تیرے ہی دم سے ہے گلشن میں ہر طرف رونق

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 04-September 2020

عاصم طاہر اعظمی 

 ایڈیٹر آئی این اے نیوز نیوز اعظم گڑھ 

7860601011 

9307861011 

ہمارا معاشرہ سال کے جن ایام کو خصوصی اہمیت دیتاہے ، ان میں سےایک یومِ اساتذہ بھی ہے، جو 5ستمبر کو ہر سال پورے ملک میں منایاجاتاہے۔ اس موقع پر جلسے ، مذاکرے اور اس نوعیت کے مختلف رنگا رنگ پروگراموں کا انعقاد کرکے ایک قابل احترام اور مقدس پیشہ میں مصروف اساتذہ کو خراجِ تحسین پیش کیا جاتاہے ہم سب جانتے ہیں کہ یہ یادگار دن یعنی ٹیچرس ڈے ہندوستان کے پہلے نائب صدر اور دوسرے صدر جمہوریہ ڈاکٹر سروپلی رادھا کرشنن کے یوم ِ پیدا ئش پر منایا جاتاہے۔ آپ ایک استاذ کی حیثیت سے ترقی کرکے صدر جمہوریہ کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہوئے تھے۔ خود کو استاد کہلانا پسند کرتے تھے۔ وہ نہایت منکسر المزاج تھے۔ ان کا لباس سفید کوٹ، پگڑی اور دھوتی ہوا کرتاتھا۔ وہ اپنے طلبا میں اتنے مقبول تھے کہ یونیورسٹی سے رخصت ہونے پر طلبا ایک گھوڑا گاڑی کو سجا کر لائے ، اس میں انہیں سوارکرکے گھوڑوں کے بجائے اپنے کاندھوں پر کھینچ کر اسٹیشن لئے گئے اور نمناک آنکھوں کے ساتھ عزت و احترام سے رخصت کیا، (ماہنامہ پیش رفت نئی دہلی)  آج ہم یقیناً یوم ِ اساتذہ تزک و احتشام کے ساتھ مناتے ہیں، اساتذہ کی حالت ضرور بہتر ہوئی ہے، ان کی ہر طرح مادی ترقی بھی ہوئی ہے مگر یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے، اس کا دوسرا پہلو اتنا ہی دھندلا اور قابل ِ غور ہے، جو ہمیں بتاتا ہے کہ استاد و شاگرد کا مستحکم رشتہ جو پہلے تھا وہ اب کافی کمزور ہوچکاہے ۔ ایک زمانہ وہ تھا جب استاد کو شخصیت ساز اور معمارِ قوم تصور کیا جاتاتھا اور حاکم ِ وقت بھی اپنے استاد کے احترام میں سرجھکا دیتے تھے، سکندر ِ اعظم کا واقعہ مشہور ہے کہ وہ اپنے استاد ارسطو کے ساتھ سفر کررہے تھے، راستے میں ایک دریا آیا تو دونوں میں یہ مشورہ ہوا کہ پہلے پانی میں اتر کر کون اس کی گہرائی کا اندازہ لگائے، سکندر اعظم کی ضد تھی کہ دریا کی گہرائی ناپنے کا اسے موقع دیا جائے ارسطو نے سکندر کو اس سے دور رکھتے ہوئے کہاکہ میں تمہار ا استاد ہوں ، تمہیں میری بات ماننی ہوگی پانی میں پہلے میں اتروں گا سکندر نے برجستہ جواب دیا کہ استاذ محترم اس عمل میں آپ کی جان بھی جاسکتی ہے۔ لہذا میں ہرگز یہ گوارہ نہیں کروں گا کہ دنیا آپ جیسے لائق استاد سے محروم ہوجائے کیوں کہ سیکڑوں سکندر مل کر بھی ایک ارسطو پیدا نہیں کرسکتے، جب کہ ایک ارسطو سیکڑوں کیا ہزاروں سکندر پیدا کرسکتاہے۔ سکندر کا یہ قول بھی بہت مشہور ہے کہ میرے والدین نےمجھے آسمان سے زمین پر اتارا جب کہ میرے استاد نے مجھے زمین سے آسمان کی بلندی تک پہنچا دیا،

