ممبئی حملے، 26/11: کیس کے پراسیکیوٹر کا قتل نامکمل ٹرائل کے بارہ سال

Taasir Urdu News Network | Mumbai (Maharashtra)  on  26-November-2020

ممبئی:21  نومبر 2008 کی شام ڈھلتے ہی 10 نوجوانوں کو عزیز آباد کراچی سے 100 میل کے فاصلے پر ضلع ٹھٹہ میں واقع کیٹی بندرپورٹ کے قریب ایک گھر میں لایا گیا جہاں انھیں مبینہ ’مشن‘ کی تفصیل سے آگاہ کیا گیا۔ یہ نوجوان کئی ماہ کی مبینہ ٹرینگ کے بعد اب ‘مشن’ کی تکمیل کے لیے تیار تھے۔ممبئی حملوں میں زندہ بچ جانے والے حملہ آور اجمل قصاب (جنھیں بعد میں پھانسی دے دی گئی تھی) کے اعترافی بیان کے مطابق اگلے ہی روز یعنی 22 نومبر کو ان نوجوانوں کو مختلف اہداف کے نقشے اور اْن کے متعلق آخری بریفنگ دی گئی اور اسی روز شام سات بجے انھیں کیٹی بندر پر موجود ایک بڑی کشتی میں پہنچایا گیا جہاں سے ان کا وہ سفر شروع ہوا جس سے وہ کبھی واپس نہ لوٹے۔انڈیا کا دعویٰ ہے کہ یہی وہ مقام تھا جہاں اپنی منزل کی بابت راہنمائی کے لیے مبینہ حملہ آور اپنا جی پی ایس بھی آن کر لیتے ہیں۔سابق ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے طارق کھوسہ نے ڈان اخبار میں مارچ 2015 میں چھپنے والے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا کہ ٹھٹہ ہی وہ مقام تھا جہاں پر ممبئی حملہ آوروں کو تربیت دی گئی اور یہیں سے انھیں مشن کے لیے روانہ کیا گیا۔دوسری طرف ان دس حملہ آوروں کی شناخت ابھی تک متنازع رہی ہے کہ آیا یہ پاکستانی تھے بھی یا نہیں کیونکہ پاکستان اجمل قصاب کے اعترافی بیان کو درست تسلیم نہیں کرتا۔پاکستان کے دعوے کے مطابق پاکستانی تفتیش کاروں کو کبھی بھی اجمل قصاب تک رسائی نہیں دی گئی جس سے اس کے اعترافی بیان کی حقیقت معلوم ہو سکتی۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کا یہ موقف بھی ہے کہ انڈیا نے مرنے والے دیگر نو حملہ آوروں کی تفصیلات بھی کبھی پاکستان کو فراہم نہیں کیں جس کے بعد نادرا اور دیگر ذرائع سے ان کے پاکستانی ہونے کے دعوے کی تصدیق ہو پاتی۔اس وقت کے وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے 12 فروری 2009 کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ ممبئی دھماکوں میں ملوث حملہ آور پاکستان سے ہی انڈیا گئے تھے لیکن ان کے پاس ان کی شناخت اور خاندان کی تفصیلات دستیاب نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ حملہ آور کراچی سے ایک کشتی پر روانہ ہوئے تھے جو بلوچستان سے منگوائی گئی تھی۔انھوں نے کہا کہ ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ حملہ آور ٹھٹہ، سندھ سے سمندر کے راستے انڈیا گئے لیکن اس کی ابھی تفتیش ہونی ہے کہ وہ وہاں (ممبئی) تک کیسے پہنچ گئے۔پاکستان کے انتہائی مطلوب دہشت گردوں کے متعلق حال ہی میں چھپنے والی ایف آئی اے کی ریڈ بک میں ان ملزمان کی مکمل تفصیل موجود ہے جو سنہ 2008 میں ہونے والے ممبئی حملہ کیس میں مطلوب ہیں۔بی بی سی نے اس ریڈ بک تک رسائی حاصل کی ہے۔ یہ ملزمان ممبئی حملہ کیس میں مجرمانہ سازش، دہشت گردوں کی مالی اور لاجسٹک مدد اور اعانت جرم جیسے الزامات میں مطلوب ہیں اور پچھلی ایک دہائی سے مطلوب دہشت گردوں کی اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے لیکن آج تک پاکستان کے تفتیش کار یا ادارے انھیں ایک بار بھی پکڑنے سے قاصر رہے ہیں۔