتحاد کو ثبوتاژ کرنے کی دیرینہ صیہونی سازشیں کامیاب ہوتی نظر آرہی ہیں. بہت سے عرب ممالک امریکی دباؤ اور اپنے ذاتی مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے غاصب وجابر اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے لگےہیں.حال ہی میں امریکی ایوان وہائیٹ ہاؤس میں متحدہ عرب اماراتئیبحرین اوراسرائیل کے مابین کیےگئے معاہدے اس کا بین ثبوت ہے.جبکہ قضیہ فلسطین ابھی تک حل طلب ہے اور القدس بھی صیہونیوں کے ناپاک قبضے سے آزاد نہیں ہو پایا ہے.جبکہ یہ مسئلہ صرف فلسطینیوں کا ہی نہیں بلکہ ایک عربی اور اسلامی مسئلہ ہے. جس کےحل ہوئے بغیر غاصب اسرائیل سےکوئی سمجھوتہ قطعی نہیں کیاجاسکتا. بہرحال یہ معاہدے بظاہر تو امریکی صدر کی بدنیتی اور کھلی چالبازی کا ثمرہ ہے.لیکن یہ ایک کھلی حقیقت ہیکہ سعودی عرب کی رضامندی سے ہی یہ پایہ تکمیل تک پہنچ پائے ہیں. دنیا جانتی ہیکہ جب سے ولیعہد محمد بن سلمان کو حکومتی اختیارات حاصل ہوئے ہیں٬ سعودی عرب کی پالیسیوں میں نت نئی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں.اور عوام الناس ولیعہد کے فیصلوں میں اسلام بیزاری اور مغرب نوازی کوصاف طور پر محسوس کرنے لگے ہیں. مسئلہ فلسطین کے تعلق سے تو ان کا کردار اپنے پدر شاہ سلمان سے یکسر مختلف ہے. بتادیں کہ دو برس قبل امریکی جریدے ‘دی اٹلانٹکئیکو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے وہ بات کہہ دی تھی جو آج تک کسی عرب رہنما نے اپنی زبان تک نہیں لائی ہے. ولیعہد نےکہا تھا کہ “اسرائیل کو بھی اپنی سرزمین رکھنے اور اس میں امن کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے.” ان کے اس بیان سے پورے عالم اسلام اور خصوصاً فلسطینیوں کو بے حد مایوسی ہوئی تھی. وہیں امریکہ اور اسرائیل نے اس کا پرجوش خیر مقدم کیا تھا. بہرحال سیاسی حلقوں میں پچھلے کئی دنوں سے جو اطلاعات گردش کرتی رہی ہیں کہ بہت سے عرب ممالک اسرائیل سے قربت بڑھارہے ہیں حتی کہ انکے خفیہ روابط قائم ہوچکے ہیں.اب وہ یکے بعد دیگرے سچ ثابت ہونے لگی ہیں. ایران کےاخبار ‘پارس ٹوڈے ‘میں شائع ایک مضمون کے مطابق بحرین اور متحدہ عرب امارات ہی نہیں بلکہ اومان ٬قطر اور سعودی عرب سے اسرائیل کا بڑے پیمانے پر تعاون جاری ہے.اسی طرح سعودی عرب نے مارچ 2018 میں اپنے ایئر اسپیس سے اسرائیل جانے آنے کیلئے ایئرانڈیا کےجہازوں کے لئے کھول دیا تھا. یہ بھی کہاجاتا ہےکہ یمن جنگ میں سعودی عرب کو اسرائیل کی مدد مل رہی ہے جس کے باقاعدہ ثبوت موجود ہیں. وہیں ایسی میڈیا رپورٹس بھی ہیں کہ سعودی ولیعہد محمد بن سلمان اپنے مخالفین کا سراغ لگانے اور انہیں جال میں پھنسانے کیلئے اسرائیلی ٹیکنالوجی کا استعمال کررہے ہیں. یاد رہے کہ سعودی صحافی جمال خشوگی کی جاسوسی کے بارے میں خبر آئی تھی کہ اسرائیلی ایجنٹوں نے ہی سعودی عرب کی مدد کی تھی. خشوگی کواستنبول میں 2اکتوبر2018 کو سعودی افسروں نے اپنے ہی کونسلیٹ کے اندر قتل کردیا تھا. پارس ٹوڈے کے مضمون میں ایک اہم انکشاف یہ کیا گیا کہ خطے میں عربوں اور اسرائیل کا بڑا اتحاد بننے جارہا ہے.