Pin-Up Казино

Не менее важно и то, что доступны десятки разработчиков онлайн-слотов и игр для казино. Игроки могут особенно найти свои любимые слоты, просматривая выбор и изучая своих любимых разработчиков. В настоящее время в Pin-Up Казино доступно множество чрезвычайно популярных видеослотов и игр казино.

جموں اور کشمیر

جموں و کشمیر میں خود ساختہ اور مفت خور صحافیوں کا بڑھتا رجحان۔ وبائی صورت حال میں سرکاری حکمنامے ” آزادانہ نقل و حمل ” کا غلط استعمال

Written by Taasir Newspaper

جاویداحمد ۔۔سرینگر
طفیلی صحافت“ کا لفظ دیکھ کر بہت سے قارئین تذبذب کا شکار ہوسکتے ہیں۔ یوں کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وادی کشمیر میں صحافتی ادوار میں نمایاں تبدیلی آگئی ایک زمانہ تھا جب صحافتی میدان سے وابستہ افراد تعریفی صفحے میں نمایاں طور پر نظر آتے تھے اور بڑی عزت و قدر کی نگاہ سے انکی عزت افزاءکی جاتی تھی ”طفیلی صحافت“ دراصل انگریزی کے ”پیراسائٹ جرنلزم“ کا اردو ترجمہ ہے، جو ”حیاتیات“ کے لفظ ”پیراسائٹ“ سے ماخوذ ہے۔ سائنس میں پیرا سائٹ (طفیلی وجود) اس کیڑے کو کہا جا تا ہے، جو کسی دوسرے نامی وجود کے اندر یا اس سے وابستہ رہ کر گزر بسر کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ مفت خور کیڑے دوسرے اجسام پر پرورش پاتے ہیں اور انھی سے خوراک حاصل کرتے ہیں، جو حرکت کرنے، تلاش کرنے، محنت و جست جو کرنے کے عادی نہیں ہوتے۔ لغت میں”پیراسائٹ“ کے معنی حرام خور، ٹکڑ خور، کاسہ لیس ، لیموں نچوڑ، طعام تلاش، اور ہر دیگی چمچے کے بھی ہیںآج کی صحافت میں مفت خوری کا رجحان کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا ہے اور اس کی وجہ سے معتبر صحافی پریشان ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں سے خصوصاً ”انٹرنیٹ“ کی آمد کے بعد اس میں کچھ زیادہ ہی اضافہ ہوا۔ انٹرنیٹ کی آزاد فضا نے ایسے عناصر کو خوب پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا۔ ا س کی وجہ سے حقیقی قلم کاروں کا فقدان جب کہ مفت خوروں، ہر دیگی چمچہ اور ٹکڑ خور صحافیوں کی بہتات ہوتی چلی گئی۔سوشل میڈیا کی ٓزاد فضا کے ساتھ ساتھ پریشان کرنے والی نیوز چینلز کی بہتات بھی سامنے آگئی جموں و کشمیر کے ہر ضلعے میں ایسے نام نہاد صحافیوں کی تعداد موجود ہے جو مفت میں نیوز چینلز کی ٹی آر پی بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں شمال و جنوب میں ایرے ویرے نتھو غیرے خود ساختہ رپورٹرس کی تعداد موجود ہے جو نیوز چینلز کے لئے مفت میں کام کرتے ہیں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کی کمائی کا ذریعہ کیا ہے یہ خود ساختہ رپورٹر صرف پریس کا شناختی کارڈ حاصل کرنے کے لئے مفت میں کام کرتے ہیں اور سیاستدانوں کے دروازوں پر ہر دن حاضری دیکر محنتانے کے نام پر رقومات حاصل کرتے ہیں اب بے چارے سیاستدان بھی انہیں دیکھ کر پتلی گلی ڈھونڈنے کی تاک میں رہتے ہیں یا کسی خاص سیاسی پارٹی سے انکی سانٹھ گانٹھ رہ کر رقومات طے کی جاتی ہے جس جگہ پر ایک پروفیشنل صحافی ماہانہ تنخواہ پر کام کر سکتا تھا وہاں پر یہ مفت خور خود ساختہ صحافی صرف پزیرائی حاصل کرنے کے لئے میدان میں کود پڑتے ہیں اور نیوز چینل کا کام نکل جاتا ہے اس طرح یہ پروفیشنل صحافی اپنی قسمت پر روتا ہے۔