اجمل قصاب کے اعترافی بیان کے مطابق سمندر میں چند گھنٹے سفر کرنے کے بعد تقریباً رات نو بجے کے قریب ان حملہ آوروں کو ’الحسینی‘ نامی چھوٹی کشتی میں منتقل کیا گیا اور اسلحہ، کھانے پینے کی اشیا، لائف جیکٹس اور دیگر ساز و سامان سے بھرے بیگز بھی مہیا کر دیے گئے جہاں سے ان کا بڑے معاشی مرکز اور دو کروڑ آبادی والے انڈیا کے سب سے بڑے شہر ممبئی پر حملہ کرنے کے لیے باقاعدہ سفر کا آغاز ہوا۔اجمل قصاب کے اعترافی بیان کے مطابق اگلے روز یعنی 23 نومبر کو دن بارہ بجے انھوں نے مچھلیاں پکڑنے والی انڈین کشتی ‘ایم وی کوبر’ کو اغوا کیا اور اس میں سوار پانچ افراد میں سے چار کو قتل کر کے کشتی کے کپتان امرسنگھ سولنکی کو زندہ چھوڑ دیا۔الحسینی کشتی سے سارا سامان اس میں منتقل کرنے کے بعد امر سنگھ کو کہا گیا کہ وہ کشتی چلاتے رہیں اور انھیں ان کی منزل پر لے چلیں۔ طارق کھوسہ کے آرٹیکل کے مطابق الحسینی کشتی کو بعد میں پاکستانی تفتیش کاروں نے اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔اجمل قصاب کے اعترافی بیان کے مطابق 26 نومبر 2008 کی سہ پہر چار بجے کے قریب یہ دس حملہ آور انڈیا کی سمندری حدود میں داخل ہوگئے جس کے بعد ہدایات کے مطابق کشتی کے کپتان امر سنگھ سولنکی کو بھی قتل کر دیا گیا اور باقی سفر ان لوگوں نے جی پی ایس کی مدد سے خود طے کیا۔26 نومبر کو رات آٹھ بج کر 20 منٹ پر یہ لوگ ساحل پر واقع مچھیروں کی ایک بستی بدھوار پارک کے قریب اترے اور اپنے اپنے اہداف کی طرف روانہ ہو گئے۔اجمل قصاب کے اعترافی بیان کے مطابق 10 حملہ آوروں کو دو، دو کے پانچ گروپس میں تقسیم کیا گیا تھا اور اسماعیل خان ان سارے حملہ آور گروپس کا لیڈر تھا اور اس کے ساتھ دوسرا حملہ آور اجمل قصاب ہی تھا۔یہ دونوں ٹیکسی پر بیٹھ کر نو بج پر 20 منٹ کے لگ بھگ انڈیا کے سب سے مصروف ریلوے سٹیشن ‘سی ایس ٹی’، جہاں انڈیا کی سینٹرل ریلوے کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے، پہنچے اور ہینڈ گرنیڈز اور اے کے 47 رائفلوں سے حملہ کر دیا۔اس سٹیشن سے لگ بھگ 35 لاکھ مسافر روزانہ سفر کرتے ہیں۔ اس حملے کے نتیجے میں یہاں 58 لوگ مارے گئے اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ اسماعیل خان اور اجمل قصاب نے اس کے بعد کوما ہسپتال پر حملہ کیا جہاں متعدد لوگوں کو قتل اور زخمی کرنے کے بعد گرگاؤم چوپاٹی پر پولیس کے ساتھ مٹھ بھیڑ میں اسماعیل خان مارے گئے جبکہ اجمل قصاب کو زخمی حالت میں زندہ گرفتار کر لیا گیا۔اسی رات دس بجے کے قریب عبد الرحمٰن اور فہد انامی حملہ آوروں نے اوبرائے ٹرائیڈینٹ ہوٹل پہ حملہ کیا جہاں 33 لوگوں کو قتل اور متعدد کو زخمی کیا گیا۔دس بج کر 25 منٹ پر ایک یہودی سینٹر ’نریمان ہاؤس‘ پر بابر عمران اور نذیر نامی حملہ آوروں نے حملہ کیا اور چار افراد کو قتل اور متعدد کو زخمی کیا۔ لیوپولڈ کیفے اور بار پر حافظ ارشد اور نصیر نامی افراد نے حملہ کیا جہاں 10 لوگ مارے گئے۔اسی طرح شعیب اور جاوید نے تاج ہوٹل پر حملہ کیا جہاں بعد میں حافظ ارشد اور نصیر نامی حملہ آوروں نے بھی انھیں جوائن کر لیا۔ تاج ہوٹل پر حملے کے نتیجے میں 32 افراد ہلاک ہوئے اور متعدد زخمی۔منصوبے کے مطابق کئی جگہوں پہ حملہ آوروں نے لوگوں کو یرغمال بنا لیا تھا اس لیے انڈیا کی نیشنل سکیورٹی گارڈز کو نئی دہلی سے بلا لیا گیا۔ ممبئی حملہ 26 نومبر کی رات نو بج کر 15 منٹ پر شروع ہوا اور تین روز تک چلتا رہا جب انڈین فورسز نے آپریشن کے نتیجے میں 29 نومبر کی صبح نو بجے تک تمام حملہ آوروں کو مار کر اس آپریشن کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔اس حملے کے نتیجے میں 26غیر ملکیوں سمیت 166 لوگ ہلاک ہوگئے اور 300 کے قریب زخمی بھی ہوئے۔