نماز کے آداب

Taasir Urdu News Network | Uploaded  on 10-September-2020

 نماز کیلئے طہارت اور پاکی کا پورا پورا خیال رکھیے۔ وضو کریں تو مسواک کا بھی اہتمام کیجیے نبی اکرم ﷺ نے فر مایا: ’’قیامت میں میری امت کی علامت یہ ہوگی کہ ان کی پیشانی اور اعضائے وضو نور سے چمک رہے ہوں گے۔ پس جو شخص اپنے اپنے نور کو بڑھانا چاہے بڑھائے۔‘‘

 صاف ستھرے، سنجیدہ، مہذب اور سلیقے کے کپڑے پہن کر نما ز ادا کیجیے۔ قرآن مجید میں ہے:یٰبَنِیْ اٰدَمَ خُذُوْ ا زِ یْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِ مَسْجِدٍ(الاعراف:۳۱ )’’ اے آدم کے بیٹو! ہر نماز کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ ہو جایا کرو۔‘‘

 وقت کی پابندی سے نماز ادا کیجیے۔اِنَّ ا لصَّلٰوۃَ کاَنَتْ عَلَی الْمُوءْ مِنِیْنَ کِتَابًا مَّوْقُوْتًا۔(انساء:۱۰۳ )’’ مومنوں پر وقت کی پابندی سے نماز فرض کی گئی ہے۔‘‘ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے ایک بار نبی اکرم ﷺ سے پوچھا، یا رسول اللہ! خدا کے نزدیک کون سا عمل سب سے زیادہ محبوب ہے، آپؐ نے فر مایا:’’ نماز کو اس کے وقت پر ادا کر نا۔‘‘ اور نبیؐ نے یہ بھی فر مایا:’’ اللہ نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں، جس شخص نے ان نمازوں کو ان کے مقررہ وقت پر اچھی طرح وضو کر کے خشوع خضوع سے ادا کیا تو اللہ پر اس کا یہ حق ہے کہ وہ اس کو بخش دے اور جس نے ان نمازوں میں کوتاہی کی تو اللہ پر اس کی مغفرت و نجات کی کوئی ذمے داری نہیں، چاہے تو عذاب دے اور چاہے تو بخش دے۔‘‘(مالک)

نماز ہمیشہ جماعت سے پڑھیے۔ اگر کبھی جماعت نہ ملے تب بھی فرض نماز مسجد ہی میں پڑھنے کی کوشش کیجیے، البتہ سنتیں گھر پر پڑھنا بھی اچھا ہے۔نبی اکرمﷺ کا ارشاد ہے، جو شخص چالیس دن تک تکبیر اولیٰ کے ساتھ نماز با جماعت پڑھے دوزخ اور نفاق دو نوں سے محفوظ کر دیا جاتا ہے(تر مذی) اور نبیؐ نے یہ بھی فر مایا:’’ اگر لوگوں کو نماز با جماعت کا اجر و ثواب معلوم ہو جائے تو وہ ہزار مجبوریوں کے با وجود بھی جماعت کیلئے دوڑ دوڑ کر آئیں۔ جماعت کی پہلی صف ایسی ہے، جیسے فرشتوں کی صف۔ تنہا نماز پڑھنے سے دو آدمیوں کی جماعت بہتر ہے پھر جتنے آدمی زیادہ ہوں اتنی ہی یہ جماعت اللہ کو زیادہ محبوب ہوتی ہے۔‘‘(ابو دائود)

نماز سکون کے ساتھ پڑھیے اور رکوع و سجود اطمنان کے ساتھ ادا کیجیے۔ رکوع سے اٹھنے کے بعد اطمنان کے ساتھ سیدھے کھڑے ہو جائیے۔ پھر سجدے میں جائیے۔ اسی طرح دو نوں سجدوں کے درمیان یہ دعا بھی پڑھ لیا کیجیے۔اَللّٰہُمَّ ا غْفِرْ لِیْ وَ ارْ حَمْنِیْ وَ اہْدِنِیْ وَ اجْبُرْ نِیْ وَ عَافِنِیْ وَ ارْزُقْنِیْ(ابو دائود)’’خدایا! تو میری مغفرت فر ما، مجھ پر رحم کر۔ مجھے سیدھی راہ پر چلا۔ میری شکستہ حالی دور فر ما۔ مجھے سلامتی دے اور مجھے روزی عطا کر۔‘‘ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ’’ جو شخص نماز کو اچھی طرح ادا کرتا ہے۔ نماز اس کو دعائیں دیتی ہے کہ خدا اسی طرح تیری بھی حفاظت کرے، جس طرح تو نے میری حفاظت کی۔‘‘ اور نبیؐ نے یہ بھی فر مایا: بد ترین چوری نماز کی چوری ہے۔ لوگوں نے پوچھا، یا رسول اللہؐ! نماز میں کوئی چوری کیسے کرتا ہے؟ فرمایا: رکوع اور سجدے ادھورے ادھورے کر کے۔

