علماء کرام کا مقام و مرتبہ قرآن و حدیث کی روشنی میں

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 01-September 2020

محمد سفیان خاں بسواں سیتاپور

تحریر کا عنوان ہے ”قرآن وحدیث کی روشنی میں علمائے کرام کا مقام ومرتبہ“قبل اس کے کہ اصل بات کی جائے ،یہ وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ عالم یا علماء کن لوگوں سے عبارت ہے ، وہ کون سا علم ہے جس سے وابستہ لوگوں کے لیے قرآن و حدیث میں فضیلت وارد ہوئی ہے ؟  دانش اور دانائی کی بہت ساری قسمیں ہیں ریاضی ، طبیعیات ، نباتیات ، حیوانیات ، کیمیا ، فلکیات ، ارضیات، نفسیات ، طب وغیرہ وغیرہ ۔ یہ سارے وہ فنون ہیں جن کیحصول میں اپنی زندگیاں صرف کرنے والوں کو دنیا دانا اور دانشور کے لفظ سے یاد کرتی ہے ۔  اوپر ذکر کئے گئے تمام فنون دنیوی کہلاتے ہیں اورانسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے مدون کیے گئے ہیں ، قابل قدر ہیں وہ لوگ جنھوں نے بالقصد انسانیت کی خدمت کے لیے ان کو سیکھا اور آگے بڑھایا۔ ان کے بالمقابل ایک علم دینی اور شرعی ہے ، جس کا مدار اور محور اخروی راحت وسعادت ہے ، تخلیق انسان کا مقصد اسی علم میں پنہاں ہے ، کیوں کہ خالق کائنات نے بنی آدم کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے جیساکہ اللہ کا فرمان ہے:﴿وَمَاخَلَقْتُ الجِنَّ والإنْسَ إلا لِیَعْبُدُوْن﴾․(سورة الذاریات:56)۔ میں نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیاہے۔ عبادت نام ہے ہراس قول و عمل کا جس سے اللہ راضی ہوجائے ۔ اب اس قول و عمل کی صحیح طور پر ادائیگی اس لیے ضروری ہے، تاکہ عنداللہ مقبول ہوسکے ، اس کے لیے ہمیں شارع کی طرف سے دیے گئے احکام کا جاننا ضروری ہے، جواحکام امر و نہی یعنی کرنے اور نہ کرنے پر مشتمل ہیں جن کا تفصیلی علم انبیاء علیہم السلام یا ان کے وارثین کو ہوتا ہے۔

اب جو لوگ اس علم کو سیکھتے اور سکھاتے ہیں، اس کے حصول میں اپنی زندگی کا بیشتر حصہ صرف کرتے ہیں انہیں ہم عالم دین یا علمائے اسلام کے نام سے جانتے اور پہچانتے ہیں اور یہی لو گ ہماری گفتگو کا موضوع ہیں۔ ختم نبوت کے بعد اللہ کے احکام کو کھول کھول کر بیان کرنے کی ذمہ داری جن کندھوں پر آ پڑی ہے و ہ یہی علماء ہیں، جن کا مشغلہ قرآن و حدیث ، فقہ وتفسیراور امت کو درپیش مسائل کا حل قرآن وسنت کی روشنی میں پیش کرنا ہے۔  قرآن کریم اللہ کی کتاب ہے ، اس لیے اللہ کو پہچاننے کے لیے اس سے بہترین ذریعہ اور کچھ نہیں ہوسکتا ،مختلف انداز میں اور مختلف نشانیاں بیان کر کے قرآن اللہ کی ذات و صفات اور قدرت کاملہ کا تعارف کراتا ہے ، لہٰذا اس کتاب کا جتنا زیادہ مطالعہ کیاجائے اتنی ہی اللہ کی معرفت حاصل ہوگی اور اللہ کی جتنی زیادہ معرفت حاصل ہوگی اتنا ہی بندہ اللہ سے ڈرے گا۔ اس کتاب کا پڑھنا اور پڑھاناعلمائے کرام کا خاص مشغلہ ہے\ جس کی وجہ سے یہ اللہ کے بندوں میں اللہ سے سب سے زیادہ ڈرتے ہیں ، خود اللہ تعالیٰ اس کی گواہی دیتا ہے: ﴿إنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ العُلَمَاءُ ﴾(سورة الفاطر: 28) حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے ہی اللہ سے ڈرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں اللہ نے کئی مقامات پر ان کو تحفہٴ قدرو منزلت سے نوازا ہے، بنی آدم میں ایک اعلیٰ مقام عطا فرمایا ہے ، حتیٰ کہ اللہ نے جب اپنی شان وحدانیت( کلمہ توحید) کے لیے گواہ بنانا چاہا تو جہاں گواہی کے لیے اپنی ذات کا انتخاب فرمایا وہیں فرشتوں اور بنی نوع انسان میں سے صرف علماء کو گواہی کے لیے منتخب کیا، جویقیناً انتہائی شرف و فضل کی بات ہے ﴿شَہِدَ اللّٰہُ أَنَّہُ لا إلٰہَ إلاہُوَ وَالْمَلٰئِکَةُ وَأُولُوا العِلْمِ قَائِماً بِالقِسْطِ، لاإلٰہَ إلا ھُوَالعَزِیْزُ الْحَکِیْم﴾ (سورةآل عمران:18) اللہ نے خود شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی اللہ نہیں ،یہی شہادت فرشتوں اور سب اہل علم نے دی ہے ،وہ انصاف پہ قائم ہے ، اس زبردست حکیم کے سوا فی الواقع کوئی اللہ نہیں ہے۔

