امریکی فوجیوں کی 11 ستمبر تک افغان سےواپسی

Taasir Urdu News Network | America (Washington)  on 14-April-2021

واشنگٹن:،14اپریل،امریکہ نے 11 ستمبر 2021 تک افغانستان سے اپنے تمام فوجیوں کے انخلا کا فیصلہ کیا ہے جس کا اعلان صدر جو بائیڈن کریں گے۔حکومت کے ایک ذمہ دار اہلکار نے منگل کو اعلان کیا کہ صدر جو بائیڈن سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں 20 برس سے جاری جنگ کا خاتمہ امریکہ کے مفاد میں ہے اور اس سے متعلق وہ بدھ کو اہم اعلان بھی کریں گے۔سینئر افسر نے بتایا کہ افغانستان سے افواج کی واپسی کا مقصد اس وقت عالمی سطح پر درپیش مسائل پر نظر رکھنے کے لیے ہے اور یہ وہ مسائل ہیں جن کا سامنا دو دہائی قبل نہیں تھا۔یاد رہے کہ امریکہ میں 11 ستمبر 2001 کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون پر دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا۔ جس کے بعد واشنگٹن نے دہشت گردوں کے خلاف جنگ کا اعلان کرتے ہوئے افغانستان پر حملہ کردیا تھا۔سینئر امریکی اہلکار کے بقول، “ہم سمجھتے ہیں کہ عسکری طاقت سے افغانستان کے اندرونی سیاسی چینلجنز پر قابو نہیں پایا جا سکتا اور اس سے افغانستان کے اندرونی تنازعات کا خاتمہ بھی ممکن نہیں۔ لہٰذا ہم افغانستان میں ملٹری آپریشنز ختم کر رہے ہیں جس کے بعد ہماری توجہ سفارتی سطح پر امن مذاکرات کی کوششوں کی حمایت پر ہو گی۔”وائٹ ہائوس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے منگل کو صحافیوں سے گفتگو کے دوران صدر بائیڈن کے افغانستان سے افواج کے انخلا کے منصوبے کی تصدیق کی۔ ان کے بقول صدر بائیڈن کا خیال ہے کہ ہم افغانستان میں طویل عرصے سے ہیں اور اس مسئلے کا عسکری حل نہیں ہے۔یاد رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان گزشتہ برس ہونے والے امن معاہدے کے تحت تمام غیر ملکی افواج کو یکم مئی تک افغانستان سے انخلا کرنا ہے۔ تاہم صدر بائیڈن کے منصوبے کے تحت افغانستان میں موجود امریکہ کے تین ہزار فوجی یکم مئی کی ڈیڈ لائن کے بعد بھی وہاں موجود رہیں گے۔سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں طالبان کے ساتھ امن معاہدہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہوا تھا جس کے تحت طالبان نے غیر ملکی افواج کو نشانہ نہ بنانے اور بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں سے روابط نہ رکھنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔صدر بائیڈن کے افغانستان سے فوجی انخلا کے ممکنہ اعلان کی خبر ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب اسی روز امریکی نیشنل انٹیلی جنس ڈائریکٹر آفس نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ افغان مسئلے پر امن معاہدہ آئندہ برس ہونے کا بھی کوئی امکان نہیں ہے جب کہ طالبان افغانستان کی منتخب حکومت کے دشمن ہیں جو میدانِ جنگ میں ایک مرتبہ پھر مضبوط ہو رہے ہیں۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر اتحادی ممالک افغان حکومت کی حمایت سے دست بردار ہوتے ہیں تو اس صورت میں کابل حکومت طالبان پر قابو پانے کے لیے اپنے تئیں جدوجہد شروع کر دے گی۔بعض تجزیہ کار اس تشویش میں مبتلا ہیں کہ امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد مقامی شہریوں کو اس کے بھیانک نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔امریکہ کی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کے مشاورتی بورڈ کے سابق رکن مائیکل اوہانلن نے خبردار کیا ہے کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان مشرقِ وسطیٰ کے ملک شام کی طرح بن سکتا ہے جو دہشت گردوں کی مضبوط آماجگاہ ہے جہاں لاکھوں لوگ مر چکے ہیں اور لاکھوں مہاجرین ہیں۔پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ فوجی انخلا کے بعد کی صورتِ حال سے متعلق اصل سوال یہ ہے کہ آیا امریکہ کابل حکومت اور افغان عوام کی مدد جاری رکھے گا یا نہیں۔ان کے بقول طالبان نے امن کے لیے کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی اور دوحہ امن عمل نے اس بات کو تقویت بخشی ہے کہ امریکہ افغانستان سے انخلا کا خواہش مند ہے جس چیز نے افغانستان کے مستقبل سے متعلق خدشات میں اضافہ کیا ہے۔دوسری جانب ترکی کی حکومت نے افغانستان سے متعلق 10 روزہ امن کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کیا ہے جس میں افغان تنازع کے فریقین اور دیگر ملکوں کے نمائندے شرکت کریں گے۔ترکی کے شہر استنبول میں ہونے والی امن کانفرنس 24 اپریل سے چار مئی تک جاری رہے گی۔کانفرنس کے مشترکہ منتظمین ترکی، قطر اور اقوامِ متحدہ کی جانب سے ایک مشترکہ بیان میں بتایا گیا ہے کہ کانفرنس کے منتظمین ایک آزاد، خودمختار اور متحد افغانستان کی مدد کے لیے پْر عزم ہیں۔استبول کانفرنس کا مقصد افغآن امن عمل کی رفتار کو تیز کرنا اور دوحہ میں جاری بین الافغان مذاکرات کو آگے بڑھانا ہے تاکہ ایک پائیدار سیاسی حل تک پہنچا جا سکے۔مشترکہ بیان کے مطابق کانفرنس اور اس کے ایجنڈے پر افغان فریقین سے تفصیلی مشاورت کا عمل جاری ہے۔ کانفرنس میں توجہ اس بات پر ہو گی کہ مذاکرات میں شامل فریق ایسے بنیادی اصولوں پر متفق ہو جائیں جو افغانستان کے متفقہ مستقبل کے تصور کے عکاس ہوں، مستقبل میں تنازع کے سیاسی حل کا روڈ میپ فراہم کرتے ہوں اور اور تنازع کے خاتمے کے متقاضی ہوں۔استنبول کانفرنس کے اعلان کے چند گھنٹے بعد ہی طالبان کے دوحہ میں سیاسی دفتر کے ترجمان ڈاکٹر نعیم نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ جب تک افغانستان میں تمام غیر ملکی افواج کا انخلا نہیں ہوتا وہ اس وقت تک اس کانفرنس میں شرکت نہیں کریں گے۔