لائف انشورنس کو سمجھنا ۔ وقت کی اہم ترین ضرورت

Taasir Urdu News Network | Uploaded  on 19-Oct-2020

کیا وجہ ہے کہ یوں تو بے شمار بدترین حرام جیسے جھوٹ، جہیز، رشوت، سود، لوٹ، چوری وغیرہ میں تقریباً ہر شخص کسی نہ کسی صورت میں ملوّث ہے لیکن جیسے ہی لائف انشورنس کا نام آتا ہے ہر ایک کی زبان پر پہلے ’’حرام۔۔ناجائز۔ آتا ہے۔ اس مضمون کا مقصد یہ نہیں کہ لائف انشورنس کے حلال یا حرام ، جائز یا ناجائز کے ہونے پر بحث کی جائے۔ بلکہ یہ ہے مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی غربت اور افلاس کو روکنے کے لئے شرعی حدود میں لائف انشورنس کس حد تک مدد کرسکتا ہے، اس کا جائزہ لیا جائے، اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ اس کو فوری حرام یا ناجائز سمجھنے کے پیچھے ان سائیکالوجیکل یا تاریخی محرکات کا پتہ چلایا جائے جس کی وجہ لوگوں کو دوسرے حرام کاموں پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا لیکن لائف انشورنس پر اچانک انہیں اپنے ایمان سے خارج ہوجانے کا اندیشہ لاحق ہوجاتا ہے، لوگ اس موضوع پر تحقیق کرنا یا کم از کم پڑھنا بھی نہیں چاہتے، اس کی کیا وجہ ہے؟

راقم الحروف کی اس موضوع پر ایک تحقیقی تصنیف لائف انسورینس ان مسلم تقریباً دس سال پہلے شائع ہوئی تھی، اکثر احباب کا اصرار تھا کہ اس کو اردو میں شائع کیا جائے، جسے اب شائع کیاگیا ہے۔ ان تمام علما اور دانشوروں کی آرا کو اس میں جمع کیا گیا ہے جن کے ذریعے اس مسئلے کو دورِ حاضر میں سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے، جیسے مولانا مجاہدالاسلام قاسمیؒ، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی، مولانا مناظر احسن گیلانیؒ، مفتی سعید احمدؒ دارالعلوم وقف دیوبند، سید محمد انور شاہ کاشمیریؒ، مولانا اقبال احمد سہیل، سرسید احمد خان، جامعہ نظامیہ، ندوۃ العلما، الشیخ عادل اصلاحی سلفی، مفتی ظفیرالدین دارلعلوم دیوبند وغیرہ۔ اس کتاب کو پوری پڑھے بغیر لائف انشورنس پر کوئی منفی یا مثبت تبصرہ کرنا اپنے آپ سے بھی اور ملت کے ساتھ بھی ایک زیادتی ہوگی۔ یہاں صرف چند سوالات پیش کیئے جارہے ہیں، جن کے جوابات کتاب میں دیئے گئے ہیں۔