اللہ نے عالم اور غیر عالم کے درمیان برابری کو یکسر مسترد کردیاہے ، سورة الزمر آیت ۹ میں اللہ ارشاد فرماتاہے: ﴿قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الذِینَ یَعْلَمُوْنَ وَالذِیْنَ لایَعْلَمُونَ، إنَّمَا یَتَذَکَّرُ أُولُوْا الألْبَاب﴾اے نبی! کہہ دیجیے کہ کیا جوعلم رکھتے ہیں اور جو علم نہیں رکھتے دونوں برابر ہیں؟ بلا شک عقل وفہم والے ہی نصیحت پکڑتے ہیں ،یعنی جن لوگوں کو اللہ کی معرفت حاصل ہے اور جو شرعی احکام سے اچھی طرح واقف ہیں وہ اور جن کو ان سب چیزوں کا علم نہیں دونوں برابر کیسے ہوسکتے ہیں ؟ ہر گز نہیں ہوسکتے۔ ایک جگہ فرماتاہے کہ علماء ہی اصحاب عقل ودانش ہیں اور جو مثالیں قرآن کریم میں بیان کی جاتی ہیں، ان کو یہی لوگ سمجھتے ہیں۔ دیکھیے سورة العنکبوت آیت نمبر 43﴿وَتِلْکَ الأمْثَالُ نَضْرِبُھَا لِلنَّاسِ وَمَا یَعْقِلُھَا إلا العَالِمُون﴾ یہ مثالیں ہیں جسے ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں جس کو صرف علم والے ہی سمجھتے ہیں۔,  علم والوں کا علم جیسے جیسے ترقی کرتاہے خشیت الٰہی ویسے ویسے بڑھتی جاتی ہے ، غیر اللہ کا خوف جاتا رہتا ہے ، اللہ سے قربت و محبت میں اضافہ ہوتا ہے ، فانی دنیا سے لگاوٴ کم ہوجاتا ہے ، اخروی شوق دنیوی خواہشات پہ غالب آتا ہے ، نتیجتاً ان کے ایمان میں جلا پیدا ہوتاہے، جو کثرت ِعبادت وریاضت کا سبب بنتا ہے، جس کی وجہ سے اللہ ان کے درجات بلند فرماتا ہے ، دیکھیے سورة المجادلة آیت 11 ﴿یَرْفَعِ اللّٰہُ الذِینَ آمَنُوا مِنْکُم وَالذِینَ أُوتُوا العِلْمَ دَرَجَات﴾ جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور جن کو علم بخشا گیا اللہ ان کو بلنددرجے عطا فرمائے گا۔

