عورت اسلام سے پہلے اوربعد

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 02-September 2020

عورت ایک انتہائی خوبصورت اورخوش رنگ پھول ہے،نسوانیت کاجوہر اس کی خوشبو ہے ۔یہ جوہرعورت کی عصمت وعفت کاتصور ہے ۔جب یہ بھینی بھینی عطر بیز خوشبو گلزار ہستی میں پھیلتی ہے تواسے رشک فردوس بنادیتی ہے،ہرشخص کی زندگی دامن گل فروش بن جاتی ہے، اسی خوشبو کااعجازہے کہ مختلف قبیلے ،ذاتیں قومیں ،اورانسانی گروہ معرض وجود میںآتے ہیں۔ یہ تاریخ کاالمیہ ہے کہ عورت ہمیشہ افراط وتفریط کے المناک عذاب میں مبتلا رہی ہے۔عورت ہردور میںکسی نہ کسی وجہ سے موضوع بحث رہی ہے مختلف سوچ اورفکر رکھنے والے مختلف طریقوں سے عورتوں پربحث وتمحیص میں مشغول دکھائی دیتے ہیں۔ تاریخی کتابوں کے مطالعے سے پتہ چلتاہے کہ گزشتہ زمانے میں عورت کاشمار مال و منال میں ہواکرتاتھا،اس کا سودا کسی مال یا حیوان ہی کی طرح ہوتاتھا۔ ظہوراسلام سے قبل معاشرہ انسانی میںعورت کوکوئی مقام حاصل نہ تھا ۔عورت دنیا میںسب کے لئے غم کاسبب تھی، یہ بس دنیا میں جہنم کاقصر سمجھی جاتی تھی۔قبل اسلام اس دنیامیںعورت کی کوئی قدر نہ تھی لوگ اسے نفرت کی نگاہوںسے دیکھتے تھے۔ گلشن نسواں میںکوئی کلی کھلنے نہ پاتی تھی اوراگر کھلنابھی چاہتی تووحشی اسے روندکرپھینک دیاکرتے تھے۔گلشن نسواں کی ایک پتّی وحشیوں کے ظلم کاشکارہوجاتی جس سے گلشن نسواں میںہمیشہ خزاں رہتی تھی۔

عورت کے سلسلے میںبہت سے مفکروںنے مختلف خیالات کااظہارکیاہے……یونان کی تہذیب قدیم کاکہناتھاکہ:-’’عورت گناہوںکی بلاخیزنسیم ہے۔اس کی ہر ایک ادا میں مکروفریب کی تعلیم کے ساتھ اس کی رگ رگ میںخونشیطان لئیم ہے۔عورت دنیامیں شیطان کانمائندہ ہے۔یہ غارت گرانسان ہے۔آگ سے جل جانے اور سانپ کے ڈسے جانے کاعلاج ممکن ہے ،لیکن عورت کے شرکاعلاج محال ہے۔‘‘سقراط نے کہاکہ:-’’عورت فتنہ کی بنیادہے اس کی ہرسانوں کی لہر سے فتنہ کی صدانکلتی ہے اس کی آنکھوںنے فتنہ کی وبابرستی ہے بلکہ یہ سمجھوکی فتنہ اس کے لئے اوروہ فتنہ کیلئے ہے ۔عورت نہ ہوتی تو زمانے میںفتنہ ہی نہ ہوتا اورگوشے گوشے میںامن وامان کاپرچم بلندرہتا۔عورت سے زیادہ فتنہ وفساد کی چیزدنیامیںکوئی نہیںہے،وہ ایک ایسادرخت ہے کہ بظاہر انتہائی خوبصورت اورخوش نمانظرآتاہے ،لیکن جب کوئی اسے کھاتاہے تومرجاتاہے۔‘‘ افلاطون کاقول ہے کہ:-

’’دنیامیں جتنے ظالم اورذلیل مردہوتے ہیںوہ سب نتائج کی دنیامیںعورت بن جاتے ہیں۔‘‘

مقدس قدس برنار کہتاہے کہ:-عورت شیطان کا آلۂ کار ہے۔‘‘

یحنا دمشقی کہتاہے کہ:-عورت مکرکی بیٹی ہے اورامن وسلامتی کی دشمن ہے۔‘‘

مونٹسکوکہتاہے کہ:-’’فطرت نے مردکو طاقت دی ہے اورعقل وخرد سے نوازاہے،لیکن عورت کوصرف زینت اورخوشنمائی دی ہے۔‘‘

