امریکہ اور ایران کے درمیان بالواسطہ بات چیت کا آغاز

واشنگٹن،7اپریل، امریکہ اور ایران کے درمیان آسٹریا کے شہر ویانا میں 2015 کے اس جوہری معاہدے کی بحالی کے لئے مذاکرات کا آغاز ہو گیا ہے، جس کے تحت ایران پر عائد بعض پابندیوں میں نرمی کرکے اس کے جوہری پروگرام کو محدود کیا گیا تھا۔اِن مذاکرات میں امریکہ اور ایران کے درمیان براہ راست بات چیت نہیں ہو رہی، بلکہ اس جوہری معاہدے میں شریک پانچ دیگر ملک برطانیہ، چین، فرانس، روس اور جرمنی کے نمائندوں کے ذریعے امریکہ اور ایران کے درمیان بالواسطہ مذاکرات ہو رہے ہیں۔وائس آف امریکہ کے مائیکل لِپِن اور گیتا آریان کی رپورٹس کے مطابق، امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے منگل کو ایک پریس بریفنگ میں بتایا تھا کہ امریکی وفد کی قیادت، ایران کیلئے امریکہ کے خصوصی ایلچی رابرٹ مالے کر رہے ہیں۔ایران کے ساتھ طے پانے والے اس جوہری معاہدے میں، جسے مشترکہ اور جامع پلان آف ایکشن کا نام دیا گیا تھا، برطانیہ، چین, فرانس، روس اور جرمنی بھی شامل تھے۔ امریکہ نے سال دو ہزار اٹھارہ میں سابق انتظامیہ کے دور میں اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی، اور اب امریکہ کی واپسی کیلئے ویانا میں یہ بات چیت ہو رہی ہے۔محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کا کہنا تھا کہ منگل کے روز ہونے والی بات چیت میں یورپی یونین، معاہدے میں رہنے والے دیگر ممالک اور ایران پر مشتمل ورکنگ گروپ تشکیل دے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایجنڈے میں ان اقدامات پر توجہ دی جائے گی جو ایران کو یورینیم افزودگی کو محدود کرنے سے متعلق کرنے ہیں جبکہ امریکہ کو ایران پر عائد پابندیوں کے حوالے سے اقدامات اٹھانے ہیں تا کہ دونوں معاہدے میں پوری طرح سے شامل ہو جائیں۔نیڈ پرائس کا کہنا تھا کہ امریکہ ان پابندیوں کو اٹھانے سے متعلق غور کرے گا ، جن کا اطلاق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں ایران کو یورینیم افزودگی سے متعلق مصدقہ حدود کے اندر رکھنے کیلئے اٹھائے گئے تھے۔اْدھر پیر ہی کے روز تہران میں بات کرتے ہوئے، ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان، سعید خطب زادے کا کہنا تھا کہ بات چیت کا مرکز امریکہ کی جانب سے ایران پر عائد کردہ ظالمانہ قدغنوں کو اٹھانے کے باریمیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ وہ جوہری معاہدے کی تمام شقوں کا احترام کرنے کیلئے ، امریکہ کی جانب سے مرحلہ وار اٹھائے گئے اقدمات کو تسلیم نہیں کرے۔خطیب زادے کا کہنا تھا کہ ایران صرف یہ چاہتا ہے کہ امریکہ ایک قدم ہی اٹھائے اور وہ یہ ہے کہ اپنی عائد کردہ تمام پابندیوں کو ایک دم اٹھا لے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے جواب میں ایران بھی یورینیم افزاودگی کو فوری طور پر محدود کر دے گا۔ تاہم چند مغربی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کی طرف سے یورینیم افزودگی سے متعلق اٹھائے گئے حالیہ اقدامات سے ایک دم پیچھے ہٹنا مشکل ہو گا۔تاہم امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان، نیڈ پرائس کا کہنا تھا کہ امریکہ یہ توقع ہر گز نہیں رکھتا کہ ویانا میں جاری مذاکرات کے فوری نتائج برآمد ہونگے۔،نیڈ پرائس کا کہنا تھا کہ ہماری توقعات کے مطابق، یہ بات چیت مشکل ہو گی۔ تاہم ہمارے نزدیک، یہ بات چیت جو کہ امریکہ کی اپنے شراکت داروں کے ساتھ اور پھر اْن شراکت داروں کی ایران کے ساتھ ہو گی، ایک مثبت قدم ہے۔ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ایران منگل کو امریکہ کے ساتھ براہ راست بات چیت نہیں کررہا۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکہ کو بھی براہ راست بات چیت کی امید نہیں ہے ، لیکن امریکہ نے اپنے دروازے اس کے لئے بند نہیں کئے۔