ان علمائے کرام کے مقام ومرتبہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے دین اسلام کو آپ صلی الله علیہ وسلم کے عہد سے سینہ بسینہ محفوظ کرکے ہم تک پہنچایا، جان ومال تک کی پرواہ نہیں کی ، لذتِ عیش کو خیرباد کہا ، راتوں کو بیداری میں گذارا ، سفر کی مشقتوں کو برداشت کیا، تاکہ خاتم الرسل محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم کی بات صحیح سالم ہم تک پہنچ سکے ۔ آج بھی علمائے کرام اسی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں کہ دین اسلام کا جو درخت آپ صلی الله علیہ وسلم چھو ڑ کر گئے ہیں وہ ترو تازہ باقی رہے۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ایسے لوگوں کے لیے دعائیں فرما گئے ہیں، چناں چہ فرمایا: ”نَضَّرَاللّٰہُ اِمْرء اً سَمِعَ مِنَّا حَدِیثاً فَحَفِظَہ حَتی یُبَلِّغَہ غَیْرَہ“ (سنن ترمذی) ا للہ اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے میری کوئی بات سنی اور محفوظ کرلی، پھر اس کو دوسروں تک پہنچادیا۔ M علمائے کرام کی خاصیت یہ ہے کہ وہ دین اسلام پر استقامت کے ساتھ عمل پیرا ہوتے ہیں ، حق بات کہنے میں تأمل سے کام نہیں لیتے ، شرعی مسائل کی وضاحت میں کسی ملامت کو خاطر میں نہیں لاتے ، قرآنی آیات اور اقوال رسول صلی الله علیہ وسلم کوباطل کی ملمع سازی ، جاہل کی بیجا تاویل اورغلو پسند حضرات کی تحریف سے بچاتے ہیں ، ان کی ان حرکتوں کو بلا خوف وخطر لوگوں کے سامنے لاکر ان کے ناپاک عزائم کا قلع قمع کرتے ہیں۔

ان کی صفات میں تواضع ، انکساری ، عوام الناس سے محبت اور ان کی دنیوی و اخروی خیرخواہی ہے ، عوام الناس کو خیر کی طرف بار بار دعوت اور لوگوں کی طرف سے اس سلسلے میں بیجا اور انتہائی غیر مناسب تنقید ان کے حلیم وبردبارہونے کی بین نشانی ہے ، یہ لوگ اللہ کے ان بندوں میں سے ہیں جو زمین پر انتہائی نرمی سے چلتے ہیں ، علم نہ رکھنے والوں سے الجھتے نہیں ہیں ،رات قیام و سجود میں گذارتے اور دن درس تدریس میں صرف کرتے ہیں ، فضول خرچی اور بخل دونوں سے الگ ہوکر درمیانی راستہ اختیار کرتے ہیں ، ناحق کسی کا قتل نہیں کرتے ہیں ، انہیں صرف اخروی غم لاحق ہوتاہے ، جہنم کے عذاب سے ڈرتے ہیں اور اللہ سے پناہ مانگتے ہیں، اللہ نے ان کے ساتھ خیر کا ارادہ کیا تو انہیں علماء و فقہا بنا دیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”مَنْ یُرِدِ اللّٰہُ بِہ خَیراً یُفَقِّہْہُ فِی الدِّینِ“․ اللہ جس کے ساتھ خیر کامعاملہ فرماتا ہے اس کو دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم) اللہ تعالیٰ کی نظر میں سب سے بہترین گفتگو وہ ہوتی ہے جو دین ودعوت پر مبنی ہو ۔ علمائے کرام کی پوری زندگی دین ودعوت کے ارد گرد گھومتی ہے ، امامت وخطابت،دعوت و تبلیغ ، تعلیم و تدریس ، پندو نصیحت ، وعظ و ترغیب سب کا مقصد اللہ کے بندوں کو اللہ سے قریب کرنا ہے ، لہٰذا ان کی بات سب سے قیمتی اور عنداللہ محبوب ہوتی ہے ، سورة فصلت آیت 33 میں اللہ فرماتاہے: ﴿وَمَنْ أَحْسَنُ قَولاً مِمَّنْ دَعَا إلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحاً وَقَالَ إنَّنِی مِنَ المُسْلِمِیْن﴾․ اس شخص سے بہتر کس کی بات ہوسکتی ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک کام کرے اور کہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں۔

