پنڈت جواہر لال نہرو اور آج کی نوجوان نسل

Taasir Urdu News Network | Uploaded  on 13-November-2020

جواہر لال نہرو 14 نومبر 1889ء میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام موتی لعل نہرو تھا جو دوبار کانگریس کے صدر رہ چکے ہیں۔وہ 1947ء سے 1964ء تک بھارت کے وزیر اعظم رہے۔ بھارت میں جمہوری نظام کو مستحکم کرنے میں ان کا کردار ہے۔جواہر لعل نہرو کی وفات 27 مئی 1964ء میں ہوئی۔ جواہر لال نہرو نے ہندوستان میں سوشلسٹ نظام حکومت قائم کرنے کے لئے مستحکم سیاسی اور معاشی نظام کواولیت دی ۔انہوں نے غربت ،بیروزگاری ،توہمات ،قدامت پرستی ،جہالت اور ناداقفیت کی لعنتوںکے خلاف تمام عمر جہاد کیا۔ان کی نظر میں یہ لعنتیں قوم اورملک کی سب سے بڑی دشمن تھیں ۔عوام کے لئے سماجی انصاف اسی وقت ممکن ہے جب تک صالح منصوبہ کی بنیاد پر معاشی نظام نہ قائم ہو جائے۔ جواہر لال نہروجنھوں نے برطانیہ کی اعلیٰ ترین درس گاہ میں تعلیم حاصل کی تھی جہاں انہوں نے مسائل کے سمجھنے کا سائنٹفک انداز سیکھا تھا لیکن یورپ سے تعلیم حاصل کر کے جب وہ وطن واپس آئے تو انہوں نے ہندوستانی روایات کومسمار کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ ہندوستانی روایات کے سہارے ہندوستانی سوشلزم کو جنم دیا ۔قومی منصوبہ بندی کمیشن ان کے خوابوں کی تعمیل کا ایک وسیلہ تھا۔

صلح دآشتی امن وامان ان کے لئے بہت اہم تھا ۔ان کی نظر میں بد نظمی اور نراج ملک کے سب سے بڑے دشمن تھے۔معاشی استحکام بد نظمی اور نراج کے ماحول میں ناممکن ہے۔گوتم ،نانک،کبیر اور صوفیوں کے وطن ہندوستان میں انہونے نا مزہبی جمہوری روایات کو قائم کیا ۔حکومت کو مزہب سے الگ رکھا ۔بینالاقوامی سطح پر غیر جانبداری کو انہوں نے اپنا یا یورپ کے بڑے بڑے ملک جب جنگی سمجھوتے کر رہے تھے تو انہوں نے غیر جانبدار ملکوں کی تنظیم کی تشکیل کی ۔ان کی اس تنظیم میں ایشیا اور افریقہ کے وہ ممالک شامل ہوئے ۔جنھوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعدیورپی ممالک کی غلامی سے نجات پائی تھی یا اپنے ملکوںسے سرمایہ دارانہ اور آمرانہ نظام حکومت ختم کیا تھا۔

ہندوستان جہاں مختلف مزہب کے ماننے والے اورمختلف زبانیں بولنے والے رہتے ہیں۔ ہندوستانی ہونے کے با وجود بھی جن کی ہندوستانی روایات کے علاوہ علاقائی تہذیب اور روایات بھی ہیں جواہرلال جی نے قومی سا لمیت کے لئے نامذہبی حکومت قائم کی۔ ترقی پزیر ممالک کی ترقی کے لئے جنگوں سے اور جنگی بہادروں سے کنارہ کشی کی اہمیت کو انہوں نے محسوس کیا وہ صرف ہندوستان کے سرحدی ممالک سے ہی امن اور دوستی کے متمنی ہی نہ تھے وہ عالمی امن کے علمبردار بھی تھے۔وہ جانتے تھے کے سر حدوں کی حفاظت صرف غیر جانبداری کے حربے سے ممکن ہے۔