اہل روما نے کہا کہ :-عورت ایک زندہ لاشہ ہے۔یہ جسم تمدن میں ایک پھوڑا ہے جس کاعلاج بس نشتر موت ممکن نہیں۔‘‘

اہل روما عورت کوانسان سمجھتے ہی نہیںتھے ۔ان کی نگاہوںمیںعورت کی جان کی کوئی قیمت نہ تھی۔

اہل یورپ!عورت کوہمیشہ قہرکی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔وہ عورت کوحیوان نجس کہتے تھے ۔ان کاقانون تھاکہ عورت انجیل سے دور رہے ۔ان کی نظرمیںعورت سگ وخنزیرسے بدترتھی اورمردوں کے برابر چل نہیںسکتی تھی۔

فلسفی کہتے تھے کہ :-’’عورت بھی بلائے مرغوب ہے جس میں مکرہی مکرہے ۔یہ زہرشیریں ہے۔‘‘

بام کلیسا سے یہ اعلان عام ہوتاتھاکہ :- ’’عورت برائیوں کادوسرا نام نام ہے اس کی ذات گناہوں کامجسم پیغام ہے،یہ مردوں کے لئے وجہ ضلالت ہے۔عورت ہوس انسانی کاایک آلہ ہے۔‘‘ ان خیالات سے اندازہ ہوتاہے کہ ان میںسے ہرشخص نے اپنے ذاتی تجربات اور مشاہدات کے تحت عورت کے بارے میںاپنی اچھی بری رائے قائم کی ۔زندگی میں ہرشخص کے ذاتی تجربات اورمشاہدات مختلف ہوسکتے ہیں،چنانچہ ہرایک نے اپنے دل کی بھڑاس نکالی ہے ،چونکہ بڑے لوگ تھے اس لئے ان کی باتوںکوضرب المثال کادرجہ حاصل ہوگیا،جنھیںآج تک عورت کے خلاف استعمال کیاجاتاہے،حالانکہ یہ تمام باتیں اس طرز فکر کی ترجمانی کرتی ہیں،جن کاضمیر بھی افراط وتفریط سے اٹھایاگیاتھا۔ان اقوال سے معلوم ہوتاہے کہ کسی نے عورت کوسمجھنے کی کوشش ہی نہیںکی۔صرف ان کی صفاتی کمزوریوںاورخرابیوں کوضرب المثال کادرجہ دے دیا۔ ہندوستان کے قصرجہالت میںعورتوں پرجوظلم ہوتاتھا وہ ستی کادستور تھایعنی جب شوہر مرجاتاتھاخواہ وہ زندگی کے کسی حصے میں ہوتا اورعوت بھی خواہ شباب کی گود میںہوتی یابڑھاپے سے بغل گیر یاابھی گہوارہ بچپن میںاس کو شوہرکی میت کے ساتھ جب کہ وہ نذر آتش کی جاتی تھی تواس آگ کے بھڑکتے ہوئے شعلوںمیںخود بھی کودکر اپنی زندگی کوختم کرناہوتااوراگروہ یہ کام نہ کرتی تواس کے زندہ رہنے کوایک خاندانی عیب اورنحوست خیال کیاجاتا۔

