فوج مخالف مظاہروں کا بدترین دن

Taasir  Urdu  News  Network  |  London  (International)   on  01-March-2021

لندن: میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے دوران جھڑپوں میں کم سے کم 18 افراد کی ہلاکت اور 30 کے زخمی ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔اتوار کو مظاہروں میں شدت آ گئی اور پولیس کی جانب سے مشتعل مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے سیدھی فائرنگ کی گئی اس دوران ینگون سمیت کئی علاقے میدانِ جنگ کا منظر پیش کرتے رہے۔عینی شاہدین کے مطابق سکیورٹی فورسز نے ملک کے سب سے بڑے شہر ینگون میں مشتعل مظاہرین کے خلاف آنسو گیس اور ربر کی گولیاں استعمال کیں جب کہ مظاہرین کو منتشر کرنے میں ناکامی پر بعض مقامات پر سیدھی فائرنگ کی گئی جس سے ہلاکتیں ہوئیں۔میانمار کی فوج نے یکم فروری کوآنگ سان سوچی کی حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لا لگا دیا تھا جس کے بعد ملک بھر میں فوج مخالف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے میانمار میں ہلاکتوں کی مذمت کرتے ہوئے فوجی حکومت پر زور دیا ہے کہ مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال فوری طور پر روک دے۔اقوامِ متحدہ میں امریکہ کی نئی سفیر لنڈا تھامس نے میانمار کے عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے ٹوئٹ کی ہے کہ امریکہ جمہوریت کی بحالی کے لیے میانمار کے عوام کی اس جدوجہد میں اْن کے ساتھ ہے۔فوجی بغاوت کے خلاف میانمار کے عوام میں بے چینی پائی جاتی ہے جب کہ امریکہ سمیت دنیا کے کئی ممالک نے فوج کے اس اقدام کی مذمت کی تھی۔ خیال رہے کہ میانمار میں چند سال قبل طویل آمریت کے بعد جمہوریت بحال ہوئی تھی جس پر جمہوریت نواز حلقوں نے چین کا سانس لیا تھا۔البتہ، دوبارہ فوج کے اقتدار سنبھالنے پر ملک کے مستقبل کے حوالے سے مختلف خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔فوج کی طرف سے ملک میں ایک سال کی ایمر جنسی نافذ کر دی گئی تھی جب کہ فوج کا موقف تھا کہ گزشتہ سال نومبر میں ہونے والے عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات سامنے آئے تھے۔ تاہم فوج کے دعووں کو میانمار کے الیکٹورل کمیشن کی طرف سے رد کیا گیا تھا۔