حالات حاضرہ پر ایک تحریر۔(جی ڈی پی) کے حوالے سے‎

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 01-September 2020

از۔محمدقمرانجم  فیضی

رابطہ نمبر۔393021704

مجھے اچھی طرح یادہے کہ مارچ 2020کے کےاوائل میں جب راہل گاندھی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہاتھا کہ ملک میں معاشی بحران کی ایسے سونامی آنےوالی ہے جس کا اندازہ بھی آپ کو نہیں ہے  تو اس بات پر دن بھرگودی میڈیا نیوز چینلوں پر ان کا تمسخر اور مذاق اڑایاگیاتھا،  وزیربرائے صحت  ہرش وردھن ان پرلعن طعن کرکے تانے کَس رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ انہیں کیا(WHO) سےبھی زیادہ معلومات ہیں؟  یہ تو ہر کسی کو معلوم تھا کہ کسی نہ کسی دن ایسا ہونےولاہے،مگر ملک کے معاشی حالات اتنے برے ہوجائیں گے یہ کوئی نہیں جانتا تھا،اور اس معاشی بحران کی بہت ہی بری خبر سننےکے لیے ہر کوئی تیار بھی نہیں تھا۔ بالآخر وہ اعداد و شمار سامنے آگئے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ جی-20 ممالک میں اس وقت ہندوستان کی معیشت سب سے خراب حالت میں پہنچ چکی ہے۔ ملک کی جی ڈی پی میں 23.9 فیصد کی گراوٹ درج کی گئی ہے۔ یہ گراوٹ اپریل سے جون کی سہ ماہی میں ہوئی ہے۔ ہو سکتا ہے وزیر مالیات اسے ‘ایکٹ آف گاڈ’ یعنی اس میں اوپر والے کا ہاتھ بتا دیں، لیکن حکومت کے پاس اس بات کا کیا جواب ہے کہ دنیا کے سبھی کورونا انفیکشن والے مریضوں میں سے 28 فیصد تنہا ہندوستان میں ہیں۔ مطلب صاف ہے کہ لاک ڈاؤن کورونا کا انفیکشن روکنے میں ناکام رہا اور معیشت کا بھٹّہ بیٹھ گیا۔

(1)[پہلے ہی ہو چکا ہے مالی خسارے میں 103.1 فیصد کا اُچھال]

پیر کے روز ہی سنسیکس نے 839 پوائنٹ کا غوطہ کھایا، سرمایہ کاروں کے لاکھوں کروڑ روپئے دیکھتے دیکھتے ہَواا ہو گئے۔ اسی درمیان بری خبر  آگئی کہ ملک کی معیشت الٹی سمت میں چل پڑی ہے اور اسے واپس صحیح راستے پر آنے کا امکان نہ صرف دھندلا ہے بلکہ بہت دُور بھی ہے۔ یعنی اب مرکزی حکومت، ریاستوں کو اس کا جی ایس ٹی بقایہ نہیں دے گی۔(میں نے’صاحب کٹوراتھماکےہی دم لیں گے”والےمضمون میں اس بات کا ذکر کیا تھا، آخروہی ہوا)  مالی خسارےکے اہداف کو حکومت پہلے ہی پار کرچکی ہے، اوراب مالی خسارہ 8.21 لاکھ کروڑ کا ہوگیا ہے جو کہ موجودہ مالی سال کے لیے طے ہدف سے 103.1 فیصد زیادہ ہے۔

(2)[ہَوا ہوگیا 20 لاکھ کروڑروپئے کا پیکیج]

وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعہ اعلان کردہ اور وزیر مالیات کے ذریعہ 5 قسطوں میں پیش کردہ مبینہ 20 لاکھ کروڑ کا معاشی پیکیج ہَوا میں اڑ چکا ہے۔ معیشت غرق ہو گئی ہے اور بھلے ہی اگلے تین مہینے میں اس میں کچھ بہتری نظر آئے، کیونکہ لاک ڈاؤن ختم کر دیا گیا ہے، لیکن حکومت کے پاس ایندھن ہی نہیں بچا ہے کہ وہ ملک کی معاشی گاڑی چلا سکے۔ ہو سکتا ہے جی ڈی پی کے اعداد و شمار آنے والے دنوں میں بہتر ہوتے ہوئے نظر آئیں، لیکن آنے والی سہ ماہیوں میں عام شہریوں کی مصیبتیں اور دقتیں بڑھنے کا بہت زیادہ اندیشہ ہے کیونکہ اس حادثے کا اثر ہر کسی پر پڑے گا۔

