جاوید احمد سری نگر
کرونا کی مہاماری کے درمیان ایک عام آدمی دنگ رہ کر کبھی اسکریننگ کبھی ویکسین اور کبھی ہوم آئسولیش کبھی قرنطین ۔ایسا لگ رہا ہے کہ جس طرح انڈرویڈ دنیا نے اپنی ریڈییشن سے پوری دنیا کو لپیٹ میں لے لیا گزشتہ سال سے پوری دنیا کے ساتھ ساتھ ہندوستان کو بھی کرونا کی مہاماری نے اپنی آغوش میں لیکر ہا ہا کار مچادیا گزشتہ سال کرونا کی مہاماری پر قابو پانے کے لئے حکام نے لاک ڈاون کا اعلان کیا گرچہ کشمیر ہڑتالوں کا عادی تھا لیکن دیگر ریاستوں میں لاک ڈاون نے خوفناک ماحول پیدا کیا دن بھر کمانے والا اور شام کو کھانے والا ریلیف کا انتظار کرنے لگا ۔گزشتہ سال کے لاک ڈاون نے کشمیر میں معیشت کی ریڈھ کی ہڈی تصور کیا جانے والا محکمہ سیاحت بھی بری طرح متاثر ہوا رفتہ رفتہ حالات مستحکم ہوئے اور جیسے کرونا غائب ہو گیا ہر دن ایک عام آدمی موبائل کے اسکرین پر انگلیاں مارتا دکھا ئ دے رہا تھا کہ آج کتنے کیس مثبت سامنے آئے اسکولی بچوں کی جیسے عید آگئی ۔رفتہ رفتہ وہ سال بھی نظروں سے اوجھل ہوگیا رواں سال کی شروعات گر چہ بہتر ہوئ سیاحتی مقامات پر بڑے بڑے میلے لگ گئے اسکول کھلنے کے قریب ہی تھے کرونا نے دوسری دستک دی اور وہ بھی ہیبت ناک دستک ۔۔اور طبی ماہرین نے اسے تیز ترین لہر قرار دیا ۔آئے روز سماجی دوری اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر زور دیا گیا اور یہ سماجی دوری اس قدر رشتوں میں دوری کا سبب بن گئ کہ جیسے کرونا کے مریض نے بڑا جرم کیا ہو .سال رواں کی شروعات میں جموں و کشمیر کا محکمہ سیاحت اور اسے وابستہ افراد پھولے نہیں سما رہے تھے لیکن دہلی ۔مہاراشٹرا ۔اور پردیش اور دیگر جگہوں سے کرونا کے حوالے سے خوفناک خبریں آگئیں اور اموات کے علاوہ آکسیجن کی کمی کی خبریں شہ سرخیاں بننے لگی کہیں پر لاک ڈاون اور کہیں پر غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جارہا تھا ۔کرونا کے متاثرین کی تعداد لاکھوں پہنچ رہی تھی ستم ظریفی یہ کہ ملک میں آکسیجن لیول کی کمی کے باعث مریضوں کی جان نکلنے لگی جس پر مرنے والوں کے لواحقین نے کھلم کھلا اسپتال انتظامیہ پر الزام عائد کیا ۔۔۔ملک بھر میں ہو کا عالم جاری ہوا سوشل میڈیا پر دل دہلانے والی تصاویر شائع ہوئیں کہ شمشان گھاٹوں پر لاشوں کے انبار لگ گئے اور قطاروں میں لاشیں آخری رسومات کے انتظار میں تھی بین الاقوامی خبر رساں اداروں نے ہندوستان میں کرونا کے قہر کو ایک سونامی قرار دیا اسپتالوں میں روتے بلکتے لوگ اپنے پیاروں کے لئے آکسیجن پہنچانے کے لئے تگ دو کرتے رہے لیکن کرونا سے متاثر افراد اور کرونا سے انتقال کرنے والے افراد کے ساتھ احتیاطی تدابیر نے اور سماجی دوری نے تاریخ میں ایک نیا باب رقم کردیا ۔قریب سے قریب تر رشتے کو بھی کرونا نے ایسی دوری میں تبدیل کیا کہ گر اپنے پیاروں کا چہرہ دیکھنے کے لئے بھی انسان ترستا گیا ماں باپ بھائی بہن یہاں تک کہ اولاد جیسے رشتے پر ایسی دوری بنا دی کہ انسان کے وہم و گمان میں بھی نہی تھا حال ہی میں جموں سے ایک دل دہلا دینے والا واقعہ سامنے آیا ایک افسوسناک واقعہ میں ، دو ماہ کا بچہ ، جس نے کوویڈ ۔