کہیںکہاگیاکہ!عورت نقص خلقت ہے اورکہیںاسے طوفان و جہنم سے بدتر ماناگیا۔مگرسب سے بدترملک عرب کادستورتھا کہ جہاں شیشۂ ہستی نسواں چکناچور تھا۔عورت مردوںکے حضورمثل لونڈی کے رہاکرتی تھی،ملکیت اوروراثت سے محروم تھی اوراکثر اسے زندگی سے ہاتھ دھوناپڑتا تھا۔ اسے زندہ درگور کردیاجاتاتھا ۔اس سے بہتر تو جنگلی جانور اورچرندپرندتھے۔عالم ایجاد میںعورت کاآناتھا کہ جذبۂ تحقیر نے انگڑائی لینا شروع کی اگر کہیںاس کوجگہ ملی توآغوش لحد میںاوراگرکہیںامان میںرہی تواس کونفرت کی فضامیںجیناپڑا۔عرب زعم تفوق کے نشہ میں شرسار تھے صنف نازک کاوجود ان کی نگاہوںمیںخارتھا مگرعورت ذات کی زندگی جینے پرمجبورتھی ۔ذہن صانع میںشمع شبستان حیات توتھی مگراس کے لئے دامن حیات تنگ تھا۔غرضکہ عورت ہرجگہ قبل از اسلام ہوس رانی کے لئے استعمال ہورہی تھی یہ حالات تھے کہ مکہ کے افق پررسالت کاآفتاب نمو کی برکت سے وقار نسواں پوری دنیاپہ عیاں ہوگیا۔حضرت محمدمصطفیٰ نے عورت کوحیات کے ام عروج پرپہنچادیا۔باپ کوبیٹی کے زندہ رکھنے کادرس دیا اورغیرکو داماد بنانا بخت فخراورخاندان کی عزت قراردیا۔شوہر کے مرنے کے بعد عورت کواس کاوارث اوربچوں کونگراں بناکر ان الفاظ کی جھلک کے ساتھ کہ ’’ماںکے پاؤںکے نیچے بہشت ہے۔‘‘اولادکی منزل ارتقا طے کرنے کاذریعہ ماں کوبنایا۔وہر کے ساتھ جل مرنے سے جان بچائی گھرکی چہاردیواری میںبیوہ رہ کربیٹھنے کانام خاندانی شرافت رکھا اورنکاح ثانی کرنے کاحکم دے کر عورت کی اس دوبارہ ازدواجی زندگی کومعاشرہ کی عزت کاچاند قراردیا ۔غرض کہ اس معاشرہ انسانی میںذلیل مخلوق کوعزت دوام بخشی اورحیات انسانی کاجزو لازم قرار دے کر مردوں کے برابر حقوق کی دولت سے مالامال کردیااورعورت کونفسانی ہوس کاشکار ہونے سے روکنے کی خاطر پردہ کاحکم دیا۔رفتہ رفتہ کارواں راہ پرچلنے لگا مگرپھرضرورت ہوئی کہ جب کارواںہے تو کارواں سالاربھی ہو۔مردوں کیلئے رسولؐ نمونہ بن کر آ ہی چکے تھے،اب ضرورت تھی کہ عورت کوبھی کوئی ہم جنس پیمبرمل جائے۔آخر کارچرخ نسواں پہ مہر منور نمودار ہوافضل خالق سے پیمبر کوآیہ تطہیر کی سندملی ۔حضرت فاطمہ زہرا نے عورتوں کوپستی سے نکال کر بلندی کے اس مقام پرجگہ دلائی جہاں عورت کوصنف نازک کہاجانے لگا۔میںاس بی بی سیدہ فاطمہ زہراکی مختصر سوانح حیات لکھ رہاہوں تاکہ یہ سمجھا جاسکے کہ ایک مثالی مسلمان خاتون کوکیساہوناچاہیئے۔زمانہ بہت نازک چل رہاہے۔لیکن آپ کوزمانے کے مکروفریب سے بچنا ہوگا تاکہ آپ کی گوداسلامی تعلیم کا گہوارہ ہو اور نونہالان قوم کے لئے درس عصمت بنی رہو۔حیات اہلبیت کامطالعہ کتب سے کرو،جس کا مطالعہ تم کوبتائے گا کہ اہلبیت نے پردہ کا کیا حکم دیااور کیسے عمل کرکے دکھایا۔میں دعاکرتاہوں کہ خداوند کریم میرے ان ٹوٹے پھوٹے الفاظ کودختران قوم کے لئے اس دور میں مستقل ہدایت کاکام دے اورہم سب دخترانِ ملت جعفریہ کاپردہ بتصدیق فاطمہ ودختران فاطمہ قائم اورمحفوظ رکھے۔آمین۔

٭٭٭