ہم سب پر لازم ہے کہ علمائے کرام کا احترام کریں ، انھیں ان کا مقام دیں ، ان پر طعن و تشنیع نہ کریں ، ان کی عزت سے نہ کھیلیں ، اگر کوئی غلطی سرزد ہوتو ان کے لیے ہدایت کی دعا کریں۔ حضرت عبادہ بن صامت  سے مروی ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”لَیسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یُجِلَّ کَبِیْرَنَا، وَلَمْ یَرْحَمْ صَغِیْرَنَا، وَلَمْ یَعْرِف لِعَالِمِنَا حَقَّہ“ وہ شخص ہم میں سے نہیں جو بڑوں کو بڑا نہ سمجھے ، چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور عالموں کے حق کو نہ پہچانے۔ اس حدیث کو حافظ منذری رحمة اللہ علیہ نے الترغیب والترہیب میں اور شیخ البانی رحمة اللہ علیہ نے صحیح الجامع میں نقل کیا ہے۔ علمائے کرام شعائر اسلام میں ایک شعار کی حیثیت رکھتے ہیں ، لہٰذا ان کا احترام اسلام کا احترام ہے ، ان کی تعظیم تقویٰ کی علامت ہے ﴿وَمَن یُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللّٰہِ فَإنَّہَا مِنْ تَقْوَی القُلُوب﴾ (سورة الحج: 32) اور جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر کا احترام کرے یہ اس کے دل کی پرہیزگاری کی وجہ سے ہے۔

امام طحاوی رحمةاللہ علیہ کی مشہور کتاب ”العقیدة الطحاویة“ اسلامی عقائد پر ایک اہم کتاب مانی جاتی ہے اور صرف بر صغیر ہی نہیں، بلکہ عرب ممالک کی بہت ساری یونیورسٹیوں میں داخل نصاب ہے ، اس کتاب کی شرح میں علامہ ابن ابی العز الحنفی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اللہ اور رسول سے محبت و الفت کے بعد تمام مسلمانوں سے محبت و الفت رکھے، جیساکہ قرآن کریم نے اس کی صراحت کی ہے ، خاص طور پر ان لوگوں سے جو انبیاء کے وارث ہیں، جنہیں اللہ نے ستاروں کے مانند بنایا ہے، جن سے بروبحر کی تاریکیوں میں راہ نمائی حاصل کی جاتی ہے ، تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ وہی اہل رشد و ہدایت ہیں اور وہی امت میں نائبین رسول کی حیثیت رکھتے ہیں اور وہی لوگ دم توڑتی سنتوں کو زندہ کرتے ہیں۔“ (شرح العقیدة الطحاویة) علمائے کرام کی صحبت ، ان سے تعلق خاطر ہماری دینی و دنیاوی زندگی کے لیے مفید ہے ، ان کی معیت سے علم زیادہ ہوتاہے ، آداب و اخلاق سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ حضرت ابو الدرداء رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ آدمی کے سمجھ دار ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ اس کا چلنا پھرنا،آنا جانا اہل علم کے ساتھ ہو۔ امام محمد بن الحسن الشیبانی  حضرت امام ابو حنیفہ  سے ان کا قول نقل کرتے ہیں کہ امام صاحب کہتے تھے: ”علماء کی باتیں سننا اور ان کے ساتھ بیٹھنا میرے لیے بہت سارے فقہی مسائل سے زیادہ محبوب ہے ، کیوں کہ یہ لوگ آداب و اخلاق کے پیکر ہیں۔“ (جامع بیان العلم واہلہ) حضرت ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ ہم حضرت مسروق کے پاس آتے اور ان سے رشد و ہدایت کی باتیں سنتے تھے۔ (جامع بیان العلم واہلہ) ان علمائے کرام کے پاس نبوت کا نور ہے، جو چاہے اس سے فائدہ اٹھائے ، اگر یہ نور منقطع ہوگیا تو لوگ بدعت و خرافات اور فسق و فجور کی تاریکیوں میں گر پڑیں گے۔ حافظ ابن رجب حنبلی  فرماتے ہیں کہ اگر کوئی راہ نوردِ علم ہے تو اس کی سلامتی اسی میں ہے کہ وہ کسی ایسے اہل علم کو پکڑ لے جس کی ہدایت و درایت متفق علیہ ہو، جیسے امام شافعی ، امام احمد ، اسحاق اور ابوعبید یا اس طرح کے دوسرے لوگ۔ جو شخص ان کے طریقوں سے الگ جائے گاوہ ہلاکت میں پڑجائے گا ،اس طور پر کہ جو نہیں کرنا ہے وہ کرے گا اور جس کا کرنا ضروری ہے وہ ترک کردے گا۔ (جامع العلوم والحکم)