19 کا مثبت تجربہ کیا اور جموں کے اسپتال میں گذشتہ روز دم توڑ گیا ، اسے اپنے والدین اسپتال میں چھوڑ دیا اور خود وہاں سے فرار ہو گئے دو ماہ کے بچے کا کوڈ کے لئے مثبت ٹیسٹ کیا گیا تھا ،اور اسپتال میں ہی دم توڑ دیا۔اس کے والدین اپنے بچے کی لاش کو ساتھ لیے بغیر اسپتال چھوڑ گئے۔” “اسپتال کے عملے نے بچے کے والدین کو پکڑنے کی پوری کوشش کی اور انہیں راضی کیا کہ وہ بچے کی لاش کو ساتھ لے جائیں لیکن تمام کوششیں ناکام ہو ئیں اگر بچے کے والدین بچے کو لینے نہیں آتے ہیں تو ، اسپتال کے حکام مناسب کوویڈ ایس او پیز کے تحت بچے کا آخری رسوم اداکردیں گے۔اتفاق سے کشمیر میں یہ پہلا واقعہ ہے ، جس نے انسانیت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ کرونا کی ایک جھلک تھی لیکن ملکی سطح پر جب دیکھیں تو لاشوں کی آخری رسومات اور انہیں سپرد آتش کرنے کے لئے مسلم برادری کے نوجوان سامنے آگئے سکھوں نے اپنے گردواروں کو پیش پیش رکھا اور آکسیجن سپلائی بحال رکھنے کے لئے کوشش کی۔ وبا کے دور میں ایسا بھی دیکھنے کو ملا کہ لوگ اس طرح مرنے لگے کہ آخری وقت پر ان کے پیاروں میں سے کوئی ایک بھی ان کے پاس نہ ہو۔ اس وائرس نے یہ رلا دینے والا پیغام بھی دیا ہے کہ اسے اس بات کی بھی کوئی پرواہ نہیں کہ زندگی کی طرح موت کو بھی پروقار اور بااحترام ہونا چاہیے اور مرنے والوں کے اہل خانہ اور احباب کو تعزیت اور سوگواری کا موقع بھی تو ملنا ہی چاہیے۔
ہندوستان کے مختلف شہروں میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئ ۔ہر دن ملک بھر سے ہزاروں افراد کووِڈ انیس کے ہاتھوں مارے گئے۔ بہت بڑی اکثریت مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہے اور ان کے پاس ان کا کوئی ایک بھی رشتے دار یا دوست موجود نہیں جو انہیں تسلی دیتا یا ان کے ہاتھ پکڑ کر انہیں ان کے خوف سے نجات دلانے کی کوشش کرتا۔ ایسا اس لیے بھی ہوا کہ ہسپتالوں میں تیمار داروں کو جانے کی اجازت نہیں ہے
کورونا نے اپنے ضابطے خود طے کر کے پھیلاؤ اور اپنے مہلک پن کے تسلسل کے لیے جو راستے اختیار کئے اور جن اصولوں پر کاربند ہےوہ اس کے اپنے ہی بنائے ہوئے ہیں اور ابھی تک یہ مہلک جرثومہ ان میں کسی تبدیلی یا ترمیم پر آمادہ نظر نہیں آتا۔موت بھی ایسی جس میں لواحقین سوگوار تو ہوتے ہیں، ان کے ذہنوں میں طرح طرح کے سوالات بھی اٹھتے ہیں، لیکن ان کے ساتھ کوئی نہیں ہوتا۔ملک بھر میں جنازوں اور مردوں کی تدفین میں اتنی تیزی اور وسعت دیکھنے میں آ رہی ہیں، جتنی پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھیں۔ مردوں کی تدفین یا آخری رسومات کا عمل ایسا کہ جیسے کوئی لاش ابھی اپنے سوگواروں کے انتظار میں ہی ہو کہ پھر ہر طرف اندھیرا چھا جائے۔
یہ شاید تاریخ میں پہلی بار دیکھا گیا کسی گھر کے کسی فرد کی موت واقع ہو جائے، تو اقرباء میں سے کوئی تعزیت کے لیے بھی نہ آ سکے۔کسی کے گلے لگ کر رونا بھی ممکن نہیں
