جاوید احمد سری نگر
جنوبی کشمیر کے کولگام علاقے سےتعلق رکھنے والے تین پروفیسر افغانستان کی ایک یونیورسٹی میں کئ سال سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں اور گزشتہ کئ دن سے افغانستان میں طالبان کی چڑھا ئ کے بعد کابل کے آئر پورٹ سے ہو کا عالم جاری تھا اور آئر پورٹ سے دلخراش تصاویر بھی سامنے آئ تھی ۔تینوں کشمیری پروفیسرس کے اہل خانہ اپنے بچوں کے تئیں کافی فکر مند ہیں اور ان کی بحفاظت گھر واپسی کے لئے حکام سے اپیل کی ہے کیموہ کولگام سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عادل کے والد اور بھائی نے تاثیر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ کئ سال سے عادل وہاں ایک یونیورسٹی میں درس و تدریس کے خدمات انجام دے رہے ہیں اور گزشتہ کئ دن سے افغانستان میں طالبان کی چڑھا ئ کے بعد وہاں ہو کا عالم جاری ہو ا حالانکہ انکی گھر واپسی کی ٹکٹ بھی بنی ہوئ تھی لیکن ہوائ ٹریفک معطل ہو نے کے باعث کوئ بھی جہاز اڑان نہیں بھر سکا ۔ہم حکام سے اپیل کرتے ہیں کہ ہمارے پیاروں کو بحفاظت افغانستان سے نکالنے کے لیے اقدامات کریں ۔ادھر جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے وزیر مملکت برائے خارجہ امور وی مرلیدھرن سے مطالبہ کیا کہ وہ کابل کی بختار یونیورسٹی میں پڑھانے والے جنوبی کشمیر کے کولگام سے تعلق رکھنے والے پروفیسرز کو فوری طور پر وہاں سے نکالنے کے اقدامات کریں جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر نے دفتر خارجہ کے امور ، وی مرلیدھرن سے بات کی کہ وہ بختار یونیورسٹی میں کولگام کے پروفیسروں کو فوری طور پر نکالیں۔ گورنر نے ایک ٹویٹ میں کہا۔جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر نے مزید اہل خانہ کو یقین دلایا کہ وہ پروفیسرز جلد گھر پہنچ جائیں گے۔اس نے مزید کہا ، “میں پروفیسر آصف احمد اور پروفیسر عادل رسول کے اہل خانہ کو یقین دلاتا ہوں کہ وہ محفوظ ہیں اور جلد گھر پہنچ جائیں گےذرائع کے مطابق ، افغانستان سے 120 ہندوستانی حکام کل گجرات کے جام نگر پہنچے ہیں۔ اور اس سلسلے می دیگر افراد کو وہاں بحفاظت نکالنے کے اقدامات کئے جارہے ہیں طالبان اتوار کو کابل میں داخل ہوئے اور صدارتی محل کا کنٹرول سنبھال لیا۔ افغان دارالحکومت پر کنٹرول کا دعویٰ کرنے کے فورا بعد ، کئی ممالک نے اپنے سفارتی اہلکاروں کو ملک سے نکال لیا۔ افغانستان سے نکلنے کی کوشش میں سینکڑوں لوگ کابل ایئرپورٹ پر جمع ہوئے۔