 اذان کی آواز سنتے ہی نماز کی تیاری شروع کر دیجیے اور وضو کر کے پہلے سے مسجد میں پہنچ جائیے اور خا موشی کے ساتھ صف میں بیٹھ کر جماعت کا انتظار کیجیے۔ اذان سننے کے بعد سستی اور تاخیر کرنا اور کسمساتے ہوئے نماز کیلئے جانا منافقوں کی علامت ہے۔

اذان بھی ذوق و شوق سے پڑھا کیجیے۔ نبیؐسے ایک شخص نے پوچھا یا رسول اللہؐ! مجھے کوئی ایسا کام بتا دیجیے، جو مجھے جنت میں لے جائے۔ آپؐ نے فر مایا’’ نماز کیلئے اذان دیا کرو۔‘‘آپؐ نے یہ بھی فرمایا’’ موذّن کی آواز جہاں تک پہنچتی ہے اور جو اس کی آواز سنتا ہے وہ قیامت میں موذّن کے حق میں گواہی دے گا۔ جو شخص جنگل میں اپنی بکریاں چراتا ہو اور اذان کا وقت آنے پر اونچی آواز سے اذان کہے تو جہاں تک اس کی آواز جائے گی۔ قیامت کے دن وہ ساری چیزیں اس کے حق میں گواہی دیں گی۔

 اگر آ پ امام ہیں تو تمام آداب و شرائط کا اہتمام کرتے ہوئے نماز پڑھائیے اور مقتدیوں کی سہولت کا لحاظ کرتے ہوئے اچھی طرح امامت کیجیے۔نبیﷺ نے فرمایا:’’ جو امام اپنے مقتدیوں کو اچھی طرح نماز پڑھاتے ہیں اور یہ سمجھ کر پڑھاتے ہیں کہ ہم اپنے مقتدیوں کی نمازکے ضامن ہیں ان کو اپنے مقتدیوں کی نماز کا اجر بھی ملتا ہے، جتنا ثواب مقتدیوں کو ملتا ہے۔ اتناہی امام کو بھی ملتا ہے اور مقتدیوں کے اجر و ثواب میں کوئی کمی نہیں کی جاتی‘۔‘ (طبرانی)

 نماز اس طرح خشو ع و خضوع سے پڑھیے کہ دل پر خدا کی عظمت و جلال کی ہیبت طاری ہو اور خوف و سکون چھایا ہوا ہو، نماز میں بلا وجہ ہاتھ پیر ہلانا، بدن کھجانا، داڑھی میں خلال کر نا، ناک میں انگلی ڈالنا، کپڑے سنبھالنا سخت بے ادبی کی حرکتیں ہیں۔ ان سے سختی کے ساتھ پرہیز کرنا چاہیے۔

 نماز کے ذریعے خدا سے قرب حا صل کیجیے۔ نماز اسطرح پڑھیے کہ گویا آپ خدا کو دیکھ رہے ہیں یا کم ازکم یہ احساس رکھیے کہ خدا آپ کو دیکھ رہا ہے۔ نبیؐ نے فر مایا:’’ بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ اس کے حضور سجدہ کرتا ہے۔ پس جب تم سجدہ کرو تو سجدے میں خوب دعا کیا کرو۔‘‘(مسلم)

 نماز ذوق و شوق کے ساتھ پڑھیے۔ مارے باندھے کی رسمی نماز در حقیقت نماز نہیں ہے۔ ایک وقت کی نماز پڑھنے کے بعد دوسری نماز کا بے چینی اور شوق سے انتظار کیجیے۔ ایک دن مغرب کی نماز کے بعد کچھ لوگ عشاء کی نماز کا انتظار کر رہے تھے۔ نبیؐ تشریف لائے اور آپؐ اس قدر تیز تیز چل کر آئے کہ آپؐ کی سانس چڑھ گئی تھی۔ آپؐ نے فر مایا: لوگو! خوش ہو جائو تمھارے رب نے آسمان کا ایک دروازہ کھول کر تمھیں فرشتوں کے سامنے کیا اور فخر کرتے ہوئے فرمایا دیکھو میرے بندے ایک نماز ا دا کر چکے اور دوسری نماز کا انتظار کر رہے ہیں۔(ابن ماجہ)