(3)[کیااب بھی اسے ‘ایکٹ آف گاڈ’ ہی بتائیں گی وزیر مالیات؟]اس حادثے کے لیے وزیر مالیات بھگوان کو ذمہ دار ٹھہراتی ہیں، ایک طرح سے وہ اس بدنظمی کی ذمہ داری سے پلہ جھاڑ رہی ہیں۔ سیاسی طور پر وزیر مالیات نرملا سیتارمن کی دلیل اور رخ کو سمجھا جا سکتا ہے، لیکن انھیں یہ تو جواب دینا ہی پڑے گا کہ آخر گزشتہ مالی سال 20-2019 کی چوتھی سہ ماہی میں شرح ترقی گر کر 3.09 فیصد کیوں پہنچی تھی جو گزشتہ 44 سہ ماہیوں کا سب سے ذیلی سطح ہے۔ ہو سکتا ہے کہ حکومت اس مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں شرح ترقی میں ہوئی گراوٹ کا سبب کورونا کو ہی بتا دے گی، لیکن مسئلہ تو یہ ہے کہ ایک طرف جب حکومت کی آمدنی یعنی خزانہ گر رہا ہے تو سرکاری خرچ میں اضافہ ہوا ہے۔ اب ہم ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں یا تو حکومت کو بڑے مالی خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا، یا پھر سرکاری خرچ میں زبردست کمی کرنی پڑے گی۔ اور ہو سکتا ہے کہ حکومت یہ دونوں ہی کام کرے۔ اور ایسے میں مزید ایک بری خبر یہ ہے کہ آر بی آئی کے پاس اتنی گنجائش ہی نہیں بچی ہے کہ وہ حکومت کو کچھ راحت دے سکے۔

(4)[اور بھی برے ہو سکتے ہیں آنے والے حالات]

ایسے میں ان اعداد و شمار کو ایک تناظر میں رکھنا اہم ہو جاتا ہے۔ رواں مالی سال کے لیے حکومت نے کل مالی خسارہ کا اندازہ 8 لاکھ کروڑ روپے کا لگایا تھا، لیکن اب یہ بڑھ کر 13 لاکھ کروڑ روپے تک جا سکتا ہے۔ یعنی 5 لاکھ کروڑ روپے زیادہ ہے۔ اس کا مطلب ہوگا کہ سرکاری منصوبوں کے لیے کم پیسہ، اور ایسا مرکز کے ساتھ ریاستوں میں بھی ہوگا۔ ایک طرف جب نجی یا ذاتی استعمال گر رہا ہے، ایسے میں حکومت بھی خرچ میں تخفیف کرے گی تو اس سے بحران میں مزید اضافہ ہوگا۔ مختصراً کہیں تو حالات بدتر ہی ہونے والے ہیں۔

(5)[حکومت کے بے کار فیصلوں سے ہوئی یہ حالت]

سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا کورونا بحران کو بہتر طریقے سے سنبھالا جا سکتا تھا؟ جواب ہے ہاں، بشرطیکہ حکومت نے معیشت کو جان بوجھ کر زمیں بوس نہ ہونے دیا ہوتا، کیونکہ اسے پتہ تھا کہ ایسا ہی ہوگا۔ ویسے بھی گزشتہ 6 سالوں کے دوران معیشت کی قوت برداشت حکومت کے یکے بعد دیگرے بے کار فیصلوں کے سبب کمزور ہو گئی ہے۔ یہ فیصلے آج بھلے ہی تاریخی ہو گئے ہوں لیکن دلیل یہ ہے کہ کروڑوں ہندوستانی خاندانوں کے پاس خود کو سنبھالنے کے لئے کوئی بچت نہیں رہی ہے۔