اساتذہ کی اہمیت اس بات سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب نے اللہ کے حقوق کے ساتھ والدین اور استاد کے حقوق و احترام ادا کرنے کی تلقین کی ہےایک بچہ کی تربیت میں جو حصہ ماں ادا کرتی ہے ، وہی بعد میں ایک استاد نبھاتاہے۔ استاد صرف نصاب تعلیم نہیں پڑھاتا وہ شخصیت سازی (Personality Development)کاکام بھی کرتاہے تعلیم کے ساتھ تربیت (Training) بھی دیتاہے ۔ آج کا بچہ کل کا مثالی شہری (Ideal Citizen)بنے گا اسے پہلا سبق اپنے اساتذہ سے ہی لینا پڑتاہےاور ان کی نگرانی میں ہی بچہ جوانی کی سیڑھی پر قدم رکھتاہے اُسے اپنے اساتذہ سے صرف نصابی علم نہیں ملتا بلکہ اخلاق، تہذیب اور ثقافت کابھی درس ملتاہے استاد کے بغیر تعلیم کی تکمیل نہیں ہوسکتی وہ زندگی کے تمام معاملات میں ایک گائیڈ کا کام کرتاہے، مارگ درشن دیتاہے ، اسلامی تعلیمات میں اساتذہ کی تکریم کا حکم جا بجا ملتا ہے۔ یہاں تک کہ نبی رحمت کا ارشاد گرامی ہے کہ مجھے معلم بنا کر معبوث کیاگیا ہے۔ آپ کا بحثیت معلم دنیا کے لیے انمول کردار تھا۔ دیگر معاشروں اور مذاہب کے مقابلے میں اگر اسلام میں استاد کے مقام کے بارے میں ذکر کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اسلام اساتذہ کی تکریم کا اس قدر قائل ہے کہ وہ انہیں روحانی باپ کا درجہ دیتا ہے۔ استاد شاگرد کی روحانی اور اخلاقی تربیت کے نتیجے میں اسے زمین کی پستیوں سے اٹھا کر آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے، اساتذہ علم کے حصول کا برائے راست ذریعہ ہیں اس لیے ان کے احترام کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ مسلمان طالب علم کی حیثیت سے ہمارے لیے زندگی کا ایک ایک پل اساتذہ کی عزت اور احترام سے ہو نا چاہیے،

تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے بھی استاد کی قدر کی وہ دنیا بھر میں سرفراز ہوئی۔ امریکہ، برطانیہ، جاپان، فرانس،ملائیشیااوراٹلی سمیت تمام ترقی یافتہ ممالک میں استاد کوجو عزت اور مقام و مرتبہ حاصل ہے وہ ان ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم کو بھی نہیں دیا جاتاکیونکہ وہ جانتے ہیں کہ استاد مینار نور ہے جو اندھیرے میں ہمیں راہ دکھلاتا ہے ایک انمول تحفہ ہے جس کے بغیر انسان ادھورا ہے اسلامی تاریخ کے سب سے بڑے خلیفہ حضرت عمر فاروق سے ایک بار کسی نے پوچھا کہ اتنی بڑی اسلامی مملکت کے خلیفہ ہونے کے باوجود آپ کے دل میں کوئی حسرت باقی ہے؟تو آپ نے فرمایا کہ کاش میں ایک معلم ہوتا‘‘۔ استاد کی عظمت و اہمیت اور معاشرے میں اس کے کردار پر علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کہتے ہیں کہ ’’ استاد دراصل قوم کے محافظ ہیں کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بنانا انہی کے سپر دہے ‘‘۔علامہ محمد اقبال کے یہ الفاظ استاد کی عظمت و اہمیت کے عکاس ہیں۔ استاد کافرض سب فرائض سے زیادہ مشکل اور اہم ہے کیونکہ تمام قسم کی اخلاقی، تمدنی اور مذہبی نیکیوں کا کلید اس کے ہاتھ میں ہے۔ اور ہر قسم کی ترقی کا سرچشمہ اسکی محنت ہے۔ استاد فروغ علم کا ذریعہ ہے لیکن اس کے علم سے فائدہ وہ نیک بخت اٹھاتے ہیں جن کے سینے ادب و احترام کی نعمت سے مالا مال ہوں،