سوال ۱:این سی آر بی کی رپورٹس جو گوگل پر موجود ہیں ، اس کے مطابق ہر روز پورے ملک میں سڑک حادثات میں مرنے والوں کی تعداد 408 ہے، زخمی ہونے والوں کی تعداد کئی ہزار میں ہے، قتل 80 ہر روز، ریپ 91 ہر روز، دیگر اموات ناگہانی جیسے ہارٹ، گُردے، دماغ وغیرہ کے فیلیر کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد جو دواخانوں کے مطابق 1700 ہر روز ہے۔ فسادات، کرونا، ڈینگو، ایڈز، زلزلہ، بارش ، سیلاب، لِنچنگ، وغیرہ میں مرنے والوں کی تعداد کا صرف اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ بھی سینکڑوں میں ہیں۔خودکشی کرنے والوں کی تعداد سالانہ 2.3 لاکھ ہے۔ ان تمام اموات میں ، تناسب کے لحاظ سے ہر بڑے شہر میں ہر روز 20-25 آدمی مرتے ہیں تو ان میں کم سے کم 4-5 مسلمان ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر روز 4-5 عورتیں بیوا ہوتی ہیں، 5-10 بچے یتیم ہوتے ہیں اور کئی بوڑھے ماں باپ اور چھوٹے بھائی بہن بے سہارا ہوجاتے ہیں۔ کیا آپ کے شہر میں کوئی جماعت، بیت المال، کوئی صاحبِ خیر امیر آدمی ایسے ہیں کہ ہر خاندان کو مکمل بے چارگی اور غربت سے باہر نکال دیں؟، کیا آپ کی ملت میں اتنی زکوٰۃ نکل جاتی ہے کہ ہر روز اتنی بڑی تعدا د میں بے سہارا ہونے والے خاندانوں کو ان کے پاؤں پر کھڑا کیا جاسکے؟ اپنے آپ کو اس خاندان کی جگہ رکھ کر سوچئے جس کا کمانے والا صبح گھر سے نکلا اور شام گھر نہ لوٹا، صرف اس کے مرنے کی اطلاع آئی تو سوچئے اب اس گھر پر کیا گزرے گی۔ اب اس خاندان کے پاس زندگی گزارنے کے لئے صرف چند صورتیںرہ جاتی ہیں۔ 1۔ عورت نوکری کرے، بچے تعلیم ادھوری چھوڑدیں۔ جب ایک مجبور عورت نوکری ڈھونڈھنے مردوں کے پاس جاتی ہے تو مردوں کے ذہنوںمیں کیا کیا چلنے لگتا ہے، اس سے ہر مرد واقف ہے۔ پھر مرحوم کی بیٹیوں کی شادیوں کے لئے چندہ، خیرات جمع کیا جائے۔ 2۔ عورت اپنے بچوں کو ان کے چچا، تایا یا ماموں کے حوالے کرے اور خود شادی کرلے۔ 3۔ مرنے والا اپنی زندگی میں یا تو کوئی جائداد یا کاروبار چھوڑ کر جائے یاپھر کم سے کم کوئی انشورنس پالیسی چھوڑ کر جائے۔ اب آپ خود فیصلہ کیجئے کہ کیا جائز ہے، بھیک؟ بچوں کی تعلیم ختم کرکے انہیں معمولی نوکریاں کروانا؟ بیوی کو باہر نکلنے پر مجبور کرنا؟ خاندان کو چچا، ماموں وغیرہ یا زکوٰۃ و خیرات پر زندگی گزارنے پر چھوڑ دینا یا پھر آپ کی کمائی سے اپنے خاندان کے لئے ایسا انتظام کردینا جس سے ان کی خودداری پر کوئی آنچ نہ آئے؟۔

کل قیامت میں ایسی تمام بیوائیں اور یتیم ان تمام کا دامن پکڑیں گے جنہوں نے مرنے والوں کے دماغ میںیہ تو بٹھادیا کہ لائف انشورنس حرام ہے، لیکن اس کا نہ کوئی متبادل دیا اور نہ اس کے متبادل کو قائم کرنے کی کوئی کوشش کی۔ اور وہ تمام لوگ بھی پکڑ میں آئیں گے جنہوں نے مرنے والے کویہ نہیں سمجھایا کہ جس طرح ہر ماہ بجلی اور پانی کا بِل بھرنا ضروری ہے، بچوں کی فیس اور گھر کا کرایہ دینا ضروری ہے، اسی طرح اپنی آمدنی میں سے کچھ نہ کچھ نکال کر خاندان کے مستقبل کی حفاظت کے لئے پریمیم بھی دینا ضروری ہے۔ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی غربت و افلاس جس نے ان کے دین، اخلاق اور وجود کو تباہ کردیا ہے، اس کے اسباب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ رِسک لینے کو جائز ہی نہیں سمجھتے۔مثال کے طور پر کوئی بھی بڑا کاروبار کرنے سے مسلمان اس لئے ڈرتا ہے کہ اگر نقصان ہوجائے تو؟ ، اگر کاروبار کو آگ لگ جائے، پارٹنر دھوکہ دے دے، ادھار لینے والے پیسہ وقت پر واپس نہ کریں، فساد میں تباہ ہوجائیں، کرین الٹ جائے یا مزدور مرجائیں یا کچھ اور ہوجائے تو نقصان کہاں سے پورا کیا جائے؟، چونکہ ذہنوں میں یہ بٹھادیاگیا ہے کہ انشورنس تو حرام ہے اس لئے جب پیچھے سے کوئی طاقتور مدد نہ ہوتو کاروبار تو کیا ہی نہیں جاسکتا، اس لئے مسلمان صرف نوکری کرنے ، یعنی غلامی کرکے ہاتھ پھیلا کر تنخواہ لینے یا پھر بہت ہی چھوٹے چھوٹے کاروبار کرنے پر مجبور ہے۔