(6)[اب بھی نہ حکومت خواب غفلت سے بیدار ہو رہی نہ ہی میڈیا]

حکومت نے جب ملک میں مکمل لاک ڈاؤن لگایا تو ایک غلط فہمی لوگوں کے ذہن میں ڈال دی کہ حکومت کا کورونا وبا پر کنٹرول ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ حکومت اپنی کھال بچانے کے لیے وقت برباد کر رہی تھی۔ اسے ایک طرح سے سڑک پر لاٹھی پیٹنا بھی کہہ سکتے ہیں۔ لاک ڈاؤن اور اَن لاک میڈیا کے لئے بڑے جملے ہو سکتے ہیں، لیکن جب ایک دن میں 78761 افراد کورونا پازیٹو پائے جا رہے ہیں تو ایسے میں معیشت کو اَن لاک کیسے کر سکتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حکومت کو پتہ نہیں تھا کہ ایسے حالات میں کیا کچھ کیا جائے۔ اور یہی حالت اب بھی ہے۔تو اب آگے کیا ہوگا؟ آنے والے مہینوں میں سب سے بڑا بحران جو ہو سکتا ہے، وہ یہ کہ حکومتیں (مرکزی اور ریاستی دونوں) اپنے ملازمین کو تنخواہ ادائیگی کرنے میں پیچھے ہو جائیں گی۔ ریاستوں کا مسئلہ تو بہت بڑا ہے کیونکہ جی ایس ٹی جمع میں کمی مرکزی حکومت سے زیادہ ریاستوں کو متاثر کرتی ہے۔ پی ایم کسان ندھی اور منریگا کی ادائیگی میں تاخیر آنے والے مہینوں میں ایک سنگین مسئلہ ہو سکتا ہے کیونکہ یہ زمینی سطح پر کھپت (استعمال) کو متاثر کرے گا۔

(7)[این پی اے بڑھنے کا خطرہ]

اس سے بھی بڑا مسئلہ اب سامنے آئے گا، کیونکہ “آربی آئی” کا لون موریٹوریم یعنی قرض ادائیگی کی مدت اب ختم ہو رہی ہے اور لوگوں کو اس مدت کے سود پر سود ادا کرنا ہے۔ قرض کو نئے سرے سے طے کرنا ایک متبادل ہے، لیکن اس سے صرف صارفین خرچ میں کمی ہی آئے گی۔ ایسے میں آنے والے دنوں میں این پی اے یعنی ایسے قرض جن کی ادائیگی نہیں ہو پاتی ہے، ان میں زبردست اضافہ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ معاشی سرگرمیوں میں اصلاح کو دھیان میں رکھتے ہوئے مارچ 2021 تک 12.5 سے 15 فیصد کے درمیان ہو۔اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ اسے کیسے دیکھتے ہیں یا آپ کے پاس موجودہ معاشی حالت کو لے کر کیا نظریہ ہے، لیکن بے تکی پالیسیوں اور نوٹ بندی، جی ایس ٹی،کوروناوائرس اور لاک ڈاؤن معیشت کو زوال پذیر کیاہے۔ قلیل مدت میں تو ہمارے سامنے مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹنے والا ہے، ہاں طویل مدت میں کچھ بہتری کی امید ہے۔ لیکن جیسا کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے کہا تھا، طویل مدت میں ہم سبھی کو ایک دن ختم ہو ہوجاناہے۔

