نابینا پاکستانی طالبہ کو آکسفورڈ یونیورسٹی کی رہوڈاسکالرشپ مل گئی

واشنگٹن،6؍اپریلامریکہ کی جارج ٹاؤن یونی ورسٹی کے قطر کیمپس کی طالبہ خنسہ ماریہ کو آکسفورڈ یونیورسٹی میں 2021 کے موسم خزاں کے لیے پاکستان سے ‘ ہوڈ’ اسکالر چنا گیا ہے۔خنسہ ماریہ بینائی سے محروم ہیں۔ انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستان میں دورانِ تعلیم بینائی سے محرومی کی وجہ سے انہیں کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا، اس لیے جسمانی کمی کا شکار افراد کے لیے کچھ کرنے کے قابل ہونے کا خیال ان کے دل کے بہت قریب ہے۔خنسہ ماریہ رہوڈ اسکالرشپ کے تحت آکسفورڈ یونیورسٹی سے ماسٹرز کریں گی۔ ان کی ماسٹرز کی ڈگری حقیقت پر مبنی پالیسیاں بنانے اور سماجی تشخیص کے موضوع پر ہو گی۔ان کا کہنا ہے کہ وہ جسمانی کمی کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے کے ذاتی تجربات کو اپنی آکسفورڈ کی ڈگری پر منطبق کرنے کی کوشش کریں گی۔’
’میں خود جسمانی کمی کا شکار ہوں، نابینا ہوں، اور مجھے ایسے سماج میں رہنے کا تجربہ ہے، جہاں سب کی ضروریات کا خیال نہیں رکھا جاتا۔‘‘ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ میری ذمہ داری ہے کہ جہاں تک میں کوشش کر سکوں، اپنی کمیونٹی کے حالات بہتر کروں یا کم از کم اپنے تجربات اور اپنی صلاحیتوں کے ذریعے مستقبل میں اپنے جیسی جسمانی کمی کا شکار افراد کے لیے کچھ کر سکوں۔‘‘ماریہ جسمانی کمی کا شکار افراد کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتی ہیں اور انہیں سماجی دھارے میں شامل کرنے پر زور دیتی ہیں۔ لوگوں کے ایسے گروپوں اور کاروباروں سے رابطے کرواتی ہیں جو اپنی کام کی جگہ کو جسمانی کمی کا شکار افراد کے لئے آسان یا باسہولت بنانا چاہتے ہیں۔
خنسہ ماریہ کہتی ہیں کہ جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے قطر کیمپس میں انہیں اور ان جیسے طالب علموں کو وہ تمام سہولتیں میسر ہیں، جو امریکی قوانین کے مطابق جسمانی کمی کا شکار افراد کو مہیا کی جاتی ہیں۔لیکن، ان کے بقول، اب بھی جسمانی کمی کا شکار افراد کے لیے بہت سی جگہیں ناقابل دسترس ہیں، اور بات چیت اور زبان کی تراکیب جسمانی کمی کا شکار افراد کے حوالے سے مکمل نہیں ہیں۔خنسہ ماریہ نے قطر کے امریکی سفارتخانے میں بھی کام کیا ہے۔
وہ جارج ٹاون یونیورسٹی کے قطر کیمپس سے فارن سروس میں بیچلرز کرنے کے علاوہ یونیورسٹی کی ڈبیٹنگ سوسائٹی، جنوبی ایشیائی سوسائٹی، ہویا لیڈرشپ پاتھ وے اور دیگر تنظیموں کی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتی ہیں۔مایہ نے اپنے آبائی وطن سے ہجرت کرنے والے افراد پر تحقیق کی ہے جس میں انہوں نے اس بارے میں بات کی ہے کہ ان افراد کا لٹریچر یا ادب میں کیسے ذکر کیا جاتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ انہیں ایک نابینا ہندستانی اسکالر سے مل کر رہوڈ اسکالر پروگرام میں دلچسپی پیدا ہوئی۔وائسآف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں نے سوچا کہ درخواست دینے میں تو کوئی قباحت نہیں ہے۔ اگر میں ناکام بھی ہوئی تو اس تجربے سے سیکھنے کو ملے گا۔خنسہ ماریہ رہوڈ اسکالر کے طور پر اپنےئیندہ تجربات کے بارے میں بہت پرجوش ہیں۔ اور کہتی ہیں وہ اس اسکالرشپ کو اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتی ہیں۔