جسکی بڑی وجہ عرب ملکوں کو ایران سے خطرہ بتایا جارہا ہے. یہ بات ڈونالڈ ٹرمپ نے متحدہ عرب امارات ٬بحرین اور اسرائیل کے مابین ہوئے معاہدے پر دستخط کے موقع پر بھی کہی ہے. موجودہ صورتحال میں بیشتر مبصرین اس نئی تبدیلی کو بھی بھانپ رہے ہیں کہ عرب ملکوں کے سامنے ایران کے ساتھ اب ترکی کو بھی ایک بڑے خطرے کے طور پر پیش کیا جانے لگا ہے.اور ایرانوفوبیا کے ساتھ ترکی کا فوبیا بھی پھیلایا جارہا ہے. یہی وجہ ہیکہ عرب ملکوں کی حکومتوں کی جانب سے طیب اردغان کی لیڈرشپ میں ترکی پر شدید حملے کئے جارہے ہیں. عرب لیگ کی 9ستمبر کو ہونیوالی ویڈیو کانفرنس کے موقع پر متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ انور قرقاش نے صاف لفظوں میں کہا کہ عرب ملکوں کے اندرونی معاملات میں ترکی کی مداخلت علاقے میں بری مداخلت کی واضح مثال ہے. اس کانفرنس میں مصر کے وزیرخارجہ سامع شکری نے بھی یہ تشویش جتائی کہ کئی عرب ملکوں میں ترکی کی دخل اندازی عرب نیشنل سیکیورٹی کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے. واضح رہے کہ عرب لیگ کی یہ میٹنگ فلسطین نے اس مقصد کے لئے بلائی تھی کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل سمجھوتے کی مذمت کی جائے. لیکن اس کے الٹ فلسطین کی یہ تجویز سرے سے خارج کردی گئی. دراصل ترکی کےخلاف اسوقت جو مہم چلائی جارہی ہے اسکی ایک خاص وجہ عالم اسلام میں صدرطیب اردغان کی بڑھتی مقبولیت ہے جو عرب لیڈران کو ہرگز گوارہ نہیں. اس لئے انہوں نے ایران کے ساتھ ہی ترکی کے خلاف بھی محاذ کھول دیا ہے. وہیں اس مہم میں عرب ملکوں کے ساتھ فرانس اور کچھ دوسرے یورپی ممالک بھی شامل ہوگئے ہیں جن کی نظریں خطے کے تیل اور گیس کے ذخائر پر ہیں. درحقیقت امریکہئی اسرائیل اور یورپی طاقتیں عرب ملکوں کو ایران اور ترکی کا نقلی خطرہ دکھا کر لوٹنا چاہتے ہیں. لیکن بدقسمتی سے اہل عرب اس چال کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔

بہرحال اسوقت عالم اسلام کی جو حکومتیں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی راہ پر نکل پڑی ہیں دراصل یہ انکی تاریخی رسوائی ہے. وہ شیطانی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں سے چشم پوشی کرکے خود کو فریب دے رہی ہیں.انکے سربراہان اس خام خیالی میں ہیں کہ امریکہ کی ایماء پر اسرائیل سے ہہتر تعلقات انہیں ہر قسم کےخطرات سے محفوظ کردیں گے. لیکن وہ یہ نہ بھولیں کہ چور س چوکیداری اور سانپ سے امرت پانے کا خیال سراسر نادانی ہے. ممکن ہے وقت آنے پر عالم اسلام سے خیانت اور غداری کے ارتکاب پر ان کے عوام جب سبق سکھانے پر آجائیں گے تب امریکہ بھی انکی مدد کو نہیں آئے گا۔