جواہرلال نہرو کے خوابوں کی تکمیل پوری دلجوئی اور لگن کے ساتھ نہ ہو سکی ۔اس کے بہت سے اسباب ہو سکتے ہیںعوام کی توقعات اس حد تک پوری نہ ہو سکیں ۔جہاں تک وہ چاہتے تھے ایک پوری نسل جو آزاد ی کے بعد جوان ہوئی جن کے شعور کی تشکیل آزاد ہندوستاں میں ہوئی ۔یہ وہ لوگ ہیں جن کو یہ احساس نہ ہے کہ ملک کے آزاد کرانے میں ان کے اسلاف کا کیا کردار رہا ہے ۔وہ جنگ آزادی کے سورما تھے ان کی قدریں اس نسل سے بلکل مختلف ہیں جس نے برطانی حکومت کہ خلاف جنگ کی تھی ۔اج کی نسل اپنا حق تو مانگنا جانتے ہیں لیکن ان کو نہیں معلوم کہ ملک اور قوم کو انہیں کیا دینا ہے۔ہو سکتا ہے کہ وہ سوچتے ہوں کی اس کی ذمہ داری ان پر نہ ہو۔اسکے گناہ گار پرانی نسل کے لوگ بھی ہیں جو نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن کو سمجھنے سے قاصر ہوں۔

کسی بھی ملک کا سب سے بڑا سرمایہ اس کے نوجوان ہیں،جواہر لال نہرو کے ہندوستان کو بھی اپنے نوجوانوں سے بہت امیدیں وابستہ ہیں۔نوجواں نسل ہی اس گلے سڑے معاشررے اور سماج کو سودھار سکتی ہے ، موجودہ دور میں نوجوان اور خاص طور سے پڑھے لکھے نوجوان قنوطیت اور یاسیت کا شکار ہیں ان کے دلوں کی دھڑکنوں کی آواز نہ سننا حقائق پر پردہ دالنے کے مترادف ہے۔آج کا نوجوان خوابوں اور موبائل کی دنیا میں ہی کھویارہتا ہے۔ایک آئند مستقبل کی امید میں رہتا ہے ۔اور بہت دنوں تک زمانے کے سردوگرم کو برداشت نہیں کر سکتا ہے۔موجودہ دور کے انسانوں نے دنیا میں زندگی گزارنے کا معیار اس قدر بلند کردیا ہے کے حقیقی زندگی میں نوجوان نصل کے لئے ضروری ہے کہ ماضی کی غلطیوں کومستقبل میں نہیں دہرایں اور وقت کی قدر کرتے ہوئے اپنا مستقبل روشن بنائیںکیوں کہ ملک کی ترقی کا انحصار نوجواں نسل پر ہی ہے۔

غیر ملکی آقائو کے تر تیب دیئے ہوئے نصاب کو بدلنا ہوگا۔تعلیم کا مطلب دفتر وں میں کلرکی کرنا نہیں ہے۔نوجوانوں کی تربیت اس طرح کرنا ہوگا کہ ان کو احساس پیدا ہو کہ وہ وطن اور قوم کہ لئے سوچے۔اپنے ہاتھو ں کی طاقت اور ذ ہن کی صلاحیت سے سارے حلات قابو میں کرے ۔کی بے پناہ صلاحیتوں کی اس وقت ملک اور قوم کو زیادہ ضرورت ہے۔وہ اگ میں کود سکتے ملک سے فرقہ پرستی کی لعنت کو ختم کر سکتے ہیں۔ ذات پات اور زبان کے جھگڑوں کو ختم کر سکتے ہیں۔ہر کام میں انکا تعاون ضروری ہے۔

نوجوانوں کی ناراضگی کا ایک سبب یہ بھی ہے قومی زندگی کے ہر شعبے پر مفاد پرستوں کا غلبہ ہے ،یہ مفاد پرست چاہتے ہیں کہ اس ملک کا نوجوان اپنی طاقت اور صلاحیت کو ضائع کرتا رہے اور ان کو ذات پات اور زبان کے جھگڑوں میں الجھے رہیں اور وہ ہندوستان میں میں اپنے حق سے زیادہ فیض اٹھا تا رہے۔ جواہر لال نہرو کے یوم پیدائش پر ایک بار پھر اس بات کی ضرورت ہے کہ سنجیدگی سے فرسودہ سماجی اور معاشی نظام کو بدلنے کے لئے مضبوت قدم اٹھا ئے جائیں۔ایک ایسی مسینری کی تشکیل کی جائے جو جوانوں میں ملک اور قوم کی خدمت کا وہ جزبہ پیدا کریں جو ان کے بزرگوں میںتھایہ ذمہ داری پرانی نسل کی ہے ۔اگر پرانی نسل جوانوں میں یہ جزبہ پیدا کرنے میں کا میاب ہو جاتی ہے تو جواہر لال جی کو یہ سب سے بڑاخراج عقیدت ہوگا۔