اب ہم صحابہ وتابعین کے کچھ حالات ذکر کرتے ہیں جس سے معلوم ہوجائے گا کہ یہ لوگ علم والوں کو کتنی فوقیت دیتے تھے اور ان کاکتنا احترام کرتے تھے: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی جب مکہ مکرمہ تشریف لے جاتے ہیں تو لوگ مسائل کے لیے ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ، فرماتے ہیں کہ اے مکہ والو! تم مسائل مجھ سے پوچھتے ہو، جب کہ تم میں ابن ابی رباح موجود ہیں یعنی عطا بن ابی رباح۔ حضرت عطاء بن ابی رباح  کاشمار مشائخ تابعین میں ہوتا ہے ، مکہ میں منصب ِافتاء پر فائز تھے۔ دیکھیے حضرت عبد للہ ابن عمررضی اللہ عنہ کا ایک عالم کے لیے اتنا احترام کہ اس کے دیار میں مسائل بتلا نے سے گریز کررہے ہیں، جب کہ خود صحابی ٴ رسول ہیں اور علم میں بڑے بڑے صحابہ کے ہم پلہ ہیں۔ حضرت امام احمد بن حنبل کے لخت جگر نے ایک بار سوال کیا کہ اے ابا جان! یہ شافعی کون شخص ہے ؟ میں دیکھتا ہوں کہ آپ اس کے لیے بہت دعائیں کرتے ہیں ، فرمانے لگے : اے میرے بیٹے! شافعی دنیا کے لیے سورج اور لوگوں کے لیے عافیت ہیں ، یعنی نورِ علم سے دنیا کو روشن کرتے ہیں اور جہالت جیسے مرض کی دوا دیتے ہیں ۔ یہی وہ امام احمد بن حنبل ہیں جنھوں نے علی بن المدینی کے علم کی وجہ سے انھیں کبھی نام سے نہیں پکارا ، ہمیشہ کنیت سے پکارتے تھے۔ حضرت ابراہیم نخعی بلند پایہ عالم اور محدث بھی ہیں ، جب حضرت شعبی کے ساتھ اکٹھا ہوتے تو ان کی عمر کا لحاظ کرتے ہوئے زبان نہیں کھولتے تھے۔ آج ہمارے اس زمانے میں علمائے کرام کا احترام مفقود ہے ، ہر شخص، جب چاہتاہے، جس کو چاہتاہے، کلماتِ لعن وطعن سے نواز دیتا ہے ، جب کہ یہ بات ہر وقت مستحضر رہنی چاہیے کہ وہ بھی ہماری طرح انسان ہیں اور بشریت کے تقاضے ان سے بھی منسلک ہیں ، غلطی ہر بنی آدم سے ہوتی ہے ، اس بات کی تائید صحیح حدیث سے ہوتی ہے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”کُلُّ بَنِی آدمَ خَطَّاء، وَخَیْرُ الْخَطَّائِیْنَ التَّوَّابُون“ ہر انسان غلطی کرتاہے اور بہترین غلطی کرنے والا وہ ہے جو توبہ کرے۔ اس حدیث کو امام حاکمنے صحیح قرار دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ توبہ واستغفار اور انابت الی اللہ علمائے کرام کا شیوہ ہے ، نالہ ٴ نیم شبی اور آہِ سحرگاہی توشہٴ زندگی ہے ، اس لیے وہ حدیث کی رو سے بہترین لوگ ہیں۔

