اب کی بار کیا بدلے گا بہار؟

Taasir Urdu News Network | Uploaded  on 06-November-2020

بہار اسمبلی الیکشن کے مرکز میں اس وقت وہ تیجسوی یادو ہیں، جو دو ماہ قبل کہیں نظر نہیں آ رہے تھے۔ اب پورا چناؤ ان کے ارد گرد لڑا جا رہا ہے۔ ٹھیک اسی طرح جیسے 2014 کے عام انتخاب کے فریم میں نریندر مودی تھے۔ بہار میں بہ ظاہرتیجسوی کی آندھی چل رہی ہے۔ جس میں کانگریس اور لیفٹ پارٹیاں ان کے ساتھ کھڑی ہیں۔ مہا گٹھ بندھن کے چھوٹے لیڈروں کی ریلیوں میں بھی بھاری بھیڑ امڑ رہی ہے۔ تیجسوی ایک دن میں تیرہ، چودہ ریلیاں کر رہے ہیں۔ ان کے مقابلہ این ڈی اے مع نریندرمودی کی ریلیاں پھیکی دکھائی دے رہی ہیں۔ اس لئے تیجسوی بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتوں کے نشانہ پر ہیں۔ کبھی دس لاکھ نوکریوں کے وعدہ تو کبھی جنگل راج کے بہانے انہیں گھیرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ نتیش کمار سمیت بی جے پی کی بوکھلاہٹ کا عالم یہ ہے کہ تیجسوی اور ان کے پریوار پر ذاتی حملہ کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا لیکن وہ ان کا جواب نہ دے کر عوام کے مسائل اور بہار کے بہتر مستقبل کی بات کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ان کی حکومت بنی تو پڑھائی، کمائی اور دوائی کیلئے کسی کو باہر جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

نتیش کمار اور این ڈی اے کے پاس نہ تیجسوی یادو کی باتوں کا کوئی جواب ہے اور نہ ہی بیمار ریاست کی صحت کو سدھارنے کا کوئی منصوبہ۔ 2015 میں بولی لگا کر بہار کو دیئے گئے 125 کروڑ روپے کے پیکیج کی رقم بھی مرکزی حکومت نے ابھی تک پوری نہیں دی ہے اور نہ ہی بہار کو خصوصی ریاست کا درجہ دینے کا وعدہ پورا کیا گیا ہے۔ نتیش کمار کے پندرہ سالہ حکومت کی کارکردگی بتانے کے بجائے لالو پرساد یادو کے دور کو جنگل راج بتا کر ڈرانے اور فرقہ وارانہ جملے بازی کے ذریعہ ووٹ کو پولرائز کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ این ڈی اے دھیرے دھیرے ترقی کے ایجنڈے سے ہٹ کر ماضی کے خوف، کشمیر، پلوامہ، لداخ میں فوجیوں کی شہادت وغیرہ پر فوکس کر رہا ہے۔ نریندرمودی تو مایوسی میں تیجسوی کو جنگل راج کے خاندان کا یوراج پکار رہے ہیں جو بہار کے نوجوانوں کو ناگوار گزر رہا ہے۔ وہ اسے نئی سوچ کو خارج کرنے کی کوشش بتاتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ کسی کی سوچ کو محض اس لئے کیسے خارج کر سکتے ہیں کہ اس کے والد سے کبھی کوئی غلطی ہوئی تھی۔ آپ اس کی سوچ اور وعدوں کا مدلل جواب کیوں نہیں دیتے۔

