بڑے خطرہ میںہے حسن گلستاں

Taasir Urdu News Network | Uploaded  on 19-September-2020

آہستہ آہستہ ہندوتوااپنے ایجنڈے کوآگے بڑھارہاہے؛ بل کہ بہت د ورتک پہنچ چکاہے، خاکہ توآزادی سے پہلے تیارکرلیاگیاتھا، اب رنگ بھرائی کاکام چل رہاہے، رنگ بھرائی کاکام بھی صرف بی جے پی کے برسراقتدارآنے کے بعدسے شروع نہیںہواہے؛ بل کہ اسی وقت سے شروع ہوگیاتھا، جب سے اس ملک کودوٹکڑوںمیںتقسیم کیاگیا اور۱۴/اگست کوپاکستان کے نام سے الگ ملک بنادیاگیا، ظاہرہے کہ ان لوگوںکوبڑاغصہ آیا، جواس وقت کے سرکردہ لیڈرتھے؛ لیکن اس وقت کچھ کرنہیںسکتے تھے؛ اس لئے کھل کرتواس طرح کوئی کام نہیںکیا،ہاںفسادات کاسلسلہ دراز ہوتاگیا، جوآج تک بھی جاری ہے، اورایک بڑا ایساکام کیا، جواس ملک میںرہ جانے والے بالخصوص مسلمانوں کے سرپرننگی تلواربن کرلٹکتی رہی ہے اورہمیشہ سے اس کے ذریعہ سے انھیں ٹارچرکیاجاتارہاہے، وہ کام تھاملکی قانون میںایک ایسے دفعہ کوداخل کرنے کا،جو اس جمہوری ملک میں’’مذہبی آزادی‘‘ہونے کے باوجودبھی مذہب پرعمل درآمدگی کوختم کرنے کی ایک کوشش تھی؛ چنانچہ دستورکے دفعہ نمبر(۴۴)میںلکھاگیا: ’’مملکت یہ کوشش کرے گی کہ بھارت کے پورے علاقہ میںشہریوںکے لئے یکساںسول کوڈکی ضمانت ہو‘‘(بھارت کاآئین(مترجم)، ص: ۶۲)۔

عام لوگوںکے ذہنوںمیںیہ سوال ہوگاکہ ’’یکساںسول کوڈ‘‘کیاہے؟ اس سوال کاجواب جاننا ضروری ہے؛ تاکہ مسئلہ کی نزاکت کوسمجھاجاسکے، اس سے مرادوہ قوانین ہیں، جن کے ذریعہ سے ملک کے تمام باشندوںکی سماجی اورعائلی مسائل یکساںطورپرحل کیاجائے، اس قانون کے تحت ہرفردکی شخصی اورخاندانی زندگی کے معاملات آتے ہیں اورنکاح وطلاق ، فسخ وہبہ، وصیت ووراثت اورتبنیت(لے پالک بنانا)جیسے مسائل اسی قانون کے تحت حل ہوتے ہیں، اس قانون کے نفاذکامطلب یہ ہواکہ ان امورکے حل میں کسی بھی مذہب اوررسم ورواج کی رعایت نہیںکی جائے گی۔

یہ ملک مختلف مذاہب کے ماننے والوںکاملک ہے، جن کے اپنے الگ رسوم ہیں، جن کی روشنی میںشادی بیاہ اورطلاق وغیرہ کے مسائل حل کئے جاتے ہیں، یہ اوربات ہے کہ وہ سارے مذاہب اصحاب شریعت نہیںہیں، اصحاب شریعت صرف مسلم قوم ہے، جن کے پاس دستورکے روپ میںآسمانی کتاب بغیرکسی تحریف کے موجودہے، پھراس کی تشریح کے لئے احادیث کابڑاذخیرہ اورفقہاء کے اجتہادات بھی موجودہیں، جن کی بنیادقرآن اوراحادیث ہی ہیں، ظاہرہے کہ دوسری اقوام کواس قانون سے زیادہ نقصان تونہیں ہوگا؛ لیکن مسلمانوںکے لئے سرتاسرنقصان کاباعث ہوگا، یہی وجہ ہے کہ دووسری قوموںکے مقابلہ میںمسلمان ہی زیادہ اس کے خلاف آواز بلندکرتے رہے ہیں، یہ اوربات ہے کہ دیگراقوام بھی دشواری سے بچ نہیںسکتیں؛ لیکن انھیںاپنے رسوومات کوچھوڑنے میںبہت زیادہ فرق نہیںہوگا، یوںبھی نئی نسل آزادی کی قائل ہے، مسئلہ مسلم قوم کاپھنسے گا؛ کیوںکہ یہ جان تودے سکتی ہے؛ لیکن اپنے مذہب کے دائرہ سے ایک انچ ہٹناگوارہ نہیںکرتی اورنہ اس کے لئے اس کی گنجائش دی گئی ہے۔