سوال 2۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ بڑھاپے میں پہنچنے والوں کے ساتھ بیٹے اور داماد کیا سلوک کرتے ہیں، ہزار میں ایک بچہ ہڈین ڈیزز کا شکار پیدا ہوتا ہے، طلاق کے نتیجے میں بے ماں یا بے باپ کے ہوکر سینکڑوں بچے تباہ ہوجاتے ہیں، شادیوںمیں جہیز کی لعنت کی وجہ سے لوگوں کی پوری عمر کی کمائی لُٹ جاتی ہے، ہزاروں یتیم لڑکے اور لڑکیاں صرف غربت کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم سے محروم ہوجاتے ہیں، جہیز کی وجہ سے ہونے والے ڈومیسٹک تشدّد کی وجہ سے ہزاروں خاندانوں کا ذہنی سکون غارت ہوجاتا ہے، لڑکیوں کے بھائی سب کچھ بہنوں کے جہیز میں دے کر کنگال ہوجاتے ہیں اورکرائم پر اتر آتے ہیں؟ اگر یہی روش باقی رہی تو یہ قوم آئندہ پندرہ بیس سال میں کہاں کھڑی ہوگی کیا آپ کو اس کا اندازہ ہے؟ ان تمامسائل کا ایک حل یہ بھی ہے کہ ہر شخص پہلے اپنا، اپنے بچوں کا،اور اپنے بوڑھے ماں باپ کا انشورنس کروائے، تاکہ اس کی موت، حادثہ، معذوری، بیوی سے طلاق، یا بڑھاپے کی وجہ سے اس کے متعلقین کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔

سوال3۔ کیا پرانی فقہ اِس عہدِ جدید کے مسئلے کو حل کرنے کے کے لئے رہنمائی کرسکتی ہے؟ یہ سوال ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب نے اپنی کتاب ’’انشورنس ۔ اسلامی معیشت میں‘‘ میں اپنے مقدمے میں اٹھایا ہے۔ کیونکہ فقہ یا تفقہ فی الدین جس کو کامن سینس کہاجاسکتا ہے، قرآن و سنت کی حقیقی معنوں میں اسی وقت ترجمان ہوگی جب وہ عہدِ موجود کے مسائل کو قرآن و سنت کے اصل منشا الٹیمیٹ گول کو سامنے رکھ کر فقہی اصول و ضوابط بنائے۔ فقہ کا اہم ضابطہ یہ ہے کہ فتویٰ دینے سے پہلے یہ دیکھا جانا ضروری ہے کہ جس چیز پر فتویٰ دیا جارہا ہے وہ معاشرے کے لئے فائدہ مند ہے یا نقصان دہ؟ اس سے انصاف قائم ہوتا ہے یا حقوق کی پامالی ہوتی ہے؟ اس سے کسی کی حق تلفی ہوتی ہے یا حقدار کو اس کا حق ملتا ہے۔ جب ائمہ اور علمائِ متقدمین نے سود کی تعریف اور اس کے بارے میں فتوے جاری کئے تھے اُس وقت اگرچہ عہدِ رسالت کے وہ طریقے بنیا د تھے جس میں گیہوں کے بدلے گیہوں وغیرہ کی پیچیدہ روایتیں تھیں جو اس وقت کے لوگوں کے لئے آسانی سے سمجھ میں آجانے والی تھیں کیونکہ یہ اس وقت کا چلن تھا۔ لیکن فقہ کا یہ بھی اصول ہے کہ عہد، مقام اور حالات کے بدلنے کے ساتھ فتویٰ دینے کے تقاضے بدل جاتے ہیں۔ اب دور بدل چکا ہے، آبادی، وسائل، کمیونیکیشن، ٹکنالوجی، کمائی اور خرچ کے طریقے اور ذرائع اور ان کے ساتھ ساتھ انفارمیشن بدل گئی ہے۔ اب نئے حالات میں قرآن و سنت کو صحیح انٹریپٹ کرنے کے لئے اجتہاد کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے حضرت عمرؓ کے کئی فیصلے جو عہدِ رسالت کے رواج سے مختلف ہوتے تھے، ان کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔ کتاب میں کئی مثالیں پیش کی گئی ہیں کہ حضرت عمرؓ کے نزدیک کسی بھی فیصلے کو نافذ کرنے سے پہلے قرآن اور سنت کا اصل منشا پیشِ نظر تھا، عہدِ رسالت کا رواج نہیں۔ لیکن سود یا انشورنس ہی نہیں، کئی معاملات میں آج تک ہم صدیوں پرانی کتابوںمیں آج کے مسائل کا حل ڈھونڈھتے ہیں، اور اجتہاد کے دروازے خود پر بھی اور دوسروں پر بھی بند کرچکے ہیں۔