زرعی قوانین:مسئلہ اور حل

Taasir Urdu News Network | Uploaded  on  14-December-2020

زرعی شعبے میں لائے گئے تین اصلاحی قوانین کے خلاف آج ملک کا کسان سڑکوں پر اتر چکاہے۔ان کسانوں کو خدشہ ہے کہ ان قوانین کی آڑ میں حکومت ایم-ایس-پی پر فصلوں کی سرکاری خرید اور موجودہ منڈی نظام سے پلا جھاڑ کر زراعت بازار کی نجی سازی کرناچاہتی ہے۔سرکار کا موقف یہ ہے کہ ان تینوں قوانین سے زراعتی اشیاء کی فروخت کے لیے ایک نیا متبادل نظام تیار ہوگا جو موجودہ منڈی اور ایم-ایس-پی نظام کے ساتھ ساتھ چلتارہے گا۔اس سے کسانوں کی آمدنی میں اضافہ ہوگا۔پہلا قانون:کسانوں کو طے شدہ منڈیوں کے علاوہ بھی اپنی زرعی اشیا کو کہیں بھی فروخت کرنے کی رعایت دی گئی ہے۔حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس سے کسان منڈیوں میں ہونے والے استحصال سے بچیں گے۔کسانوں کی فصلوں کے زیادہ خریدار ہوں گے اور ان کی فصلوں کو اچھی قیمت ملے گی۔دوسراقانون: معاہدہ زراعت سے متعلق ہے جوبونے سے پہلے ہی کسانوں کو اپنی فصل طے شدہ معیاراور قیمت کے مطابق فروخت کرنے کا معاہدہ کرنے کی سہولت دیتاہے۔تیسرا قانون:لازم اشیاقانون میں ترمیم سے متعلق ہے جس سے غلہ،خوردنی تیل،تلہن،دلہن،آلو اور پیاز سبھی زراعتی پیداوار اب حکومت کے اختیار سے مستثنیٰ ہوں گی۔ان پر کچھ خصوصی حالات کو چھوڑ کر اسٹاک کی حد بھی مقرر نہیں کی جائے گی۔

بہر حال ان تمام دعوؤں کے باوجود کسانوں کے شبہات اور خدشات کودور کرنے میں حکومت اب تک ناکام رہی ہے۔حکومت نے اگر یہ قوانین زرعی ماہرین اور کسان تنظیموں سے مشورہ کرکے بنائے ہوتے تو یہ حالات نہ پیدا ہوتے ابھی منڈیوں میں فصلوں کی خرید پر ۸ء ۵ فیصد پر ٹیکس لگایاجارہاہے لیکن اس نظام میں منڈیوں کے باہر کوئی ٹیکس نہیں ملے گا۔اس سے منڈیوں سے تجارت باہر جانے اور کچھ دنوں بعد منڈیاں بند ہونے کاخدشہ بے بنیاد نہیں ہے ۔لہٰذا نجی اورسرکاری منڈی دونوں ہی نظاموں میں ٹیکس کے بندوبست مساوی ہونے چاہیے۔کسان نجی زمرے کے ذریعے بھی کم سے کم ایم-ایس-پی پر

فصلوں کی خرید کی قانونی گارنٹی چاہتے ہیں ۔ایم -ایس -پی سے کم فصلوں کی خریدقانونی طور پر ممنوع ہونی چاہیے ۔کسانوں کا مطالبہ ہے کہ تنازعہ حل کرنے کیلئے اُنہیں عدالت جانے کی بھی چھوٹ ملنی چاہیے۔سبھی زرعی اشیاء کے تاجروں کارجسٹریشن لازمی طور پر کیاجاناچاہیے۔چھوٹے موٹے کاشتکاروں کے حقوق اورزمین کے مالکانہ حق کا پختہ تحفظ ہوناچاہیے۔آلودگی قانون اوربجلی ترمیم بل میں بھی مناسب بندوبست کرکے کسانوں کے حقوق کی حفاظت کی جانی چاہیے۔