ادھرجب سے بی جے حکومت آئی ہے، کوئی نہ کوئی ایسامسئلہ ضرورکھڑاکردیتی ہے، جس سے محسوس ہوتاہے کہ یہ لوگ اس کوشش میںہے کہ یکساںسول کوڈ نافذکردیا جائے، اس سے پہلے بھی(بی جے پی حکومت سے پہلے بھی) کئی مسئلوںمیںایسے فیصلے کئے گئے ہیںاورپھرباقاعدہ اعلان بھی کیاگیاکہ یہ یکساںسول کوڈ کی طرف بڑھتاہواایک قدم ہے؛ چنانچہ ۱۹۷۲ء میں مرکزی وزیرقانون مسٹرگوکھلے نے Adoption of Children Bill 1972کوپارلیمنٹ میںپیش کرتے ہوئے کہا: ’’یہ مسودہ قانون یونیفارم سول کوڈ کی طرف ایک مضبوط قدم ہے‘‘، شاہ بانوکے کیس(۱۹۸۵ء) میںبھی کافی ہنگامہ آرائی رہی اوراب جب سے بی جے پی آئی ہے، وہ بھی اسی طرف قدم بڑھارہی ہے، اس نے طلاق ثلاثہ بل پرپہلے دھاوابولا، پھرمحرم کے بغیرعورتوںکے لئے حج میںجانے کاقانون بنایااورآج کل مرکزکی توجہ اس طرف ہورہی ہے، اس نے اشارہ دیاہے کہ یکساںسول کوڈ کے تعلق سے وسیع پیمانہ پرمشاورت کی ضرورت ہے؛ لیکن کیااس مشورہ میںملک کی دوسری بڑی اکثریت کوبھی شامل کیاجائے گا؟ یہ حکومت کے ’’فیصلوں‘‘کودیکھتے ہوئے یقینی طورپرکہانہیںجاسکتا۔

اس وقت ملک میںکئی بڑے مسائل اژدہے کی طرح منھ کھولے ہوئے ہیں، ان کی طرف توجہ دینے اوران پربات کرنے کی بجائے ایسے مسائل زیربحث لائے جارہے ہیں اورایسے مسائل چھیڑے جارہے ہیں، جوبہرصورت بے موقع کی راگ ہیں، خبروںکے مطابق کوروناسے متاثرین کی تعدادیومیہ لاکھ کے قریب ہوچکی ہے، اس تعلق سے بڑے بڑے دعوے کئے گئے؛ لیکن دعوے حقیقت میںتبدیل نہیںہوئے، اگردعوے حقیقت میںتبدیل ہوتے توآج یومیہ ت۔اتنی بڑی تعدادنہ پہنچتی، معیشت تباہ ہوچکی ہے اوردوسرے کسی بھی ملک کے لحاظ سب سے زیادہ گراوٹ ہمارے ملک میںہی ہے، اس پرکسی قسم کی کوئی بات نہیںکی جارہی ہے؛ بل کہ عین اس وقت، جب کہ معیشت پربات ہونی چاہئے، ملک کے تقریباً تمام نیوز چینلوںمیںششانت سنگھ اورکنگنارناوت کی خبریں چھائی رہیں، بے روزگاری اپنے عروج پرپہنچ چکی ہے، بے روزگارسڑکوںپراحتجاج کررہے ہیں، اس پرکوئی گفتگونہیں جارہی ہے، کسان دھرنے پربیٹھے ہیں، وہ خودکشی پرمجبورہیں، ان کی طرف کوئی توجہ نہیںدی جارہی ہے، چین ۳۸؍ہزارکیلومیٹراندرآچکاہے، وہ سرحدپراپنی فوج بھی تعینات کرچکاہے اورفوجی اسلحہ جات کی مسلسل نقل وحرکت کرہاہے، اس تعلق سے اب جاکروزیرخارجہ کی چپی ٹوٹی ہے ؛ لیکن ٹھوس قدم کی بجائے بس باتیں ہی باتیں ہیں، اِدھرنیپال مسلسل ایسی حرکت کررہاہے، جوقابل اعتراض ہے؛ لیکن اس پرکوئی بات نہیں۔

اس وقت موقع تھاان امورپربات کرنے کا، ان امورپرتبادلۂ خیال کرنے کا، ان امورپرڈبیٹ کرنے کا، ان امورپرتوجہ دینے کا؛ لیکن بات کیاہورہی ہے؟ اورکام کونسے کئے جارہے ہیں؟ بات ہورہی ہے یکساںسول کوڈ کے تعلق سے ، کام ہورہاان لوگوںکی گرفتاری کا، جوہندوستان کے قانون کی حفاظت کے لئے سڑکوںپراترے تھے، ان نوجوانوںکوجیل میںڈالنے کا، جوحکومت کی غلط پالیسیوںپربات کرنے کے لئے آگے بڑھے تھے، جنھوںنے حکومت کی غلط حرکتوںپرآواز بلندکی تھی، پھران کی گرفتاری بھی کس قانون کے تحت ہورہی ہے؟ UAPA(Unlawful Activities (Prevention) Act)کے تحت، جس کی روسے یہ لوگ ملک کے غدارقراردئے جارہے ہیں، کیاحق کے لئے لڑنااوراس کے لئے آواز بلندکرناملک سے غداری ہے؟ جولوگ پرامن احتجاج کررہے ہیں، وہ ملک کے غدارہیں اورجن لوگوںنے سرعام بندوقیںتانیں، گولیاںبرسائیں، کھلے عام دھمکیاںدیں اورجواصل مجرم ہیںدہلی فسادکے بھڑکانے کا، وہ دیش بھگت ہیں، یہ ہے ہندوستان ، یہ ہے دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت کاحال!

