انتظار

انتظار
انسان جب اس دنیا میں آیا
گھرا اپنوں میں خود کو پایا
راہ زندگی پر بڑھتا گیا وہ
سیڑھیاں عمر کی چڑھتاگیا وہ
پانا تھا اس کو ایک ایسا مقام
جہاں پر ہو روشن اسکا نام
کامیابی تو ہونے لگی حاصل
پر زندگی اب لگنے لگی مشکل
قدم چومتی تھی دولت و شہرت
خود سے ملنے کی رہی نہ مہلت
مصروفیت میں کچھ چلا نہ پتہ
کیسے اپنے ہوئے جا رہے تھے جدا
زندگی اسے اس مقام پر لائی
محسوس ہو رہی تھی شدید تنہائی
ایسا اپنا تھا اب کوئی کہاں
کرے جس سے وہ اپنا درد بیان
سبھی بچھڑے ہوئے آ رہے تھے یا د
ہر گھڑی لب په تھی یہی فریاد
کاش ایک بار سب مل جائیں کہیں
یھاں نہی تو اس جہاں میں سہی
لگ رہی تھی اب یہ دنیا بیکار
کر رہا تھا وہ ایک ہی انتظار
پیاری موت آخر کب آئے گی تو
میرے اپنوں سے کب ملائےگی تو
شمایم دنیا کے ایسے ہیں سپنے
پانے میں جن کو کھو جائیں اپنے