اسلام نے دنیا کوعلم کی روشنی عطا کی ،استاد کو عظمت اور طالب علم کو اعلیٰ و ارفع مقام عطا کیا ہے، اسلام نے استادکو روحانی والدقرار دے کر ایک قابل قدرہستی ،محترم ومعظم شخصیت ، مربی و مزکّی کی حیثیت عطا کی۔استاد کے کردار کی عظمت و اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس عالم رنگ و بو میں معلّم اوّل خود رب کائنات ہیں ،چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد ہے ،اور اٰدم کو اللہ کریم نے سب چیزوں کے اسماء کا علم عطاء کیا۔(البقرہ۔31) ۔انسان کی تخلیق کے ساتھ ساتھ تعلیم کا بھی انتظام فرمایا” رحمٰن ہی نے قراٰن کی تعلیم دی،اس نے انسان کو پیدا کیااس کو گویائی سکھائی”۔(الرحمٰن)ذریعہ تعلیم قلم کو بنایا “پڑھ اور تیرا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم سے سکھایااور آدمی کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتاتھا”۔(العلق ۔6) استاد ایک چراغ ہے جو تاریک راہوں میں روشنی کے وجود کو برقرار رکھتا ہے استاد وہ پھول ہے جو اپنی خوشبو سے معاشرے میں امن اور دوستی کا پیغام دیتا ہے۔ استاد ایک ایسا رہنما ہے جو لوگوں کو گمراہی سے نکال کر منزل کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ جس طرح ماں باپ کا کردار اہم ہے کیونکہ وہ اپنی اولاد کی جسمانی طور پر اس کی صحت اس کے نشونما کا خیال رکھتے ہیں اسی طرح استاد اپنے شاگرد کی روحانی تربیت کا انتظام اور احترام کرتا ہے، کسی نے بہت خوب بات کہی کہ میرے والدین بھی بڑی عظمت والے ہیں اور میرے استاد بھی، لیکن میں تو یہ دیکھتا ہوں کہ میرے ماں باپ مجھے آسمان سے لے کر زمین پر آئے اور استاد نے زمین سے آسمان تک پہنچا دیا، انسان کو پیدائش کے بعد بشریت سے آدمیت تک تراشنے والی ہستی معلم کی ہی ہے۔ اور اس ہستی کا احترام ہم سب پر کتنا لازم ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کو معلم کہا۔اور آپ  کے شاگرد آپ کےصحابہ کرام تھے اور وہ آپ  کا کتنا احترام کرتےتھے ۔ دنیا کی تاریخ ایسی نظیر پیش کرنے سے آج تک قاصر ہے اور تا قیامت  رہے گی۔

مجھے فخر ہے کہ میں بھی اساتذہ کرام کی  بے لوث رہنمائیوں، کرم فر مائیوں اور ان کی شفقتوں کا مرہون منت ہوں آج یومِ اساتذہ کے موقع پر اپنے ان تمام اساتذہ کرام کا کہ جنہوں نے گاؤں کی مکتب کی تعلیم سے اشاعت العلوم کوٹلہ اور جامعتہ الشیخ و دارالعلوم وقف دیوبند میں دورہ حدیث شریف اور حجتہ الاسلام اکیڈمی بعدہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار فیتھ لیڈر شپ غازی آباد تک میری رہنمائی کی اور شاہراہ  پر انگلی پکڑ کر میری صلاحیتوں کو نکھارا سنوارا جن کی کی محبت وشفقت سے میری زندگی میں لالہ وگل نے جنم لیااورمیرے چمن میں بہار آئی، جن کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا، ان صبحوں اور شاموں کو آواز دینا چاہتا ہوں جو نہ جانے کہاں کھو گئیں لیکن آج بھی دل کے عطردان میں عود کی طرح سلگتی رہتی ہیں، گئے زمانے کے کھنڈروں کے بیچ ان کو شب و روز حافظے کی شمعیں لے کر تلاش کر رہا ہوں، جن کا مجھ پر بڑ ااحسان ہے میں ان پاک نفوس لوگوں سے نگار خانہ دل آباد کرنا چاہتا ہوں جن کی یادوں کی پر چھا ئیاں میرے چہار سو موجود ہیں،  یہ کامیابیاں، عزت، یہ نام تم سے ہے خدا نے جو بھی دیا ہے مقام تم سے ہے حق تعالیٰ جل مجدہ میرے ان اساتذہ کو جو اس دار فانی سے رخصت ہو گئے ان کی قبروں کو نور سے منور فرما اور جو حیات سے ہیں انھیں صحت و تندرستی عطا فرمائے آمیــــن یا رب العالمین