جموں کشمیر کے ضلعی دفاتر پر حشرات الارض کی طرح یہ صحافی گھومتے ہوئے نظر آتے ہیں ایک زمانہ تھا جب صحافی کو کسی پروگرام میں مدعو کیا جاتا تھا لیکن اب افسران کئی بار سوچتے ہیں کہ کس کو کیسے مدعو کیا جائے ۔ملک بھر میں کئی ایسی نیوز چینلز موجود ہیں جو ایک بانڈ پیپر پر دستخط لے کر اپنے رپورٹر سے دستخط کرواتے ہیں کہ آپ کبھی بھی کسی ماہانہ تنخواہ کا تقاضا نہیں کر سکتے انہیں معلوم ہے کہ اگر ہم کسی رپورٹر کو منتخب کرتے ہیں وہ اپنی کمائی کا طریقہ خود نکالتا ہے۔اس پر طرہ یہ کہ وادی کشمیر میں ایسے کود ساختہ صحافی موجود ہے جن کا جرنلزم سے دور دور کا واسطہ بھی نہیں ہے کسی نے کیبل نیٹورک سنبھالا اور نیوز چینل نے اسے اپنی ٹی آر پی بڑھانے کے لئے مائک ّآئی ڈی تھما دی ،کسی نے کھیل کود میں ڈگری حاصل کی وہ بھی خود کو صحافی سمجھ بیٹھا اسے دیکھ کر اصلی صحافی منہ چھپالیتا ہے غرض جموں و کشمیر میں ایسے خود ساختہ صحافیوں کی کثیر تعداد موجود ہے جو اصلی صحافیوں کی روزی روٹیوں پر شب خون مارتے ہیں ستم ظریفی یہ کہ مفت خوری کی ایسی ہوا چلی ہے کہ کوئی بھی مفت میں کام کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے اس پر طرہ یہ کہ جب ان خود ساختہ صحافیوں سے تنخواہ کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تووہ اپنے آپ کو کسی افسر سے کم نہیں بتاتا ۔ناظرین کی نگاہیں اس وقت تکتی رہ جاتی ہے جب وہ ایرے ویرے نتھو غیرے افراد کو بھی اس میدان سے وابستہ دیکھتے ہیں وبائ صورت حال میں جہاں نفسی نفسی کا عالم ہے وہیں نام نہاد صحافی فیس بک پیج بنا کر سرگرم ہوگئے ۔اور ستم ظریفی یہ کہ پولیس انتظامیہ نے جہاں صحافت سے وابستہ افراد کو کرونا بندش سے مثتثنی رکھا وہیں خود ساختہ صحافیوں نے گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر یس کے اسٹیکر چسپاں کردئےاور گھومنے پھرنے کے لئے انتظامیہ کی آنکھ میں دھول جھونک رہے ہیں میڈیا کے خود کو منسلک کرتے ہوئے جنوبی کشمیرکے کئ ننھے جرنلسٹوں نے حشرات الارض کی طرح جنم لے کر فیس بک پیج بنا کر اپنے بھائیوں اور اپنے رشتہ داروں میں پریس کے شناختی کارڑ اجرا کئے اور مائک آی ڈی بناکر ان کے ہاتھوں میں تھمادی ۔رات دن کرونا لاک ڈاون کو کامیاب بنانے کے لئے جہاں پولیس دن رات اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں وہیں ان کے لئے اصلی اور نقلی صحافی کو پہچاننا مشکل ہو گیا ہے ہے ضرورت اس بات کی ہے تمام اضلاع میں موجود جو صحافتی انجمنیں ہیں وہ اس حوالے سے اقدام اٹھائیں تاکہ عوام میں صحافتی عزت و وقار دائمی طور پر قائم رہ سکے

About the author

Taasir Newspaper