اس طرح ایم-ایس-پی سرکاری خرید کابندوبست کاشتکاروں کی زندگی کی لکیرہے۔جن لوگوں کا یہ کہناہے کہ ایم-ایس-پی کو نجی زمرے میں پابند نہیں بنایا جاسکتا۔ اُنہیں گنے کے اقتصادی نظام کو سمجھنا چاہئے۔ گنے کی شرح کا اعلان حکومت کرتی ہے اور اسی شرح پر نجی چینی ملیں کا شتکاروں سے خریدتی ہیں۔چینی ملیں بھی طرح طرح کے پیکج حکومت سے لیتی رہتی ہیں۔چینی ملوں سے چینی کی فروخت کی کم ترین شرح کا اعلان بھی حکومت نے کیا ہوا ہے۔اسی طرح مزدوروں کا استحصال روکنے کیلئے سرکارکم ترین مزدوری شرح کا اعلان کرتی ہے ،سرکاراپنے ٹیکس کے تحفظ کیلئے زمینوں کی کم ترین فروخت قیمت اورسیکٹرریٹ طے کرتی ہے ۔ ایسی تمام مثالیں ہیں جہاں عوام اورطبقے کے مفاد میں سرکاری چیزوں یاخدمات کی قیمت طے یا کنٹرول کرتی ہے توکسانوں کے اقتصادی تحفظ کیلئے فصلوں کی کم سے کم قیمت طے کرنے کی بھی کوئی راہ ضرور تلاش کی جاسکتی ہے۔

صورت حال یہ ہے کہ حکومت اورکسان تنظیموں کے بیچ پانچ مرتبہ مذاکرات ہوچکے ہیں لیکن ابھی تعطل قائم ہے۔ کاشتکاروں کی تنظیموں نے چہارشنبہ(بدھ۹؍دسمبر) ہونے والے چھٹی مرتبہ کے مذاکرے کو امت شاہ سے ۸؍دسمبر کو غیررسمی بات چیت کے ناکام ہونے کے بعد منسوخ کردیاتھا ۔حکومت کسانوں کے مطالبے کے مطابق زرعی قوانین میں ترمیم کرنے کا تیار ہے جبکہ کسانوں کا کہناہے کہ سرکار پہلے موجودہ زرعی قوانین کو پوری طرح منسوخ کرے اورپھران کے مطالبات کے مطابق نیا مسودہ تیار کرے جسے کسان گہرائی سے جائزہ لیکر منظوری دیں۔۸؍دسمبر کو کسانوں نے ان قوانین کے خلاف’ بھارت بند‘ کا اعلان کیاتھا۔اِس بند سے لازمی خدمات اورتاجروں کو مستثنیٰ کردیاگیاتھا۔ کسانوں کے احتجاج کی حمایت میں سماجی وسیاسی تنظیموں نے پھرپورشرکت کی اورنظامِ زندگی جزوی طور پر متاثرہوئی ۔ کسانوں کا یہ ایک روزہ ملک گیر ’بھارت بند‘ صبح ۱۱؍بجے سے سہ پہر ۳؍بجے تک تھا تاکہ آفس آنے جانے میں کسی کو دقت نہ ہو ۔ پنجاب،ہریانہ،دہلی،راجستھان،مدھیہ پردیش،اُڈیشہ، مہاراشٹرا ،بہار،تلنگانہ،آندھرا پردیش،تمل ناڈو،مغربی بنگال،پینڈوچیری اورکیرالہ میں بند کا اثر صاف نظرآیاجبکہ اترپردیش میں ملا جلا نظارہ دکھا۔الہ آباد میں سماجوادی پارٹی کے کارکنان نے ٹرین روک دی ۔بھارت بند کے پیش نظر اترپردیش کی راجدھانی لکھنؤ کے دیہی علاقوں میں دفعہ 144نافذ کردی گئی تھی ۔بس ایک اچھی بات یہ ہے کہ حکومت نے ماضی کے دوسرے قوانین کی طرح اس معاملے میں اڑیل رویہ نہیں اختیار کیاہے حکومت نے ۹؍دسمبر کو بھی کسانوں کومذاکرے کیلئے بلایاتھا اوروزیرداخلہ امت شاہ نے ۸؍دسمبر کو کسان نمائندوں سے غیررسمی گفتگو کی تھی جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلاتھا۔ بظاہر مرکزی حکومت کسانوں کی ہرشکایت پر غور کرنے کو تیار ہے لیکن اس کا موقف یہ ہے کہ موجودہ زرعی قوانین میں ترمیم ہوسکتی ہے لیکن اسے منسوخ نہیں کیاجاسکتا۔

