گودی میڈیا کی شرارت اور ہم اہل وطن شرافت

Taasir Urdu News Network | Uploaded  on 23-September-2020

جی ہاں! میں بات کر رہا ہوں اس گودی میڈیا کی جس نے صحیح معنوں میں بھارتیہ لوک تنتر کی ہتھیا کی ہے۔اس گودی میڈیا کی جس نے وطن عزیز مادر وطن ہندوستان کو کافی حدتک نقصان پہونچایا ہے ۔ وہ گودی میڈیا جس نے چند کھنکتے ہوئے سکوں کے لئے اپنے ضمیرکا سودا کیا ہے۔سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے میں شب وروز جو کوشاں رہتی ہے ۔وہ گودی میڈیا جس نے نفرتوں کی ایسی بیج بوئ کہ ہندو مسلم سکھ عیسائ آپس میں سب بھائ بھائ کے سنہرے اور عمدہ تصور کا شیرازہ بکھیر دیا۔ آپسی بھائ چارگی کا نا جائز خون کرتے ہوئے اختلاف کو بڑھاوا دیا۔ وہ گودی میڈیاجس نے ہندوستان کے مسلمانوں کو ہمیشہ نشانے پر رکھا۔وہ گودی میڈیا جس کی حرکتوں پر ملک بیرون ملک سب تھو تھو کر رہے ہیں۔وہ گودی میڈیا جو اپنے آقاؤں کی غلامی میں ہمیشہ آگےپیچھے دوڑتی رہتی ہے۔وہ گودی میڈیا جس نے ہندوستانیوں میں بغض وعداوت کی ایسی آگ مشتعل کیا جس کو بجھانا صرف مشکل ہی نہیں کافی مشکل ہے۔وہ گودی میڈیا جس کا مسلمانوں کے حقوق پامالی میں ہمیشہ ہاتھ رہا۔اس کی نا زیبا حرکات وسکنات دیکھ کر ایسا لگتاہے کہ

خدا را تیرے یہ سادہ رو بندے کدھرجائیں کہ سلطانی بھی عیاری ہے درویشی بھی عیاری۔

جبکہ بھارتیہ میڈیا کو چوتھا ستون قرار دیا گیا ہے۔ اب آپ اس تناظر میں خود فیصلہ کریں کہ بھارتیہ گودی میڈیا وطن عزیز کی فلاح وبہبود و خیر خواہی چاہ رہی یا نقصاں دہی۔عیاں راچہ بیاں واضح کو کیا واضح کرنا۔اپنے أقاؤں کے ایک اشارے پر دن کے اجالے اور رات کے اندھیرےمیں سفید وصریح جھوٹ پر جھوٹ بولنے والی ضمیر فروشئی بے حیائی بے مروتئیاخلاق سے عاری وخالی گودی میڈیا ہی ہے۔موقع کا فائدہ اٹھا کر اپنے آقاؤں کو خوش کرنا کوئ ان سے سیکھیں۔ہمیں تملق پرست مفاد پرست میڈیا نہیں چاہئیے بلکہ ہمارے وطن عزیز مادر وطن ہندوستان کوایسی میڈیا چاہئیے جو اہل وطن کی آواز حکومت تک پہونچائے اور حکومت کی اہل وطن تک۔ عزیزو!!!!رہ گئ بات صحافت کی تو ہر دور میں میدان میں کچھ ایسے نا خلف افراد معرض وجود میں رہے جواپنے مقتداؤں کی ہاں میں ہاں ملایا کرتے تھے۔ ان کے غلط کو صحیح ,جھوٹ کو سچ ,ظلم کو ہمدردی بنا کر بیچارے مصیبتوں کے مارے سادہ لوح عوام کاالانام کے سامنے پیش کرتے تے تھے۔ان کی خوشیوں میں ان کی دکھاوے کی خوشی مضمر ہوا کرتی تھی۔ لیکن چوں کہ زمانۂ ماضی غیر ترقی یافتہ دور تھائی ڈیجیٹل نہیں تھا ,اس لئے صحافی بھی غیر ترقی یافتہ تھا ۔ کیوں کہ اس وقت میڈیا کا دور نہیں تھا۔بلکہ اس کی جگہ اس وقت کے آقاوں کے ادنی اشارے پر رقص وسرور کرنے والے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے والے کچھ چمچے ہوا کرتےتھے ۔لیکن لیل ونہار کی گردشیں ایام کی شکل میں گزرتی گئیں زمانہ ترقی کر گیا حالات کے اعتبار سے میدان صحافت کے کچھ ناخلفوں نے بھی خوب ترقی کیا۔جب جس پارٹی کی حکومت بنی مقاصد کو مد نظررکھتے ہوئے چمچوں نے اپنا قبلہ تبدیل کر لیا۔میدان صحافت سے بہتیرے لوگ جڑے اس کی فہرست بڑی لمبی ہے ۔کچھ حق کی آواز بن کراچھے لوگ تو کچھ برے لوگ یہ اور بات ہے کہ ان بروں کے باالمقابل چھے ہمیشہ کم ہی رہے۔یہ سلسلہ چلتا رہا۔لیکن اپنی ناقص جانکاری کے مطابق حکومت کی غلط پالیسیوں پر بجائے جرح ونقد کرنے کے سہولیات بنا کر عوام کے سامنے پیش کرنے کا رواج اور چلن 2013 سے شروع ہوا۔عوام کو بڑھتی مہنگائئی روز روزگاری کا وعدہ کراکر جھوٹی جھوٹی باتیں بناکر گڑھ کر لبھایا گیا۔ہندو مسلم کرکے ماحول سلگایا گیا۔لیکن حکومت بن جانے کے بعد روزگاری کا کیا عالم ہے بتانے کی ضرورت نہیں۔عوام دن بہ دن روز گاری کو ترس رہی ہے۔جیتنے سے پہلے ہر پارٹی سینکڑوں وعدے کرتی ہے۔جنتاکے سامنے گھٹنے ٹیکتی ہے۔اور جیتنے کے بعد کوئ کسی کا پرسان حال نہیں۔ان کے اسی رویے کو دیکھ کر جناب” شعلہ قادری” صاحب کا یہ شعر میں کہنے پر مجبور ہو جاتا ہوں جو انہوں نے گورکھپور کے مشاعرہ میں کہا تھا کہ ع گھر بیچ کے چناؤ میں آیا ہوں دوستو!!!