لالو پرساد یادو نے اس زمانہ میں بہار کی کمان سنبھالی تھی جب اعلیٰ ذات کا کوئی شخص دلت یا پسماندہ بستی کو ایک ڈنڈے سے ہانک لیتا تھا۔ لالو پرساد نے سماجی انصاف کو فروغ دیا اور کمزور طبقات کو عزت کی زندگی گزارنا سکھایا۔ یہ منڈل کا زمانہ تھا ۔لالو جی نے حاشیہ پر زندگی بسر کرنے والوں کو ریزرویشن دے کر مین اسٹریم میں لانے کا کام کیا۔ اس سے جن طبقات کی بالا دستی ختم ہوئی، انہوں نے اپنا دبدبہ بنائے رکھنے کیلئے دلت اور کمزور طبقات کا قتل عام کیا اور بہار کی یہ تصویر پینٹ کرنے کی کوشش کی۔ 1990 کے بعد بہار میںاغوا نے کاروبار کا درجہ حاصل کر لیا تھا۔ سیاسی مبصرین طنزیہ اسے بنا پونجی کا روزگار بولتے تھے۔ مگر بہار فرقہ وارانہ کشیدگی سے محفوظ رہا، وہاں تیس سال پہلے ایسے جرائم نہیں ہوئے کہ لوگ نقل مکانی کیلئے مجبور ہو جائیں۔

لالو پرساد یادو نے نقصان میں رہنے والے ریلوے کو 90 ہزار کروڑ کا فائدہ دیا۔ ہر بجٹ میں انہوں نے ریلوے کا کرایہ کم کیا۔ وہ مینجمنٹ گرو کے نام سے بھی جانے گئے۔ ملک کے سب سے باوقار ادارے آئی آئی ایم احمدآباد نے اپنے طلبہ کو مینجمنٹ کے گور سکھانے کیلئے انہیں بلایا۔ لالو جی نے بہار کو چار ریل کارخانے اور سات یونیورسٹیاں دیں۔ ان کے ذریعہ بحال کئے گئے اساتذہ ہی اسکولوں میں پڑھا رہے ہیں۔ لالو کے دور کو جنگل راج بتانے اور کمزوروں پر ظلم کرنے والے لوگ آج این ڈی اے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اسی لئے غریبوں کا قتل عام کرنے والے گناہ گار ابھی تک نہیں پکڑے گئے۔ لالو کی پندرہ سالہ حکومت کو جنگل راج بتا کر جب نتیش کمار کے دور کو سوشاسن بتانے کی کوشش کی گئی تو ان کا مذاق اڑایاجانے لگا۔ تیجسوی یادو نے دی وائر کو دیئے اپنے انٹرویو میں جنگل راج کے سوال پر کہا کہ اس کا فیصلہ کرائم کے اعداد کی بنیاد پر ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ این سی آر بی یا پھر بہار سرکار کے اعداد وشمارکودیکھ لیجئے۔ جب سے بہار میں ڈبل انجن کی سرکار آئی ہے، تب سے یہاں ہر طرح کے جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔ چاہے عصمت دری ہو، اغوا، رنگ داری ہو، فرقہ وارانہ فساد ہو، ہجومی تشدد، قتل یا ڈکیتی سب کا گراف بڑھا ہے۔

دی ٹائمز آف انڈیا نے گزشتہ دنوں ایک سروے کرایا تھا۔ اس کے مطابق 1992 سے 2004 یعنی لالو راج کے بارہ سال میں اغوا کے 32 ہزار 85 معاملہ درج کئے گئے تھے۔ بہار پولس کی ویب سائٹ پر 2001 سے اگست 2020 تک ہوئے جرائم کے اعداد وشمار موجود ہیں۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق 2007 سے 2019 یعنی نتیش کمار کے 12 سالہ دور حکومت میں اغوا کے 83 ہزار 45 معاملہ درج ہوئے ہیں۔ بہار پولس نے اغوا کی دو قسمیں رکھی ہیں۔ ایک اغوا اور دوسری اغوا برائے تاوان۔ ان اعداد وشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ نتیش کمار کے زمانہ میں صرف اغواء کے معاملوں میں پونے تین گنا کا اضافہ ہوا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ جو بی جے پی بہار کے عوام کو ماضی کا ڈر دکھا رہی ہے، اسے مظفر پور بالیکا گرہ کا واقع دکھائی نہیں دیتا۔ نہ ہی اس کی زبان سے یوپی میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے بارے میں ایک لفظ نکلتا ہے۔ اسے گاندھی نگر میں اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کی راج دھرم نبھانے کی صلاح بھی یاد نہیں آتی۔ جس سے ان کی مراد تھی جمہوریت، آئینی قدروں کی حفاظت اور قانون کا راج۔ کسی بھی ریاست میں چلے جائیے یہ تینوں چیزیں غائب ہیں۔ اگر مودی جی کی جنگل راج والی بات مان بھی لی جائے تو لالو کے ہنومان کہے جانے والے رام کرپال یادو بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ کیوں ہیں۔ تب سے اب تک آر جے ڈی کے 17 بڑے لیڈروں کو بی جے پی نے اپنے ساتھ کیوں لیا؟

