ٹی ایل پی پر پابندی کے بعد پاکستان میں صورتحال بے قابو

Taasir Urdu News Network | Pakistan (Islamabad)  on 15-April-2021

اسلام آباد / لاہور: ، 15 اپریل۔ پاکستان میں پروٹسٹنٹ اسلامی پارٹی تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر 1997 انسداد دہشت گردی ایکٹ کے قواعد 11- بی کے تحت پابندی عائد ہونے کے بعد صورتحال بے قابو ہوگئی ہے۔ ہزاروں افراد مولانا سعد رضوی کی حمایت میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ حامیوں کا مسلسل تیسرے دن پولیس اور فوج کے افسران کے ساتھ تصادم جاری ہے ان جھڑپوں میں اب تک سات افراد کی موت ہوچکی ہے 300 مزید پولیس اہلکار زخمی ہو گئے ہیں ۔وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا کہ میں نے حکومت پنجاب کے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر پابندی عائد کرنے کی تجویز منظور کرلی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پچھلے دو دنوں میں مظاہرین سے جھڑپوں میں کم از کم دو پولیس افسر ہلاک ہوگئے ہیںاور 340 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔یادر ہے کہ تحریک لبیک پاکستان پارٹی کے حامی حضرت محمد کا کارٹون شائع کرنے پر فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ انہوں نے عمران خان حکومت سے سفیر کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیاتھا۔ 20 اپریل تک کا وقت دیا گیا تھا لیکن اس سے قبل پولیس نے پارٹی کے سربراہ سعد حسین رضوی کو پیر کے روز گرفتار کرلیا۔ اس سے ناراض ہوکر ، ٹی ایل پی نے ملک گیر احتجاج شروع کردیا۔ ان مظاہروں میں بہت سے لوگوں کی موت ہوچکی ہے۔ وہیں وزیر شیخ رشید احمد نے یہ بھی بتایا کہ مظاہرین کے ذریعہ تمام سڑکیں خالی کرالی گئی ہیں۔ تاہم ، ٹی ایل پی کے مطابق ، اس تصادم میں اس کے بہت سے حامی ہلاک ہوگئے ہیں۔وزارت داخلہ کی طرف سے جاری ہونے والی ایک اور رپورٹ کے مطابق پاکستان تحریک لبیک کی جانب سے گذشتہ تین دن سے سے 2135 افراد گرفتار کیے گئے جن میں سے 1669 پنجاب اور 228 سندھ سے گرفتار کیے گئے ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا سے 193 اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے 45 افراد گرفتار ہوئے جبکہ گرفتار افراد کے خلاف انسداد دہشت گردی کے مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔اس سے پہلے کہ ان تفصیلات میں جائیں کہ یہ پابندی تحریک لبیک پاکستان کی سرگرمیوں پر کیسے اثرانداز ہوگی، پہلے اس تنظیم کے مفصل تعارف اور اس کی پاکستانی معاشرے میں موجودگی پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔تحریک لبیک پاکستان کی بنیاد خادم حسین رضوی نے 2017 میں رکھی۔ بریلوی سوچ کے حامل خادم حسین رضوی محکمہ اوقاف کی ملازمت کرتے مسجد کے خطیب تھے۔لیکن 2011 میں جب پنجاب پولیس کے گارڈ ممتاز قادری نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو قتل کیا تو انھوں ممتاز کے جانب سے انھیں نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔اس کے بعد نہ صرف خادم حسین رضوی نے ناموس رسالت قانون اور آئین کی شق 295سی کے تحفظ کے لیے تحریک چلائی بلکہ ممتاز قادری کی رہائی کے لیے بھی سرگرم رہے اور جنوری 2016 میں ممتاز قادری کے حق میں حکومتی اجازت کے بغیر علامہ اقبال کے مزار پر ریلی کا انعقاد بھی کیا۔اسی سال جب ممتاز قادری کو پھانسی دے دی گئی تو اس کے خلاف احتجاج کے لیے اسلام آباد کے ڈی چوک کا رخ کیا تاہم حکومت سے مذاکرات کے بعد یہ احتجاج چار دن کے اندر ہی ختم کر دیا گیا۔