اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو تسلیم کرتے ہیں لیکن اْسے آئین کے اندر رہنا ہو گا: شاہد خاقان

Taasir  Urdu News Network | Islamabad (Pakistan)  on 16-Oct-2020

اسلام آباد: پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ حزبِ اختلاف مقتدر حلقوں سے محاذ آرائی نہیں چاہتے، البتہ انہیں آئین میں دیے گئے اپنے کردار تک محدود کرنا ہو گا۔اسلام آباد میں وائس آف امریکہ کو دیے گئے انٹرویو میں شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت کا مقابلہ کسی ادارے سے نہیں بلکہ اس سوچ سے ہے جو آئین پر یقین نہیں رکھتی۔اْن کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی حالیہ تقاریر سے سیاسی قوتوں اور اداروں کے درمیان محاذ آرائی پیدا نہیں ہونی چاہیے، کیوں کہ سابق وزیر اعظم کے بیانات کا مقصد ملک میں آئین کی بالادستی ہے۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ “اگر آئین میں کچھ خرابیاں ہیں تو اسے مل کر درست کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ ممکن نہیں کہ آئین کچھ کہے اور کام کچھ اور ہو، اختیارات کسی کے پاس ہوں، لیکن کام کوئی اور کرے، اس طرح ملک نہیں چلتے۔”یاد رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف جو علاج کی غرض سے ان دنوں لندن میں قیام پذیر ہیں، اپنی تقاریر میں تواتر سے اسٹیبلشمنٹ کو ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں۔نواز شریف کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ مخالف تقاریر کے بعد پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے ان کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔شاہد خاقان کہتے ہیں کہ نواز شریف کسی کو موردِ الزام نہیں ٹھیرا رہے بلکہ مسائل کے حل کی بات کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ الزامات کے لیے ایک ‘ٹرتھ کمشن’ تشکیل دے دیں جو پاکستان میں رونما ہونے والے متنازع واقعات کی اصل وجوہات سامنے لائے تاکہ عوام حقائق کی روشنی میں فیصلہ کر سکیں کہ کیا درست اور کیا غلط تھا۔نواز شریف کی سیاسی منظر نامے پر طویل خاموشی اور پھر اچانک اسٹیبلشمنٹ مخالف سخت موقف پر شاہد خاقان کہتے ہیں کہ ملک میں سیاسی جمود پیدا ہو چکا ہے اور حکومت کے پاس ملکی مسائل کا کوئی حل موجود نہیں ہے۔اْن کے بقول نواز شریف نے سیاسی جمود اور غیر یقینی کی صورتِ حال میں مسائل کا حل پیش کیا ہے، جو شفاف انتخابات اور آئین کی عملداری کے ذریعے ہی ممکن ہے۔وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے نواز شریف کی حالیہ تقاریر کو ملک دشمنی قرار دیے جانے پر شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ ملک دشمن وہ ہیں جو وطن کو نقصان پہنچائیں، اس کی معیشت تباہ کریں اور عوام کو مشکلات میں مبتلا کریں۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف تین بار پاکستان کے وزیر اعظم رہے اور ملک کی دوسری بڑی پارلیمانی جماعت کے سربراہ ہیں۔ اگر وہ ملک دشمن ہیں تو پھر ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔پارٹی میں نواز شریف کے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کے حوالے سے پائے جانے والے تحفظات پر مسلم لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ ان کے بیانیے سے آئین و جمہوریت پر یقین رکھنے والا کوئی شخص اختلاف نہیں کر سکتا اور پارٹی بیانیے میں ابہام یا تذبذب صرف میڈیا کی حد تک تھا۔شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا ملک میں اپنا کردار ہے اور حزب اختلاف مقتدر قوتوں سے محاذ آرائی نہیں چاہتی۔انہوں نے کہا کہ اس بات پر کوئی اختلاف نہیں ہے کہ فوج، انٹیلی جینس ایجنسیاں، عدلیہ یا دوسرے اداروں کا کردار آئین میں واضح ہے اور انہیں اس کردار تک محدود رہنا چاہیے۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ آج ملک کو اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ تمام ادارے اپنے آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں۔سابق وزیر اعظم کہتے ہیں کہ “ایک دفعہ یہ ماڈل اپنا لیں، ہم نے نہیں اپنایا، یہاں فوجی حکمران رہے، پردے کے پیچھے سے بھی نظام چلایا جاتا رہا، آج ایک ہائبرڈ نظام ہے، جو ناکام ہو گیا ہے اس لیے ایک مرتبہ ملک میں آئین کی حکمرانی اپنا کر دیکھیں۔”شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اس بات میں اب کوئی شبہہ نہیں ہونا چاہیے کہ پارلیمنٹ مفلوج ہے اور ہماری نظر میں قومی مسائل و عوامی مشکلات کا سدِباب صرف اور صرف شفاف انتخابات اور آئین پر عملداری سے ہو سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ “ماضی میں ہم نے جو بھی تجربے کیے وہ ناکام رہے۔ اب بھی ہائبرڈ ماڈل ناکام ہو گیا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں صرف ایک نظام حکومت کامیاب رہے گا وہ آئین کا ماڈل ہے۔”شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ عوام کو رائے کے اظہار کا موقع دیتے ہوئے آزادانہ انتخابات میں جائے بغیر ملک نہیں چل سکتا اور ان کے بقول یہ ذمہ داری صرف حزب اختلاف نہیں بلکہ حکومت، فوج، انٹیلی جنس ادارے اور عدلیہ سب کی ہے۔اْن کے بقول موجودہ حکومت ملکی مسائل کے حل کے لیے حزبِ اختلاف کے ساتھ بات کرنے پر امادہ نہیں تو ایسی صورت میں سیاسی قیادت کے پاس صرف احتجاج کا ہی راستہ بچتا ہے۔شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ حزبِ اختلاف کی احتجاجی تحریک کے نتیجے میں سیاسی قوتوں اور سیاست پر اثرانداز ہونے والوں کو بیٹھنا ہو گا اور اپنے دائرہ کار کا تعین کرتے ہوئے اس پر کاربند رہنا ہو گا۔انہوں نے کہا کہ سیاسی قیادت اور ریاستی اداروں کے ذمہ داران کو اس لیے بھی بیٹھنا ہو گا کیوں کہ ملک نہیں چل رہا اور نظامِ حکومت چلانے کے لیے مقتدر قوتوں کے تمام طریقے ناکام ہو چکے ہیں۔ اس لیے ایک نیا راستہ ڈھونڈنا ہو گا۔شاہد خاقان کہتے ہیں کہ مسائل کا حل بات چیت سے ہی نکلے گا لیکن موجودہ حکومت حزبِ اختلاف سے ملکی مسائل پر بات کرنے کو تیار نہیں لہذا سیاسی جماعتوں کو مجبوراً سڑکوں پر آنا پڑ رہا ہے۔سابق وزیر اعظم کہتے ہیں کہ جب عوام سڑکوں پر آ کر اپنی رائے کا اظہار کریں گے تو دباؤ کے نتیجے میں سیاسی جماعتوں اور سیاست پر اثر انداز ہونے والی قوتوں کو بیٹھنا ہو گا۔حزبِ اختلاف کی مشترکہ احتجاجی تحریک کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپوزیشن جماعتیں اپنی اس تحریک میں ہر آئینی و جمہوری حد تک جائیں گی اور یہ ان کا حق ہے۔انہوں نے کہا کہ “احتجاج عوام کا حق ہے، جب پارلیمان مفلوج ہو جائے، سیاست کے عام راستے بند کر دیے جائیں تو پھر ایک راستہ رہتا ہے، وہ سڑک کا راستہ ہے۔”اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ عوام کی رائے کے لیے سڑکوں پر احتجاج، وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدمِ اعتماد اور پارلیمنٹ سے مستعفی ہونا جمہوری طرزِ احتجاج کے راستے ہیں جن کو اپنایا جا سکتا ہے۔ان کے بقول کسی ایک نکتے پر اکھٹے ہونا حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی بڑی کامیابی ہے کیوں کہ ہر جماعت الگ نظریہ اور منشور رکھتی ہے اور ایک دوسرے کے خلاف انتخاب میں حصہ لینا ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ حزبِ اختلاف سمجھتی ہے کہ پاکستان مشکل میں ہے اور جماعتیں اس بات پر اکھٹی ہیں کہ ملک کو مسائل سے نجات دلانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر کہتے ہیں کہ نئے انتخابات کے لیے انتخابی اصلاحات کی ضرورت نہیں، بلکہ پہلے سے موجود قواعد پر عملدرآمد میں مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر انتخابی اصلاحات کر بھی لی جائیں تو ان پر صحیح عملدرآمد کے حوالے سے سوال باقی رہے گا۔تاہم وہ کہتے ہیں کہ اگر انتخابی اصلاحات کی ضرورت ہے تو حکومت قانونی بل یا آئینی ترمیم لے آئے، ان کی جماعت حمایت کرے گی۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ہمارے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہمیشہ رہا ہے اور یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ ان کا کردار ایسا ہو کہ کوئی اس پر سوال نہ کر سکے۔نواز شریف کی وطن واپسی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم پیچیدہ نوعیت کی بیماریوں میں مبتلا ہیں اور ان کی رائے میں انہیں اپنا علاج مکمل کروانے کے بعد ڈاکٹروں کے رائے سے ہی پاکستان واپس آنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف پہلے بھی لندن سے اہنا علاج کروانے کے بعد پاکستان آئے تھے اور انہیں جیل بھیج دیا گیا تھا۔ ان کے مطابق یہ ان کی جماعت کی رائے ہے کہ نواز شریف علاج کی غرض سے لندن گئے تھے لہذا علاج مکمل کروا کر ہی وطن واپس آئیں۔خیال رہے کہ پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے نئے اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک الائنس (پی ڈی اے) 16 اکتوبر کو گوجرانوالہ میں جلسہ بھی کر رہی ہے۔حکومتِ پاکستان کا یہ موقف رہا ہے کہ ماضی میں برسرِ اقتدار رہنے والی اپوزیشن جماعتوں نے کرپشن کے ذریعے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے اور اب وہ اپنی کرپشن چھپانے کی کوشش کر رہی ہیں۔وزیر اعظم عمران خان متعدد بار اپنی تقاریر میں کہہ چکے ہیں کہ حزبِ اختلاف کی جماعتیں کرپشن مقدمات میں اْن سے این ا?ر او مانگ رہی ہیں جو وہ کسی صورت نہیں دیں گے۔خیال رہے کہ اکتوبر 2007 میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے ملک میں قومی مفاہمتی آرڈیننس جاری کیا تھا، جس کے تحت سیاسی رہنماؤں کے خلاف کرپشن کے مقدمات ختم کر دیے گئے تھے۔ تاہم بعدازاں سپریم کورٹ نے اسے کالعدم قرار دے دیا تھا۔