پروفیسر لطف الرحمن نے اردو شاعری ، تنقید اور تحقیق کو ایک جہانِ نو سے آشنا کیا۔

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 01-September 2020

دربھنگہ (فضاامام):یکم/ْ ستمبر: -ء بیسویں صدی کی ساتویں دہائی سے اکیسویں صدی کی پہلی دہائی تک آسمان ادب پر جن اکابرین ادب نے اپنے فکر و نظر کی روشنی بکھیری ان میں پروفیسر لطف الرحمن جیسی عبقری شخصیت شامل ہیں۔ پروفیسر رحن نے شاعری ، تنقید، تحقیق اور صحافت کو ایک نئے جہان سے آشنا کیا۔ ان خیالات کا اظہار اردو کے نامور دانشور ، ناقد پروفیسر قدوس جاوید نے کیا۔ پروفیسر قدوس ایل این متھلا یونیورسیٹی دربھنگہ کے زیر اہتمام منعقد دو روزہ قومی ویبینار بعنوان ’’لطف الرحمن : شخصیت اور کارنامے‘‘ کے افتتاحی اجلاس میں کلیدی خطبہ پیش کر رہے تھے۔ پروفیسرجاوید ن ے کہا کہ ساٹھ کی دہائی میں ترقی پسندیت اور جدیدیت کے استحکام کے لئے جدوجہد کررہا تھا تو دوسری طرف ترقی پسندی کے حامیوں نے ابھی ہار نہیں مانی تھی ۔ ایسے کشمکش کے دور میں اردو کے جن چند ناقدوں نے ترقی پسندیدیت کی  اہمیت کا اقرار کرتے ہوئے جدیدیت کی روح کو واضح کرنے کی کوشش کی ان میں لطف الرحمان نمایاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی کتاب ’’جدیدیت کی جمالیات‘‘ جدیدیت کے رجحان پر مکالمہ قائم کیا اور دنیائے ادب کو اس کے مضر اثرات سے بھی آگاہ کیا۔ دراصل لطف الرحمن وجودیت کی آنکھ سے جدیدیت کو دیکھ رہے تھے۔ پروفیسر جاوید نے کہا کہ لطف الرحمن ایک تخلیقی فنکار تھے انہوں نے افسانہ لکھا، شاعری کی ۔ مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی اس لئے ان کی تنقید میں تخلیقیت کی اہمیت کا اعتراف ملتا ہے۔ تحقیق میں بھی ان کی عالمانہ اور دانشورانہ بصیرت اور بصارت کی آئینہ داری ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ لطف الرحمن کی شخصیت پرت در پرت ایک نئے باب کی متقاضی ہے۔ انہوں نے اس ویبینار کو لطف الرحمن کے تئیں علمی خراج عقیدت قرار دیا اور شعبۂ اردو کی اس کوشش کو تاریخی اہمیت کا حامل قرار دیا۔ جلسہ کے مہمان خصوصی پروفیسر رئیس انور صاحب نے ان کے شخصی اوصاف پر روشنی ڈالی اور یہ اعتراف کیا کہ وہ وسیع المطالعہ شخص تھے اور نئی نسل کی حوصلہ افزائی میں وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ انہوں نے جدیدیت کے حوالے سے ان کی فکر و نظر کو مشعل راہ قرار دیا ۔ اپنے صدارتی خطبے میں پروفیسر اسلم آزاد نے کہا کہ لطف الرحمن کی ہمہ جہت شخصیت کا زمانہ قائل ہے۔ وہ اپنی طالب علمی کے زمانے سے لے کر آخری سانس تک زبان وادب کی خدمت کرتے رہے ۔ ایک وقفہ کے لئے سیاست میں گئے لیکن وہاں بھی اپنی دانشورانہ حیثیت کا لوہا منوایا۔ لیکن ان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ دبستان عظیم آباد کی علمی وادبی اور ثقافتی شناخت کو استحکام بخشا۔ شاعری کے میدان  میں آئے تو نئے لب و لہجے کی شاعری کی اور تنقید میں جدیدیت کی جمالیات کی بدولت پوری اردو دنیا میں مرکز نگاہ بن گئے۔ واضح ہو کہ لطف الرحمن کا تعلق دربھنگہ سے رہا ہے اور ان کی فکر و نظر پر یہ پہلا قومی مذاکرہ تھا لہٰذا صدر شعبہ اردو پروفیسر محمد آفتاب اشرف نے متھلانچل بالخصوص دربھنگہ کی علمی ، ادبی اور ثقافتی تاریخ پر بھرپور روشنی ڈالی اور اس ویبینار کی غیر معمولی اہمیت کا جواز بھی پیش کیا۔ انہوں نے اپنے استقبالیہ خطب میں ہی شعبہ اردو ایل این متھلا یونیورسیٹی کی تاریخ پر بھی بھرپور روشنی ڈالی اور شعبہ کی عملی خدمات کو بھی اجاگر کیا۔ جبکہ افتتاحی اجلاس کے تمام شرکاء کا شکریہ شعبۂ اردو کے استاد پروفیسر محمدافتخار احمدنے کیا اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر مطیع الرحمن نے بحسن و خوبی انجام دیا۔ افتتاحی اجلاس کے بعد عملی اجلاس کا آغاز ہوا ، اجلاس اول کے صدر پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین (دہلی) ، پروفیسر محمد علی جوہر اور پروفیسر حامد علی خاں مظفرپور تھے، جبکہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر عبدالرافع ملت کالج دربھنگہ نے انجام دیا۔ مقالہ نگاروں میں ڈاکٹر امام اعظم ( ریجنل ڈائریکٹرمانو کولکاتا )، ڈاکٹر ابوبکر رضوی، ڈاکٹر ریاض احمد جموں کشمیر، ڈاکٹر چشمہ فاروقی ، ڈاکٹر صالحہ صدیقی الہ آباد، ڈاکٹر احسان عالم دربھنگہ نے لطف الرحمن کے افکار ونظر پر اپنے مقالات پیش کئے۔ علمی اجلاس کے صدر پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے تمام مقالوں نگاروں کے مقالات پر تبصرہ کیا اور فرمایا کہ پروفیسر لطف الرحمن اردو زبان وادب کی تاریخ میں جدیدیت کے حوالے سے ہمیشہ حوالہ جاتی نقاد کے طور پر یاد رہیں گے۔ انہوں نے ان کی شاعرانہ عظمت کا بھی اعتراف کیا لیکن بنیادی طور پر لطف الرحمن کو ایک خلاق ذہن اور تعمیری فکر و نظرکا نقاد قرار دیا۔ اجلاس دوم کے مجلس صدارت میں پروفیسر انیس صدری اور کوثر مظہری شامل تھے۔ جبکہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر محمد ارشد حسین سلفی نے انجام دی۔ مقالہ نگاروں میں ڈاکٹر مشتاق احمد وانی جموں کشمیر، ڈاکٹر دبیر احمد کلکتہ ، جبکہ اظہار تشکر ڈاکٹرعبدالرافع دربھنگہ نے کیا۔ اپنے صدارتی خطبہ میں پروفیسر انیس صدری نے پروفیسر لطف الرحمن کو ایک وسیع المطالعہ اور کشادہ ذہن نقاد قراردیا۔ غیر عملی اجلاس مورخہ ۳۰ اگست کوپروفیسر مظہر مہدی (دہلی) اور ڈاکٹر مشتاق احمد دربھنگہ کی صدارت میں منعقد ہوا۔ مقالہ نگاران میں پروفیسر ارشد مسعود ہاشمی چھپرا ، ڈاکٹر نسیم احمد نسیم بتیا، ڈاکٹر محمد کاظم دہلی، ڈاکٹر مشرف علی بنارس، ڈاکٹر ابرار اجراوی مدھوبنی اور ڈاکٹرعبدالسمیع بنارس نے اپنے مقالات پیش کئے۔ پروفیسر ارشد ہاشمی نے لطف الرحمن اور جدیدیت کی تحریک پر بھرپور روشنی ڈالی اور ڈاکٹر نسیم نے لطف الرحن کے شعری مجموعہ ’’صنم آشنا‘‘ کواپناموضوع بنایا۔ ڈاکٹر محمد کاظم نے لطف الرحمن کی تنقیدی بصیرت و بصارت پر بھرپور روشنی ڈالی اور ان کے نظرئے فن ڈرامہ کی وضاحت کی۔ ڈاکٹر مشرف عالم ، ڈاکٹر اجراوی اور ڈاکٹر عبدالسمیع نے ان کی شاعری اور تنقید کے حوالے سے گفتگو کی۔ صدور جلسہ ڈاکٹر مشتاق احمد نے کہا کہ یہ دو روزہ ویبینار اردو ادب میں لطف الرحمن شناسی کی خست اول ہے۔ انہوں نے کہا کہ لطف الرحمن ایک دانشو ر تخلیق کار اور وسیع القلب نقاد تھے۔ ان کی تخلیقات کے مطالعہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ بین العلومی مطالعہ کی بنیاد پر اردو، فارسی اور انگریزی ادبیات پر گہری نظر رکھتے تھے۔ پروفیسر مظہر مہدی نے کہا کہ لطف الرحمن کے تعلق سے یہ ویبینار لطف الرحمن کی شخصیت اور ان کے افکار و نظریات کے افہام و تفہیم کا مسئلہ حل کرے گا۔ انہوں نے اجلاس کے تمام مقالہ نگاروں کو مبارک باد دی کہ سبھوں نے اپنے موضوع کا حق ادا کیا۔ چوتھا اور آخری عملی اجلاس کی صدارت پروفیسر منظرحسین رانچی اور پر ڈاکٹر ایس ایم رضوان اللہ دربھنگہ نے کی ۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر وصی احمد شمشاد نے انجام دیا تھا اور اظہار تشکر ڈاکٹر عبدالرافع نے پیش کیا تھا۔ اس اجلاس میں پروفیسر احتشام الدین کا مقالہ ان معنوں میں منفرد تھا کہ انہوں نے پروفیسر لطف الرحمن کے افسانوں میں موجود اس تھیوری کو بہ حسن و خوبی اجاگر کیا جسے سن کر لوگ آنکھ کان بند کرلیتے ہیں۔ان کے علاوہ ڈاکٹر عبدالرافع ، ڈاکٹر کامران غنی صبا، ڈاکٹر احمد علی، محترمہ زیبا پروین ، صادق اقبال،عبداللہ صوفی، ڈاکٹر ریحان احمد قادری، ڈاکٹر محمد رضوان ، ڈاکٹر رحمت اللہ افضل نے اپنے مقالات پیش کئے۔ اور بھی مقالہ نگاروں نے پروفیسر لطف الرحمن کی ہمہ جہت شخصیت کو موضوع بنایا ۔ صدر جلسہ ڈاکٹر ایس ایم رضوان اللہ اور منظر حسین نے اس عملی اجلاس کے تمام پرچوں پر اپنی رائے قائم کی۔ پروفیسر قدوس جاوید پروفیسر لطف الرحمن نے دبستانِ عظیم آباد کی شناخت کو استحکام بخشا۔ پروفیسر اسلم آزاد پروفیسر لطف الرحمن جدیدیت کی حوالہ جاتی شخصیت ۔پروفیسر خواجہ اکرام الدین یہ ویبینار پروفیسر لطف الرحمن کی شخصیت اور ان کے افکار و نظریات کے افہام و تفہیم کا مسئلہ حال کرے گا۔ پروفیسر مظہر مہدی پروفیسر لطف الرحمن :شخصیت اور کارنامے ، دو روزہ وبینار اختتام پذیر

٭٭٭