اس بحران کا سب سے زیادہ اثرہم جیسے غریب غرباء فقیر مزدوروں پر اب صاف صاف دکھنے لگاہے گذشتہ کئی مہینوں سے کوئی کام بھی نہیں ملا، جیب میں بلکل بھی پیسے نہیں ہیں، جو کچھ بچاکے رکھے تھے اس لاک ڈاؤن میں سب خرچ ہوگئے، یہ بات صرف میری نہیں ہے میرے جیسے لاکھوں لوگ ہیں جو اس طرح کے بحرانی حالات کا سامنا کرنےپر مجبور ومقہورہیں۔کسی طرح سے کھانے پینے کا انتظام ہوجاتاہے۔لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کب تک ایسے ہی حالات کا سامنا کرتے رہیں گے، امیروں پر تو اس بحرانی کیفیت کا کوئی اثر نہیں ہوگا کیونکہ انکے پاس پیسوں کی کوئی کمی نہیں ہے، ان کے پاس پیسوں کی آمدنی کے ذرائع ووسائل ہیں،حکومتوں کے دلالوں کودینےکے لئے مکمل جگاڑ ہے، ذرا سا بھی کوئی مسئلہ ہوا تو راتوں رات امریکہ یورپ نکل جائیں گے، اور وہاں جاکر نئی زندگی کی شروعات کریں گے، لیکن آپ اور ہم جیسے لوگوں کا کیا ہوگا ذرا سر جوڑ کر سوچئے اور غوروفکر کیجئے کہ آگے کیا کرناہے۔

سب سے زیادہ تباہی غریب عوام ،مزدوروں پرآئی ہوئی ہے، جہاں یہ مزدوری کرتے تھے، وہ کارخانے ہی بندہوگئےہیں اب بے چارے جائیں تو جائیں کہاں، اور کریں تو کیا؟تعلیم یافتہ نوجوانوں میں سے بہت لوگوں کی نوکریاں چلی گئیں ہیں، اوروہ گھربیٹھ گئے ہیں جب کہ بہت سارے وہ نوجوان ہیں، جواس امیدپرجی رہے تھے کہ آخری امتحان دینے کے بعدکہیں جاب میں لگ جائیں گے؛ لیکن نہ امتحان ہوتاہے اورناہی جاب ہی لگتی ہے، نتیجہ یہ ہے کہ وہ ڈپریشن کے شکارہوچکے ہیں، نیچے کلاس کے بچے اپنی تعلیم کے ایک بڑے حصہ کو پکا کر کھاچکے ہیں، جوانھوں نے آج تک اسکول میں پڑھاتھا، جو پڑھا لکھا تھا نیاز نے، اسے صاف دل سے بھلادیا، ان کے گارجین پریشان ہیں کہ اب ان بچوں کا مستقبل کیاہوگا؟ ملک کی معیشت ڈاؤن ڈول ہوچکی ہے، اس کی مثال توگرداب میں پھنسے اس کشتی کی مانندہوگئی ہے، جواب ڈوبےکب ڈوبے ، اگر زور کاجھٹکا لگے تو سیدھے سطح آب پر، بیس لاکھ کروڑ کا بیکج تو ایسا ہی ثابت ہوا، جیسے ہر کھاتا ہولڈر کے اکاؤنٹ کاپندرہ لاکھ، نوجوان توڑ پھوڑ پراتر رہے ہیں،ذرائع کے مطابق کل  سہسرام ریلوے اسٹیشن پرتوڑ پھوڑ مچائی گئی، ظاہرہے کہ وہ ڈپریشن کے مریض بن چکے ہیں، کچھ بھی کرسکتے ہیں، کہیں بھی توڑ پھوڑ کر سکتے ہیں، اس صورت حال سے نمٹناحکومت کی ذمہ داری ہے؛ لیکن ہماری حکومت نکمی حکومت ہے، ہماری حکومت کردوغلوؤں کے چنگل میں پھنس کر رہ گئی ہے، اس تعلق سے حکومت بڑی غیرذمہ دارواقع ہوئی ہے، اسے عوام کی بالکل بھی پرواہ نہیں ہے اسے توبس اپنی حکومت چاہئے اپنی ٹھاٹ باٹ چاہئے۔ باوقار محترم ایڈیٹرصاحب۔السلام علیکم۔امیدکہ مزاج عالی بخیرہونگے. ملک کے معاشی بحران (جی ڈی پی) کے تعلق سے ایک تحریر ارسالِ خدمت ہے، امیدکہ شائع فرماکر ایک بار پھر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں گے،