کسان تنظیموں نے حکومت کی تجاویز کو مسترد کردیا ۔ آل انڈیا کسان سنگھرش کوآرڈی نیشن کمیٹی نے واضح کیاہے کہ کسانوں کے مسئلے کو حل کرنے کے بارے میں مودی حکومت کا رویہ غیرسنجیدہ اورمتکبرانہ ہے۔ حکومت کے ذریعے پیش کی گئی تجاویز میں ریاسی حکومتیں نجی منڈیوں پر بھی فیس لگاسکتی ہیں ، ریاستی حکومتیںمنڈی کے تاجروں کے رجسٹریشن کو لازمی قرار دے سکتی ہیں،کاشتکاروں کو بھی عدالت میں جانے کا اختیار دیاجائے گا،معاہدے کے اندر رجسٹری ہوگی، کنٹریکٹ قانون میں واضح کیاجاناہے کہ کسان کی زمین یاعمارت پر قرض یا رہن کا وعدہ نہیں کیاجاسکتا، کسان کی آراضی قرق نہیں نہیں ہوسکے گی اورحکومت ایم-ایس -پی کی موجودہ خریداری انتظام کے حوالے سے تحریری یقین دہانی کرائے گی ۔ بجلی بل ابھی ڈرافٹ ہے اوراین-آر-سی میں آلودگی کے قانون پر کسانوں کے اعتراضات کو حل کیاجاناشامل ہے۔کسانوں نے اپنی تحریک کے سلسلے میں جو اگلے اقدام واضح کیے ہیں ان میں دہلی -جے پورشاہ راہ اوردہلی آگرہ ایکسپریس وے کو بندکرنا ، ایک دن کیلئے ملک بھر کے ٹول پلازا کو فری کرانا ،بی -جے -پی کے جتنے وزراء ہیں ان کاگہراؤ کرنا اورمکمل طور پر بائکاٹ کرنا ، پنجاب،ہریانہ،اترپردیش،راجستھان اورمدھیہ پردیش میں دھرنا دینااور اڈانی اورامبانی کے خلاف تحریک چلاناشامل ہے۔کسانوں نے واضح الفاظ میں ’جی-او‘کومکمل بائکاٹ کرنے کااعلان کیاہے۔

جمہوریت کا تقاضہ ہے کہ حکومت کو ہر قانون اُس سے متاثرہ عوام اور قانون کے ماہرین سے مشورہ کرکے بناناچاہیے۔ لیکن اگرماضی پر نظرڈالی جائے تو پتہ چلے گا کہ چاہے وہ نوٹ بندی ہو،جی-ایس-ٹی ہو،سی-اے-اے ہو،تین طلاق ہو،’لوجہاد‘ہویازرعی قوانین ہوںکسی معاملے میں کسی سے مشورہ نہیں کیاگیا۔شاید وزیراعظم موصوف نے یہ سمجھ لیاہے کہ مشورہ کرنے سے اُن کا قد کم ہوجائے گالیکن حقیقت یہ نہیں ہے ۔ اگرکوئی انسان کسی سے مشورہ کرکے اپنے کاموں کوانجام دیتاہے تواس سے پتہ چلتاہے کہ اس کانظریہ جمہوری ہے اوروہ باوقار شخصیت کا مالک ہے۔متنازعہ زرعی قوانین واپس لینے سے حکومت کاوقار کم نہیں ہوگا بلکہ اس سے جمہوریت کے جذبے کو فروغ ملے گا۔حکومت نے جس طبقے کے مفاد کیلئے ان قوانین کو بنایاہے جب وہی اس سے مطمئن نہیں ہے اورزرعی ماہرین اورقانون کے ماہرین ہی جب اس کی کمیوں کواجاگر کرہے ہیں توانہیں واپس لینے میں کیاقباحت ہے؟امید ہے کہ حکومت کسانوں کے مطالبات کا تجزیہ کرکے کوئی مناسب فیصلہ کرے گی تبھی موجودہ تعطل ختم ہوپائے گا۔