جہاں لوگوں کے گھروں سے نکلنے پر پابندی ہو، وہاں کوئی کسی کے گھر جائے تو کیسے؟ جہاں دکھ مشترک ہونے کے باوجود ہاتھ ملانے تک کی اجازت نہ ہو، وہاں کوئی کسی کو گلے لگا کر کوئی جھوٹی تسلی بھی بھلا کیسے دے سکتا ہے؟ ایسے میں اظہار تعزیت کا واحد راستہ صرف کوئی ٹیلی فون یا ویڈیو کال ہی رہ جاتی ہے۔انسانیت کے اس انتہائی مہلک دشمن کو شکست دینا ناگزیر ہو چکا ہے۔ سائنسدان نئے کورونا وائرس اور اس کی وجہ سے لگنے والے مرض کے خلاف کوئی نہ کوئی ویکسین تیار کرنے کے لیے انتھک محنت کر رہے ہیں۔ کورونا وائرس اور کووِڈ انیس کو شکست دینے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ موجود ہی نہیں۔ ایسا ہو بھی جائے گا۔ لیکن کب، یہ بات کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ کرونا کے خود کے طے شدہ ضابطوں کے سامنے میڈیکل سائنس بھی لاجواب ہے
اس موذی مرض نے ایک دوسرے کو اس قدر دور کیا کہ بھائی بھائی کو کئی ہفتے دیکھ نہیں سکتا اور اگر کہیں راستے میں مارکیٹ آتے جاتے ملاقات ہو بھی جاتی ہے تو ہاتھ ملانے سے گریزکیاجاتاہے‘ وہ آپس کی محفلیں اور کھانوں کا اہتمام اب قصہ پارینہ بنتا جا رہا ہے ‘خوف اور ڈر کا سایہ اس قدر گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ قریبی رشتہ دار بھی کورونا مریض کے پاس نہیں جاتے اور تو اور مرنے والے کے ماں باپ‘ بہن بھائی بھی گھبراتے ہیں‘ لیکن کے تمام شہروں کے اندر رمضان المبارک میں شہری سحری تک قصہ خوانی اوربازاروں میں تھڑوں پر بیٹھ کر دوستوں کی گپ شپ ہوا کرتی تھیں اگرچہ ماضی کی وہ روایتیں ماند پڑ گئیں لیکن اس رمضان میں تو یہ روایت بالکل ہی ختم ہو گئی‘ دوست احباب ایک دوسرے کے ہاں جاتے خوشی میں شریک ہوا کرتے تھے مگر افسوس کہ اس بار وہ خوشیوں کی محفلیں کورونا وائرس کی وباء نے نگل لیں حالات کا دارومدار عوام کے احتیاطی تدابیر اپنانے پرہے‘ اگر حکومت اور میڈیکل ماہرین کی بتائی ہوئی احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں تو نہ صرف عوام کی مشکلات پر قابو پایا جا سکے گا بلکہ ماضی کی طرح تمام خوشیاں اور رونقیں واپس لوٹ آئیں گی‘ چونکہ اس وبا سے مکمل خاتمے کی ابھی کوئ صورت نظر نہیں آتی اسلئے احتیاط اور صرف احتیاط سے ہی اس سے بچا جا سکتا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق اٹلی جہاں کورونانے تباہی مچا رکھی تھی اور ہزاروں کے حساب سے اموات واقع ہوئ کے ڈاکٹروں نے ڈبلیو ایچ او کے بتائے ہوئے ایس او پیز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک مرنے والے مریض کا پوسٹ مارٹم کرایا جس سے پتہ چلا کہ کورونا وائرس نہیں بلکہ بیکٹیریا ہے جو خون گاڑھا کر دیتا ہے اور دل کو خون کی سپلائی بند ہو جاتی ہے اور مریض مر جاتا ہے۔ انہوں نے خون کو پتلا کرنے کیلئے کورونا وائرس کے مریض کو اسپرین کے استعمال کا مشورہ دینا شروع کیا۔ چونکہ اس پر ابھی مزید تحقیق نہیں ہوئی ہے اسلئے اسے آخری دوا نہیں سمجھا جاتا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس بیماری نے نہ صرف رشتوں میں دراڑیں ڈالی ہیں بلکہ ہمارے مذہبی فریضوں کی ادائیگی میں بھی خلل ڈالا ہے۔