تیجسوی یادو مودی جی کی ہر ریلی سے پہلے بہار کے عام آدمی کی جانب سے کچھ سوال معلوم کرتے ہیں۔ جن کا جواب دینے کے بجائے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حال میں پوچھے گئے سوال اس طرح ہیں، نیتی آیوگ کی رپورٹ کے مطابق بہار تعلیم، صحت کے معیار اور ترقی کے انڈیکس میں سب سے پھسڈی ریاست ہے کیوں؟ ڈبل انجن کی حکومت میں کل بجٹ کا 4 فیصد پانی کی فراہمی اور سینی ٹیشن پر کیوں خرچ کرتی ہے؟ اس کا بھی 70 فیصد بدعنوانی کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ کوپوشن اور بھک مری پر کل بجٹ کا 2 فیصد کیوں خرچ ہوتا ہے؟ پندرہ برس سے این ڈی اے کی حکومت ہے پھر بہار میں بھک مری کیوں ہے؟ بہار بے روزگاری کا مرکز کیوں ہے۔ یہاں بے روزگاری کی شرح 46.6 فیصد کیوں ہے؟ من ریگاکے تحت کرائے گئے کام کی ادائیگی مزدوروں کو گزشتہ 4 ماہ سے کیوں نہیں کی گئی؟ اپریل سے اگست کے بیچ کل گیارہ لاکھ خاندانوں کو جوب کارڈ جاری کئے جانے کے باوجود صرف 2132 خاندان ہی سو دن کا کام پورا کر پائے کیوں؟ نتیش حکومت صرف دو فیصد ہی مہا دلت پر کیوں خرچ کرتی ہے؟ ایوشمان بھارت میں بہار کو ایک روپیہ بھی نہیں دیا گیا کیوں؟ 85 لاکھ آبادی سیلاب سے برباد ہوئی، اس کیلئے کچھ کیوں نہیں کیا گیا وغیرہ۔ ان سوالوں پر نتیش کمار کچھ نہیں بولتے جبکہ تیجسوی یادو بہار کو بہتر بنانے، آگے لے جانے اور اس کے مستقبل کی بات کر رہے ہیں۔ ان میں بہار کے لوگوں کو امید نظر آ رہی ہے۔ اس لئے بیشتر لوگ بدلاؤ کی بات کر رہے ہیں۔

اس الیکشن میں بہار کے عوام یہ سمجھ چکے ہیں کہ بڑبولے لیڈران صرف اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا عام آدمی سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اس لئے وہ جذباتی، غیر مدوں کے بجائے روزی روزگار، تعلیم، صحت اور عزت کے ساتھ زندگی گزارنے کے سوالوں کو اہمیت دے رہے ہیں۔ ایسی خبریں مل رہی ہیں کہ دوسرے دور میں 17 اضلاع کی 94 سیٹوں پر ہونے والی پولنگ میں مدوں کی بنیاد پر ووٹ ڈالے گئے۔ ذاتوں کا خیال رکھتے ہوئے بھی ذاتوں کے بندھن کو بدلاؤ کیلئے توڑا گیا۔ بے روزگاری، نقل مکانی سے نجات اور بہتر بہار بنانے کا خواب سب پر حاوی رہا۔ اگر بہار یہ پیغام دینے میں کامیاب ہوتا ہے کہ سیاست دانوں کے کھوکھلے وعدے نہیں بلکہ مفید، بامقصد کام الیکشن کا رخ طے کریں گے تو یہ سب سے بڑے جمہوری ملک کی سب سے اچھی جمہوریت بننے کی شروعات ہوگی۔ جس سے نہ صرف بہار بدلے گا بلکہ اس کا اثر پورے ملک میں دکھائی دے گا۔ (یو این این)