غافلوں اور لا پرواہوں کی طرح جلدی جلدی نماز پڑھ کر سر سے بوجھ نہ اتار یے۔ بلکہ حضور قلب کے ساتھ خدا کو یاد کیجیے اور دل، دماغ، احساسات، جذبات اور افکار و خیالات ہر چیز سے پوری طرح خدا کی طرف رجوع ہو کر پوری یکسوئی اور دھیان کے ساتھ نماز پڑھیے۔ نماز وہی نماز ہے، جس میں خدا کی یاد ہو۔ منافقوں کی نماز خدا کی یاد سے خالی ہوتی ہے۔  نماز کے باہر بھی نماز کا حق ادا کیجیے اور پوری زندگی کو نماز کا آئینہ بنائیے۔قر آن میں ہے’’ نماز بے حیائی اور نافرمانی سے روکتی ہے۔‘‘ نبیﷺ نے ایک انتہائی اثر انگیز تمثیل میں اس طرح اس کو پیش فر مایا آپؐ نے ایک سوکھی ٹہنی کو زور زور سے ہلایا۔ ٹہنی میں لگے ہوئے پّتے ہلانے سے جھر گئے۔ پھر آپؐ نے فر مایا: نماز پڑھنے والوں کے گناہ اسی طرح جھڑ جاتے ہیں، جس طرح اس سوکھی ٹہنی کے پتے جھڑ گئے اور اس کے بعد آپؐ نے قر آن کی یہ آیت تلاوت فر مائی:و اَقِمِ ا لصَّلٰو ۃَ طَرَ فَیِ ا لنَّہَا رِ وَ زُ لَفًا مِّنَ ا لَّیْلِ ۔اِنَّ ا لْحَسَنَاتِ یُذْ ہِبْنَ السَّیِّاءَاتِ ط ذٰلِکَ ذِکْرٰ ی لِلذَّ اکِرِ یْنَ۔(ہود:۱۱۴ )’’ اور نماز قائم کرو دن کے دو نوں کناروں پر(یعنی فجر اور مغرب) اور کچھ رات گئے پر، بلا شبہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ یہ نصیحت ہے نصیحت حاصل کرنے والوں کیلئے۔‘‘

نماز میں ٹھیر ٹھیر کر قر آن شریف پڑھیے اور نماز کے دوسرے اذکار بھی ٹھیر ٹھیر کر پوری توجہ، دل کی آمادگی اور طبیعت کی حاضری کے ساتھ پڑھیے۔ سمجھ سمجھ کر پڑھنے سے شوق میں اضافہ ہوتا ہے اور نماز واقعی نماز بن جاتی ہے۔

 نماز پابندی سے پڑھیے کبھی ناغہ نہ کیجیے۔ مومنوں کی خوبی یہ ہے کہ وہ پابندی کے ساتھ بلا ناغہ نماز پڑھتے ہیں:اِ نَّا ا لْمُصَلِّیْنَ۔ الَّذِیْنَ ہُمْ عَلیٰ صَلَاتِہِمْ دَاءِمُوْنَ۔(المعارج:۲۲ ،۲۳ )’’ مگر نمازی لوگ وہ ہیں، جو اپنی نمازوں کا پابندی کے ساتھ التزام کرتے ہیں۔‘‘

 فرض نمازوں کی پابندی کے ساتھ ساتھ نفل نمازوں کا بھی اہتمام کیجیے اور کثرت سے نوافل پڑھنے کی کوشش کیجیے۔ نبیؐ نے فرمایا:’’ جو شخص فرض نمازوں کے علاوہ دن رات میں بارہ رکعتیں پڑھتا ہے اس کیلئے ایک گھر جنّت میں بنا دیا جاتا ہے۔‘‘

 سنت اور نوافل کبھی کبھی گھر میں بھی پڑھا کیجیے۔ نبیؐ کا ارشاد ہے۔’’ مسجد میں نماز پڑھنے کے بعد کچھ نماز گھر میں پڑھا کرو۔ اللہ اس نماز کے طفیل تمہارے گھروں میں خیر عطا فر مائے گا۔‘‘(مسلم) اور نبیؐ خود بھی سنت و نوافل اکثر گھر میں پڑھا کرتے تھے۔

