آپ کی دعا قبول نہیں ہوگی ! کیوں ؟

Taasir  Urdu  News  Network  |  Uploaded  on  28-January-2021

موجودہ مسلم معاشرے کا حال یہ ہے کہ اس کو شریعت کے احکام جاننے اور ان پر عمل کرنے کا شوق اور فکر نہیں ہے،لیکن یہ کیجئے ، وہ مت کیجئے کہنے اور فتویٰ دینے کا شوق حد سے زیادہ ہے۔کیا پڑھے لکھے اور کیا ان پڑھ سب مفتی اور قاضی بنے ہوئے ہیں۔دین و شریعت کے احکام کی تعلیم و تلقین کی پروا نہیں ہے لیکن دعا مانگنے کی تاکید اور ’’دعا کی درخواست ہے‘‘کہنا ایک رواج بن چکا ہے۔ان نادانوں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ دعا کا فلسفہ کیا ہے ؟ اللہ کیسے لوگوں کی دعائیں قبول کرتا ہے اور کیسے لوگوں کی دعائیں قبول نہیں کرتا ہے۔اللہ سے دعا ڈائرکٹ کرنی ہے یا کسی بزرگ اور ولی کے وسیلے سے کرنی ہے۔

اے نبی! تم چاہے ان کے لئے مغفرت کی دعا کرو یا نہ کرو، ان کے لئے یکساں ہے، اللہ ہر گز انہیں معاف نہیں کرے گا۔ (منافقون:۶)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ کن لوگوں کے بارے میں کہہ رہا ہے کہ نبی ان کے لئے مغفرت کی دعا کریں گے تب بھی اللہ تعالیٰ ان کی بخشش نہیں کرے گا ؟ یہ وہ منافقین ہیں جن کو اللہ اور رسول سے زیادہ اپنی دنیا کی دولت، شان و شوکت،مقام و مرتبے پر فخر و غرور تھا۔یہ اللہ اور نبیﷺ کی باتوں کی پروا نہیں کرتے تھے نہ سچے دل سے ان پر عمل کرتے تھے۔بلکہ اپنی کوششوں سے نبیﷺ کو ناکام بنانے کی کوشش کرتے تھے۔سورۂ منافقون شروع ہی اس بات سے ہوتی ہے کہ ’’

آج دنیا بھر میں مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت دین و شریعت کے احکام سے ناواقف اور غافل ہے۔منکر و مشرک قوموں جیسی زندگی گزار رہی ہے۔باطل پرستوں کی ساری خرابیاں آج مسلمانوں کے اندر پائی جاتی ہیں۔کیا ایسے لوگوں کی عبادتیں اوردعائیں قبول ہوں گی ؟

اے نبیﷺ کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاںاور تمہارے عزیز و اقارب اور تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں،اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو خو ف ہے اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ پیارے ہیں تو انتظار کرو ، یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے ۔ اور اللہ فاسق لوگوں کو سیدھی راہ نہیں دکھایا کرتا۔(توبہ:۲۴)

ہدایت یعنی سیدھے راستے کو جاننا سمجھنا اور اس پر چلنا یہی اصل اسلام ہے۔ہدایت کی دولت کسی انسان کی صرف اپنی کوشش سے اس کو نہیں مل سکتی ہے۔اللہ جب تک رحم نہ فرمائے اور کسی کو ہدایت دینے کا فیصلہ نہ کرے کوئی آدمی عالم اور حافظ بن کر بھی ہدایت سے محروم رہ سکتا ہے۔کہا جا رہا ہے کہ جن لوگوں کو اللہ کے دین اور شریعت سے زیادہ اُن کی دنیا داری پیاری ہے،اُن کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا۔اس وقت مسلم ملت کے مذہبی قائدین تقریباً سب کے سب باطل پرستوں کے خیمے کے نیچے پناہ لئے ہوئے ہیں۔جو لوگ اسلام کے دشمن بنے ہوئے ہیں اور نہیں چاہتے کہ مسلمان شریعت کے پابند ہو کر زندگی گزاریں،ان سے ان مذہبی جماعتوں کا میل جول اور یارانہ ہے۔مذہبی جماعتوں کے قائدین مسلمانوں کو دین سکھانے اور ان کے شرعی حقوق کی حفاظت کرنے اور خدا اور رسولﷺ کو راضی کرنے کی جگہ سیاسی آقاؤں کی خوش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔پٹنہ کے ایک بڑے آدمی نے ایک دن اخبار میں ایک صفحہ کا اشتہار چھپوایا تھا اور اس میں لکھاتھا ’’مسلم قائدین کب تک سیاسی آقاؤں کے تلوے چاٹتے رہیں گے۔‘‘ غور کیجئے ایسے مذہبی رہ نماؤں کی دعائیں اور عبادتیں جب قبول نہیں ہو سکتی ہیں تو عام مسلمانوں کا کیا پوچھنا جو منکروں اور مشرکوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔

اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لئے پیدا کیا ہے،ان کے پاس دل ہیںمگر وہ ان سے سوچتے نہیں، ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں،ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے،یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں(الاعراف:۱۷۹)

اس آیت میں ایک ایسی بات بتائی جا رہی ہے جو عام طور پر لوگ نہیں جانتے ہیں۔صرف وہی لوگ جانتے ہیں جو قرآن کو شوق اور دلچسپی کے ساتھ پڑھتے ہیں اور اس کی باتوں کوسمجھنے اور ان پر عمل کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔کہا جار ہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگ بھی پیدا کئے ہیں جن کو جہنم میں ہی جانا ہے۔وہ جنت میں نہیں جائیں گے۔کون لوگ جہنم کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور کون لوگ جنت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں یہ بات اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے۔نبی ﷺ جب دین کی دعوت اپنی قوم کو دے رہے تھے تو چاہتے تھے کہ سب لوگ ایمان لے آئیں اور جنت کے حقدار بن جائیں۔جو لوگ نبیﷺ کی بات نہیں سنتے اور مانتے تھے تو نبیﷺ کو ان کے انجام پر بہت زیادہ صدمہ اور افسوس ہوتا تھا۔اللہ تعالیٰ اپنے نبیﷺ کو سمجھا جارہا ہے کہ آپ ان لوگوں کے لئے کیوں پریشان ہو رہے ہیں؟ آپ ہزار کوشش کر لیجئے ،یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔ہم نے ان کو دل دیا ہے جو ہر بات کا فیصلہ کرتا ہے اور عمل پر آمادہ کرتا ہے،مگر اپنے دل سے یہاچھا کام نہیں لیں گے۔ ان کے پاس کان ہے جس سے سن کر انسان بہت کچھ سیکھتا ہے مگر یہ کان ہوتے ہوئے اچھی بات سننے کو تیار نہیں ہوں گے۔آنکھ اس لئے دی گئی ہے کہ انسان عبرت آموز حادثات کو دیکھے اور برے انجام سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرے۔لیکن یہ لوگ کسی بھی برے انجام کو دیکھ کر اس سے متاثر نہیں ہوتے۔جس طرح جانور عقل سے محروم اور سمجھ بوجھ کر کام کرنے سے غافل ہیں یہ ان سے بھی بد تر لوگ ہیں یعنی جانوروں سے بھی گئے گزرے ہیں۔دنیا دار اور مذہبی لوگوں کو جب اللہ، رسول اور آخرت سے غافل صرف دنیا داری میں منہمک دیکھنے کو ملتا ہے تو افسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ جہنم کے لئے پیدا ہی ہوئے ہیں۔ان کو سمجھایا اور سیدھی راہ پر نہیں لایا جاسکتا ہے۔

اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناروا طریقے سے کھاؤ اور نہ حاکموں کے آگے ان کو اس غرض سے پیش کرو کہ تمہیں دوسروں کے مال کاس کوئی حصہ جان بوجھ کر ظالمانہ طریقے سے کھانے کا موقع مل جائے۔(البقرہ:۱۸۸)

انسان جب اللہ کو چھوڑ کر شیطان کا ساتھی بن جاتا ہے،تو شیطان سب سے پہلے اس کو دولت کا لالچی اور پجاری بنا دیتا ہے۔اور وہ شیطان کا ساتھی کسی بھی طرح سے دولت جمع کرنا چاہتا ہے۔حلال اور حرام کی اس کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔غیروں کے ساتھ اپنوں کا بھی حق مار لینے میں اس کو کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی ہے۔’’حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں ،رسول اللہﷺ نے فرمایا:مال کا لالچ اور ایمان دونوں کسی بندے کے دل میں ہرگز جمع نہیں ہوں گے۔ ‘‘(نسائی)

آج پوری دنیا دولت کی پجاری بنی ہوئی ہے۔انتہائی حیرت اس پر ہے کہ وہ مذہبی لوگ جومسلم ملت کے سردار، شیخ، پیر و مرشد،امیر ،سجادہ نشیں ہیں سب کے سب کروڑوں نہیں عربوں کے مالک بنے بیٹھے ہیں۔ایسے لوگوں کو کبھی بھی کسی کار خیر میں دولت خرچ کرتے ہوئے نہیں پائیے گا۔یعنی یہ لوگ دنیا دار لوگوں سے بھی گئے گزرے ہیں جودکھاوے کے لئے ہی سہی اپنامال خرچ تو کرتے ہیں۔یہ لوگ عوام سے صرف پیسے وصولنا جانتے ہیں ، خرچ کرنا نہیں جانتے ہیں۔