ایسے وقت میںبہت زیادہ افسوس ان لوگوںپربھی ہوتاہے، جوہمارے قائدین کہلاتے ہیں، جن کوہم ہمیشہ سیکولرسمجھتے رہے ہیںاورجن کی وجہ سے آج تک ہم نے کسی قسم کی سیاسی پیش رفت نہیںکی ہے، ان کی زبانوںپرتالے ہیں، ان کے یہاںمکمل طورپرخاموشی ہے، اوران کی خاموشی توسمجھ میںبھی آنے والی ہے کہ کبھی بھی ہمارے وفادارنہیںرہے، ہم ہی ان کے وفاداربن کررہے ہیں، ان کی خواہش توہمیشہ سے یہی رہی ہے کہ مسلمانوںکودباکرہی رکھاجائے، دستورسازی کے وقت اسی لئے تویکساںسول کوڈ کی وہ شق رکھی گئی، ورنہ جس ملک میںکئی مذاہب کے ماننے والے بستے ہوںاورجس ملک کاکوئی مذہب متعین نہ کیاجاسکے، وہاںکے دستورمیں، وہاں کے قانون میںاس شق کاکیامطلب ہوتاہے؟ جب ملک ہی لامذہب ہے توپھربھارت کے پورے علاقہ میںشہریوںکے لئے یکساںسول کوڈکی ضمانت کے کیامعنی؟

آج ہمیںاس پربولناہوگااورجولوگ اس پربول رہے ہیں، ان کاساتھ دیناہوگا، آج اگرنہیںبولے توزبان تک کاٹ لی جائے گی، آج اگرخاموش رہے توطبقاتی نظام مسلط کردیاجائے گا، آج اگرلب نہیںکھولے توپھرتومذہب پرعمل دشواررترین ہوجائے گا، بول کہ اس وقت تیرے لب آزادہیں، خطرہ کی گھنٹی نہیں، گھنٹہ بج چکاہے؛ لیکن ہم خاموش ہیں، ہم بھی ایسے مسائل میںالجھے ہوئے ہیں، جو چودہ سوسال سے حل نہیںہوئے، جوبکتے ہیںان مسائل پر، انھیںبکنے دو، اس میںالجھنے کی بجائے ، ملک کی صحیح صورت حال پرغورکیجئے، اس کااحساس کیجئے، ملک میںآپ رہیںگے توآئندہ بھی ان مسائل پربات کرسکتے ہیں؛ لیکن جب آپ ہی نہ ہوںگے، آپ کومذہب پرعمل کی آزادی نہیںہوگی، توپھر بات کس پرکریںگے؟ اس لئے اس وقت مسلکی، مذہبی اوران مسائل کوچھوڑیئے،جوناتوحل ہوسکتے ہیںاورنہ جن کے تعلق سے ہمیںحشرکے دن پوچھاجائے گا، خطرہ احساس کیجئے، وہ نشان سے اوپرآچکاہے، اسی میںہماری بھلائی ہیں۔

ہمیںکیاہوگیاہے کہ ہمارے خلاف توسازشیںچل رہی ہیں، ہمیںاس ملک سے دربدرکرنے کامنصوبہ بنایاجارہاہے، ہماری شناخت مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے، ہماری آزادی چھیننے کے چرچے ہورہے ہیں، ہمارے خلاف نفرت کی کھیتی کی جارہی ہے اوران لوگوںکے ذہن کومسموم کیاجارہاہے، جوبالکل سادہ لوح اورسادہ ذہن ہیں، اسکولی نصاب میںتبدیلی کردی گئی ہے، تعلیمی پالیسیوںمیںبدلاؤلایاجاچکاہے؛ لیکن ہمیںکچھ بھی فکرنہیں، ہم ایسے حالات میںبھی کفرکفر، شیعہ، رفض رفض، درباری اورغیردرباری مولوی اوراس طرح کے مسائل میںالجھے ہوئے ہیں، حسن گلستاںابھی خطرہ میںہے،کاش! ہمیںاس حقیقی خطرہ کااحساس ہوجائے، اس کوبچانے کی سوچناچاہئے اوردین ودینی تشخصات کوبچانے کی فکرکرناچاہئے اوراس کے لئے اس طرح کمرکس لیناچاہئے، جس طرح وقت کے لحاظ سے غیرضروری چیزوںمیںکس رہے ہیں، کاش ! کاش! کاش!