*بدلتے بھارت کی تصویر*

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 04-September 2020

ہمارا ملک بھارت اس وقت بہت برے دور سے گزر رہا ہے۔ جی ہاں میں اسی بھارت کی بات کر رہا ہوں جس کو کسی زمانے میں دنیا سونے کی چڑیا کے نام سے جانتی اور پہچانتی تھی۔ لیکن آج مرورِ زمانہ نے اسی بھارت کو ایسا بنا دیا ہے کہ اب یہاں غیر ملکی سیاح اور تاجر سیاحت و تجارت کی خاطر آنے کے لئے بہت بار سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔  اس ملک میں کہیں کالجز و یونیورسٹیوں کے اسٹوڈنٹس پر مظالم ہوتے ہیں۔ تو کہیں ان کا اغوا کیا جاتا ہے۔ اورکہیں ان کے ہاسٹل میں گھس کر ان کو ظلم و تشدد کا شکار بنایا جاتا ہے۔ بعدہ پٹنے والے اسٹوڈنٹس کو ہی مجرم بنا دیا جاتا ہے۔ ان کے اوپر جرم کی چادر ڈال کر ان کے صاف شفاف کیریئر پر بدنما داغ لگانے کی ناپاک کوشش کی جا تی ہے۔ تاکہ کل یہی اسٹوڈنٹس پڑھ لکھ کر ، ڈگری یافتہ ہو کر حکومت سے ملازمت کا دستِ سوال دراز نہ کردیں۔ ایک طرف اگر حکومت کے ذریعے بیٹی بچاؤ ، بیٹی پڑھاؤ کا سیاسی نعرہ شوشل میڈیا ، الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا اور شہروں میں لگے ہوئے اشتہارات کی زینت بنا رہتا ہے۔ تو دوسری جانب اسی ملک کی بہو بیٹیوں پر کھلم کھلا ظلم و جبر ، جنسی ہریسمینٹ اور تشدد کے ساتھ زناکاری کرکے اس کو ماردیا جاتا ہے۔  ایک طرف اگر حکومت سب کا ساتھ ، سب کا وِکاس اور سب کا وشواس جیسا عمدہ نعرہ لگاتی ہے۔ تو دوسری جانب اسی ملک بھارت میں کیمرے کی نظر میں فرقہ واریت کا رنگ دے کر لوگوں کی مآب لنچنگ کرکے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔

ایک طرف اگر مسلم لڑکی کسی غیر مسلم لڑکے کے پیار میں پڑکر اس سے شادی رچا کر اس کے دھرم کو بھی قبول کرلے تو یہ بہت اچھی بات مانی جاتی ہے۔ اس لڑکی کی خوب پزیرائی کی جاتی ہے۔ اور اسے گھر واپسی کا نام دیکر اس لڑکی کو خوب داد و تحسین سے نوازا جاتا ہے، لیکن اس کے برعکس اگر کسی مسلم لڑکے اور غیرمسلم لڑکی کے ساتھ یہی واقعہ پیش آئے تو اسے لَو جہاد کا نعرہ دیکر مذہب اسلام اور اس کے ماننے والوں کے خلاف غلط پروپیگنڈا کرکے شوشل ، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا  پر جم کر شور مچایا جاتا ہے۔ ایک طرف اگر حزب اختلاف جماعت کو تنقیدی نشانہ بنایا جائے تو یہ بہت اچھی بات ہوتی ہے لیکن اگر غلطی سے بھی کسی نے حکمراں جماعت پر تنقید یا اس کے ذریعے اٹھائے گئے غلط اقدامات پر سوالات کھڑے کئے تو اسی ملک میں اس شخص کو دیش دورہی کے لقب سے ملقب کر دیا جاتا ہے۔ اور ایسا کرنے والوں کو کبھی کبھی پولس اسٹیشن ، جیل اور کورٹ کچہری کے چکر لگانے بھی پڑ جاتے ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بے روزگاری ، فاقہ کشی ، خودکشی ، لوٹ گھسوٹ ، رشوت خوری ، دھوکہ دہی ، جعل سازی اور ظلم و جبر بامِ عروج پر ہے۔ لیکن پھر بھی یہاں کی عوام سے اپنی ناکامی چھپانے کے لئے دیش کو وشو گرو بنانے کے جھوٹے خواب دکھائے جانے لگتے ہیں۔