 فجر کی نماز کے لیے جب گھر سے نکلیں تو یہ دعا پڑھیے:’’خدایا! پیدا فر مادے میرے دل میں نور۔ میری بینائی میں نور، میری شنوائی میں نور، میرے دائیں نور، میرے بائیں نور، میرے پیچھے نور، میرے آگے نور، اور میرے لئے نور ہی نور کر دے۔ میرے پٹھوں میں نور کر دے اور میرے گوشت میں نور، میرے خون میں نور، میرے بالوں میں نور، میری کھال میں نور، میری زبان میں نور، اور میرے نفس میں نور پیدا فر مادے اور مجھے نور عظیم دے۔ اور مجھے سرا پا نور بنا دے اور پیدا فر ما میرے اوپر نور، میرے نیچے نور، خدایا مجھے نور عطا کر۔‘‘(حصن حصین)

 فجر اور مغرب کی نماز سے فارغ ہو کر گفتگو کرنے سے پہلے ہی سات بار یہ دعا پڑھیے:اَ للّٰہُمَّ اَجِرْ نِیْ مِنَ ا لنَّارِ۔’’ خدایا! مجھے جہنم کی آگ سے پناہ دے۔‘‘ نبیﷺ کا ارشاد ہے:’’ فجر و مغرب کی نماز کے بعد کسی سے بات کرنے سے پہلے سات بار یہ دعا پڑھ لیا کرو۔ اگر اس دن یا اس رات میں مر جائو گے تو تم جہنم سے ضرور نجات پا ئو گے۔‘‘(مشکوٰۃ)

 ہر نماز کے بعد تین باراَسْتَغْفِرُ اللہَ کہیے اور پھر یہ دعا پڑھیے:اَ للّٰہُمَّ اَنْتَ ا لسَّلَامُ وَ مِنْکَ ا لسَّلَامُ تَبَا رَکْتَ یَا ذَ ا الْجَلَا لِ وَ ا لْاِ کْرَامِ۔(مسلم)’’ خدایا! تو السلام ہے، سلامتی کا فیضان تیری ہی جانب سے ہے، تو خیر و برکت والا ہے۔ اے عظمت والے اور نوازش والے۔‘‘ حضرت ثوبانؓ فر ماتے ہیں کہ نبیﷺ جب نماز سے سلام پھیر لیتے تو تین بار استغفر اللہ کہتے اور اور پھر یہ دعا پڑھتے۔

 جماعت کی نماز میں صفوں کودرست رکھنے کا پورا پورا اہتمام کیجیے۔ صفیں با لکل سیدھی رکھیے اور کھڑے ہونے میں اس طرح کندھے سے کندھا ملائیے کہ بیچ میں خالی جگہ نہ رہے اور جب تک آگے کی صفیں نہ بھر جائیں پیچھے دوسری صفیں نہ بنائیے۔ ایک بار جماعت کی نماز میں ایک شخص اس طرح کھڑا ہوا تھا کہ اس کا سینہ باہر نکلا ہوا تھا۔ رسول اللہﷺ نے دیکھا تو تنبیہہ فر مائی۔’’ خدا کے بندو! اپنی صفوں کو سیدھی اور درست رکھنے کا لازماً اہتمام کرو ورنہ خدا تمہارے رخ ایک دوسرے کے خلاف کر دے گا۔‘‘( مسلم ج۱ ) ایک موقع پر آپؐ نے فر مایا:’’ جو شخص نماز کی کسی صف کو جوڑے گا اسے خدا جوڑے گا اور جو کسی صف کو کاٹے گا خدا اسے کاٹے گا۔‘‘

 بچوں کی صف لا زماً مردوں سے پیچھے بنائیے اور بڑوں کے ساتھ کھڑا نہ کیجیے۔ البتہ عید گاہ وغیرہ میں جہاں الگ کرنے میں زحمتیں پیش آئیں یا بچوں کے گم ہو نے کا اندیشہ ہو تو وہاں بچوں کو پیچھے بھیجنے کی ضرورت نہیں، اپنے ساتھ رکھیے اور عورتوںکی صفیں یا تو سب سے پیچھے ہوں یا الگ ہوں، اگر مسجد میں ان کے لئے الگ جگہ بنی ہوئی ہو، اسی طرح عید گاہ میں عورتوں کے لئے الگ جگہ کا انتظام کیجیے۔ (آداب زندگی سے ماخوذ)