اسی دھرنے کے اختتام پر مولانا خادم رضوی نے اعلان کیا تھا کہ وہ ‘تحریک لبیک پاکستان یا رسول اللہ’ کے نام سے باقاعدہ مذہبی جماعت کی بنیاد رکھیں گے۔ابھی الیکشن کمیشن کی جانب سے تحریک لبیک پاکستان کو بطور سیاسی جماعت رجسٹر بھی نہیں کیا گیا تھا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی کے بعد خالی ہونے والی این اے 120 کی نشست پر جب ضمنی الیکشن ستمبر 2017 میں ہوئے تو جماعت کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار شیخ اظہر حسین رضوی نے انتخاب میں حصہ لیا اور 7130 ووٹ حاصل کیے جو جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کے امیدواروں سے بھی زیادہ تھے۔اس کے بعد تحریک لبیک نے مولانا خادم رضوی کی قیادت میں اس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد اور الیکشن ایکٹ 2017 میں مجوزہ ترامیم کے خلاف اسلام آباد کا ایک بار پھر رخ کیا اور نومبر 2017 میں راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم، فیض آباد پر رسالت کے قانون میں ترمیم کے خلاف ایک طویل لیکن بظاہر کامیاب دھرنا دیا جس نے نہ صرف مولانا خادم رضوی بلکہ تحریک لبیک پاکستان کی شہرت میں بیحد اضافہ کیا۔اس دھرنے کے نتیجے میں وزیر قانون کو استعفی دینا پڑا اور حکومت نے پہلی بار ٹی ایل پی کے ساتھ ان کے مطالبات تسلیم کرتے ہوئے معاہدہ کیا۔تحریک نے اس شہرت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے 2018 کے عام انتخابات میں چاروں صوبوں میں اپنے امیدوار کھڑے کرنے کا اعلان کیا اور قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کل 559 امیدوار کھڑے کیے جن میں سے دو امیدوار سندھ اسمبلی کی دو نشستوں پر کامیاب بھی ہوئے جبکہ ایک امیدوار نے مخصوص نشست حاصل کی۔قومی اسمبلی کے انتخابات میں ان کی جماعت ووٹوں کے اعتبار سے ملک میں پانچویں بڑی جماعت تھی اور انھیں 22 لاکھ سے زیادہ ووٹ ملے تھے۔اس طرح تحریک کے اس وقت تین ممبر صوبائی اسمبلی بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ مولانا خادم رضوی کا لاہور میں ایک مدرسہ جامعہ ابوزر غفاری بھی موجود ہے۔خادم رضوی کی نومبر 2020 میں وفات کے بعد ان کی جماعت نے ان کے بیٹے سعد رضوی کو تحریک لبیک کا نیا سربراہ مقرر کیا۔فرانسیسی سفیر کی ملک بدری اور فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کے حوالے سے خادم رضوی کی قیادت میں تحریک لبیک نے گذشتہ برس نومبر میں دھرنا دیا اور اس کے بعد حکومت کے ساتھ پہلا معاہدہ نومبر 2020 میں کیا۔خادم حسین رضوی کی وفات کے بعد فروری 2021 میں سعد رضوی کی قیادت میں حکومت نے جماعت کے ساتھ ان کے مطالبات کے حوالے سے دوسرا معاہدہ کیا۔اس کے تحت حکومت نہ صرف 20 اپریل 2021 تک فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کے لیے تحریک پارلیمان میں پیش کرے گی بلکہ فورتھ شیڈیول میں شامل تحریک لبیک کے تمام افراد کے نام بھی فہرست سے خارج کر دیے جائیں گے۔تحریک لبیک پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح سوشل میڈیا پر سرگرم ہے۔تحریک کے سابق سربراہ خادم رضوی کا ٹوئٹر اکاونٹ جس پر لاکھوں فالورز موجود تھے حکومت پاکستان کی شکایت پر بند کر دیا تھا لیکن تنظیم کے فیس بک اور ٹوئٹر پر اب بھی متعدد اکاؤنٹس اور صفحے موجود ہیں جبکہ یوٹیوب پر دو آفیشل چینلز ہیں جن کے 12 ہزار سے زائد فالوورز ہیں۔ان سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے تنظیم نہ صرف عوام کو احتجاجی دھرنوں کے لیے حرکت میں لاتی ہے بلکہ یہ نظیم کا نظریہ عام کرنے اور اس کے لیے امداد اکھٹی کرنے کا بھی اہم ذریعہ ہے۔