دھرم ، ذات ، اور فرقہ واریت کی آڑ میں یہاں حکومتی کرسیاں اور عہدے مضبوط کئے جانے لگے ہیں۔ پھربھی وہی برسوں پرانا نعرہ کبھی کبھی قوت سماعت سے ٹکراتا ہے کہ میرا بھارت دیش مہان ہے۔ کئی ماہرین کا ماننا ہے کہ پچھلے چالیس سالوں میں ملک کی GDP سب سے نچلے درجے تک پہونچ گئی ہے۔ اور ملک کی شرح نمو پچاس سال پیچھے چلی گئی ہے۔ حال یہ ہے کہ ملک کے اکثر بینک جاں کنی کے عالم میں ہیں۔ ملک کی بے شمار فیکٹریوں میں تالے لٹک چکے ہیں اور سیکڑوں کمپنیاں بند ہونے کے دہانے پر کھڑی ہیں۔ لاکھوں مزدور بے روزگار ہو چکے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں ملازمت پیشہ حضرات کی نوکریوں پر بے روزگاری کی دھاردارتلوار لٹک رہی ہے۔ ہم اسی ملک میں جی رہے ہیں جہاں مہنگائی آسمان بوس ہوچکی ہے۔ اس ملکسے روزگار گدھے کے سر سے سینگ کی طرح دھیرے دھیرے غائب ہوتا جا رہا ہے۔ ملک کی معیشت کو دیمک لگ چکی ہے۔ یہاں کے اسپتال بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ پھربھی ان اہم مدعوں کو پسِ پشت ڈال کر دن رات ٹی وی میں ہندو مسلم اور مسجد و مندر کے عنوان پر ڈبیٹس کرکے غلط چیزیں عوام کے سامنے پیش کی جا رہی ہیں۔ ایک مخصوص دھرم کے ماننے والوں کے ذہن و دماغ میں مسلمانوں کے تیئں نفرت پیوست کی جا رہی ہے۔ حد تو تب ہو گئی جب کورونا وائرس جیسی مہلک عالمی وباء جس سے ایک جانب ملک کی عوام و حکومت دونوں پریشانی کے دور سےگزر رہے تھے۔ لیکن دوسری جانب یہاں کی الیکٹرانک میڈیا پر جس طرح سے کورونا وائرس پھیلانے کا جھوٹا الزام مہینوں مسلمانوں کے سر مڑھا جاتا رہا۔ اور یہ سلسلہ ملک کی عدلیہ کے تبصرے کے بعد رکا۔ جب عدالت نے یہ کہدیا کہ کورونا وائرس کسی ذات یا مذہب سے نہیں پھیلا۔ کسی ایک فرقے پر اس کا الزام لگانا درست نہیں۔

 سچ تو یہ ہے کہ اس ملک میں رفتہ رفتہ انسانی خون سستا اور پانی و روٹی مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔ ملک میں روزانہ کروڑوں لوگوں کو دو وقت کی روٹی کے لئے انتہائی درجے کی مشقت کرنی پڑ رہی ہے۔ اسی لئے یہاں پر لوگ خودکشی کو ایک ایوینٹ سمجھ کر اپنے پیچھے بیوی بچوں کو بے یارو ومددگار چھوڑ کر خوشی بخوشی پھانسی کے پھندے پرجُھول جاتے ہیں۔  ملک کو اپنی انتھک کوششوں اورمشقتوں کے بعد اناج میسر کرنے والے کسانوں کا بہت ہی برا حال ہے۔ ڈاکٹرس اور وکلاء حضرات پنی اپنی پریشانیوں کے باعث اکثر و بیشتر ہڑتال پر رہتے ہیں۔ دستکاری صنعت غرق آب ہو رہی ہے۔ بنکری پیشہ سے منسلک حضرات کی حالت دِگرگوں ہے۔ کوئی ان کا پرسانِ حال نہیں ہے۔ ان کی حکومتی امداد تقریباً بند ہوچکی ہے۔ ان کی بجلی سبسڈی ختم کردی گئی ہے۔  ایک اچھی اور عمدہ حکومت کا فریضہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے دورِحکومت میں کوئی بھی انسان پریشان نہ رہے۔ چاہے وہ کسی بھی دھرم اور ذات کا ہو۔ لیکن یہاں تو ہمیں دھرم اور ذات میں بانٹا جا رہا ہے۔ دھرم اور ذات کے سیاسی کھیل میں غریب عوام پِس رہی ہے۔ اور جو اِس کھیل کے بڑے مداری ہیں وہ اسی کا فائدہ اٹھا کر اپنے سیاسی کیریئر کو مزید مضبوط کر رہے ہیں۔ اس ملک میں ایک طبقے کے اکثر مذہبی جذبات بھڑکانے کی مذموم کوشش کی جاتی ہے۔ ان کے دینی رہنماؤں کی شان میں آئے دن شوشل میڈیا پر مظلظات لکھا جاتا رہتا ہے۔ اور ایسا کرنے والے کھلے عام گھومتے رہتے ہیں۔ 2014 میں لوگوں کو امید جگی تھی جب ایک پارٹی نے عوام کو اچھے دنوں کا بھروسہ دلایا تھا۔ عوام نے سوچا تھا کہ اب ستر سالوں کے بعد اس ملک میں بدلاؤ دیکھنے کو ملے گا۔ غریبوں کی پریشانیاں دور ہوں گی۔ زنگ آلود سسٹم اب نئے سرے سے نکھر کر آئے گا۔ تعلیمی و سرکاری نظام بالکل درست ہو جائے گا۔ بے روزگاری ختم ہو جائے گی۔ لیکن آزادی کے اتنے سالوں بعدبھی عوام کو مایوسی ہی ہاتھ لگی ہے۔ یہاں کے لوگ شاید اب کسی چمتکار کے منتظر ہیں۔

*فرمان مظاہری*

مقیم حال سعودی عرب

m.farman9956@gmail.com