اور جو لوگ اللہ کے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں،کافر ہیں اور فاسق ہیں۔(المائدہ:۴۵)

جب آدمی شیطان کے راستے پر چلنے لگتا ہے تو پھر دنیا کا فائدہ اور منافع ہی اس کی زندگی کا مقصد بن جاتا ہے۔اس کے لئے وہ غلط کو صحیح اور صحیح کو غلط کرنے میں کچھ بھی نہیںڈرتا۔اللہ کے قانون کے مطابق فیصلہ ہونا چاہئے اس بات کا اس کو خیال تک نہیں آتا۔قرآن ایسے لوگوں کے لئے فتویٰ دے رہا ہے کہ ایسے لوگ ظالم بھی ہیں،کافر بھی ہیں اور فاسق بھی ہیں۔اس وقت کی دنیا میں تقریباً سارے کے سارے لوگ ایسے ہی ہیں۔

حضرت حذیفہ ؓ روایت کرتے ہیں نبی کریم ﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے تم ضرور نیک باتوں کا حکم دیتے رہنا اور بری باتوں سے روکتے رہنا ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر عذاب مسلط کر دے گا پھر تم دعا کروگے مگر تمہاری دعا قبول نہیں ہو گی۔ (ترمذی)

اوپر جو باتیں بتائی گئی ہیں وہ نیکی کی باتیں ہیں۔ہر دینی شخصیت کا فرض عین تھا کہ وہ ملت کو ان باتوں کی تلقین و تاکید کرتا، لیکن یہ لوگ ایسا نہیں کر رہے ہیں۔چنانچہ پوری امت اس وقت طرح طرح کے عذاب جھیل رہی ہے۔اس عذاب سے صرف وہی لوگ بچائے جائیں گے جو اپنی حد تک نیکی کا حکم دے رہے ہیں اور برائی سے روک رہے ہیں۔اور ایسے لوگ بھی سماج میں موجود ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ ان کا تناسب ایک لاکھ میں ایک ہے۔

حضرت عبد اللہ ؓبن عمرو بن عاص روایت کرتے ہیں ،رسول اللہ ﷺنے فرمایا : چار خصلتیںجس شخص میں پائی جائیں وہ پکا منافق ہو گا اور جس میں ان میں سے ایک خصلت پائی جائے تو یہ نفاق کی ایک علامت ہوگی یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے۔ جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے اور جب جھگڑا کرے تو گالی گلوج کرے۔(بخاری، مسلم )

قرآن میں منافق کے بارے میں بہت خطرناک باتیں بتائی گئی ہیں۔یعنی وہ کافر سے بھی زیادہ بڑا مجرم ہے۔یہ بھی کہاگیا ہے کہ منافق جہنم کے سب سے نیچے والے حصے میں رکھا جائے گا۔اس حدیث میں بتایا جارہا ہے کہ چار باتیں ایسی ہیں جو مسلمان کو پورا منافق بنا دیتی ہیں۔اور ایک ہو تو وہ ایک چوتھائی منافق بن جاتاہے۔جائزہ لیجئے کتنے ایسے مسلمان ہیں جن کے متعلق کہاجاسکتا ہے کہ یہ جھوٹ نہیں بولتے! کتنے ایسے مسلمان ہیں جن کے متعلق کہاجاسکتا ہے کہ یہ امانت میں خیانت نہیں کرتے ! کتنے ایسے مسلمان ہیں جن کے متعلق کہاجاسکتا ہے کہ یہ وعدہ خلافی نہیں کرتے! کتنے ایسے مسلمان ہیں جن کے متعلق کہاجاسکتا ہے کہ یہ لڑائی جھگڑے پر گالی گلوج نہیں کرتے ہیں؟ یعنی پوری مسلم ملت اس وقت کسی نہ کسی درجے میں منافق بنی ہوئی ہے۔اب آپ ہی فیصلہ کیجئے کہ ایسے مسلمانوں کی کوئی عبادت یا دعا یا صدقہ قبول ہوگا ؟

عبادت اور دعا کرنے کی باتیں تو سب کرتے ہیں، لیکن کون کون سے کام گناہ ہیں یہ نہیں بتاتے اور گناہوں سے بچنے کی تاکید اور تلقین بھی نہیں کرتے۔گندے برتن میں کھانے کی اچھی چیز نہیں رکھی جاتی ہے۔مسلمانوں کو پہلے اپنے دل اور دماغ کے گندے برتن کو صاف اور پاک کرنا چاہئے پھردعا کرنی چاہئے۔گناہ گار کی نماز، روزہ، عمرہ، حج، تسبیح،حمد و ثنایہاں تک کہ صدقہ بھی قبول نہیں ہوتا تو اُس کی دعا کیسے قبول ہوگی ؟؟؟(یو این این)