اب ہم یہاں ان امور کا جائزہ لیتے ہیں جن کی وجہ سے علمائے کرام کی شان میں کوتاہیاں اور ان کے حقوق میں کمیاں واقع ہورہی ہیں۔ سب سے پہلی اور بڑی وجہ شرعی علوم کی حقیقت و اہمیت اوراس کے حاملین کے مقام ومرتبہ سے ناواقفیت ہے ، جب کہ کائنات کے خالق نے اس علم کا سیکھنا فرض قرار دیا ہے اور علماء کو انبیاء ورسل کا وارث بنایا ہے۔ دوسری وجہ نام نہاد دانش مند و ں کا بلاواسطہ کتابوں کو استاذ بنالینا ہے اور علماء کی طرف مراجعت کو یکسر نظرانداز کرنا ہے ، جب کہ قرآن وحدیث میں وارد احکام کو سمجھنے کے لیے عقل و دانش کے علاوہ ان علماء و فقہاء کی ضرورت ہے جنہوں نے قرآن و حدیث کو سمجھنے کے لیے وہ سارے علوم حاصل کیے ہیں جن کا جاننا ضروری ہے ، مثلاً نحو و صرف ، لغت ، بلاغت،  اصول تفسیر ، اصول حدیث ، اصول فقہ ، سیرت ، تاریخ ، علم اسناد حدیث اور اسماء الرجال وغیرہ ، اسی وجہ سے امام شافعی  نے فرمایا کہ جو شخص کتابوں کی ورق گردانی سے علم حاصل کرے گا وہ اللہ کے دیے گئے احکامات کو ضائع کردے گا۔(آداب العلماء والمتعلمین) تیسری وجہ تحصیل علم شرعی کی ایک خاص حد تک پہنچنے سے پہلے حاملین علم شرعی کا فتوے اور دینی مسائل کی دنیا میں آجانا ہے ،جب کہ وہ خود بھی ﴿فَاسْئَلوا أَہلَ الذِّکْرِ إن کُنْتُمْ لا تَعْلَمُون﴾ (سورة الأنبیاء:7) کے مخاطب ہیں اور ابوداودو ابن ماجہ کی حدیث ”إنَّمَا شِفَاءُ العَی السُوٴال“ ان کے لیے بھی وارد ہوئی ہے۔ چوتھی وجہ حقیقی عالم کے وجود کی قلت ہے اور یہ پورے عالم کے لیے لمحہٴ فکریہ ہے ، کیوں کہ حدیث میں آیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اس دنیا سے علم اٹھانا چاہیں گے تویکایک نہیں اٹھائیں گے، بلکہ دھیرے دھیرے علمائے کرام کو اٹھائیں گے، جس کی وجہ سے علم خود بخود اٹھ جائے گا ، نوبت یہاں تک پہنچے گی کہ کوئی عالم باقی نہیں رہے گا اور معاملہ جاہلوں کے ہاتھ میں آجائے گا ، ان سے دینی مسائل پوچھے جائیں گے اور وہ اپنی رائے سے مسائل بتائیں گے ، نتیجتاً خود بھی گم راہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گم راہ کریں گے۔

پانچویں وجہ دشمنانِ اسلام کا مختلف وسائل و ذارئع سے علمائے کرام کے خلاف پروپیگنڈا کرنا ہے، تاکہ شرعی علوم کے سوتے خشک ہوجائیں ، عوام و خواص کا ان سے رابطہ کم ہوجائے اور دین اسلام بجائے پھلنے پھولنے اور پھیلنے کے موسم خزاں کا شکار ہوجائے ۔ آئیے عہد کریں کہ طاغوتی طاقتوں اور ان سے متاثرہ نام نہاد اہل فکرو دانش کی علماء مخالف تحریر و ں اور بیانات کو یکسر نظر انداز کرکے اللہ اور رسول کے متعین کردہ مقام و مرتبہ کو علمائے کرام کے سر کا تاج بنائیں گے اور اللہ اور رسول سے محبت و الفت کے ساتھ عمومی طور پر تمام مسلمانوں سے اور خصوصی طور پر علمائے کرام سے محبت و الفت رکھیں گے ، واللہ الموفق