مخلص ہوں میں آپ کا پہچان لیجئے!
آؤنگا نہ لوٹ کر پانچ سالوں تک
صرف ایک بار میرا کہا مان لیجئے!

اور غالبا ہر سیاسی نیتا یہی کہتا ہے۔اور پھر مدت معینہ تک اسی جنتا کا جس نے سیاست کی کرسی پر بیٹھنے کا موقع دیا ہے اسی عوام کو چوسنا شروع کردیتے ہیں۔لیکن گودی میڈیا کو اس سے کیاسروکار ہے۔وہ تو اپنا الو سیدھا کرنے میں ہمیشہ مشغول ومنہمک رہتی ہے۔لیکن یہ جوکچھ بھی گودی میڈیا کے مادھم سے ہو رہا ہے اس کے کہیں نہ کہیں ہم اہل وطن بھی ذمہ دار ہیں۔ہم اہل وطن کی خاموشی بھی نقصان سے خالی نہیں۔ابھی ماضی قریب کی اگر بات کروں تو پہلی بار مہلک وبا کرونا کےچلتے پورے دیش میں سخت لاک ڈاون کانفاذ ہوا۔ انتہائ بے سروسامانی میں اپنے اپنے وطن مالوف کی جانب اسباب کے نہ ہونے کےباعث مزوروں نے پیدل ہی کوچ کر نا شروع کیا۔ٹرین کی پٹریوں پر درجنوں مزدوروں کو ٹرین نے کچل دیا۔گودی میڈیا نے کچھ اور دکھایا کچھ اور بتایا۔جو حکومت کے متعلق پوچتاچھ اور مطالبات کرتا ہے یہ میدیا اس کو ذلیل ورسواکرنے میں اپنے مالک کا مکمل نمک حلالی کا حق اداکرتی ہے۔اسے رسوا کرنے میں کوئ کسر بھی نہیں چھوڑتی۔ ہم اہل وطن کی خاموشی کہیئے یا پھر شرافت۔لیکن آپ کی عدالت میں میری یہ پرزور اپیل ہے کہ ہم بہت سو چکے اب مزید سونے کی ضرورت نہیں۔ہمیں بیدار ہونا ہوگا۔اور صحیح اور غلط کی صحیح تممیز کرنی ہوگی۔حالات سے لڑنا ہوگا۔اپنے اور پرائے میں فرق کرنا ہوگا۔اور نفرت و عداوت کی آگ بھڑکانے والوں کو جلد ازجلد ران درگاہ کرنا ہوگا۔اتحاد کو گلے لگاناہوگا اختلاف کو کوسوں دور بھگانا ہوگا۔مضبوطی لانی ہوگی کمزوریوں کوختم کرنا ہوگا۔

بڑے غور سے سن رہا تھا زمانہ
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے۔