جموں و کشمیر میں چاروں طرف سب کا ساتھ، سب کا وِکاس

Dr. Sanjay Jaiswal, MP (Bettiah)
(ڈاکٹر سنجے جیسوال، رکن پارلیمنٹ بیتیا )

سب کا ساتھ، سب کا وِکاس یعنی ہر کسی کے تعاون سے چلنے والی اور سبھی کو ترقی کے سفر میں حصہ دار بنانے والی حکومت۔ سال 2014 سے اسی اصول پر کام کر رہی نریندر مودی کی حکومت اگر کسی علاقے میں اسے پوری طرح نافذ کرنے میں کچھ پیچھے تھی، تو وہ تھی جموں و کشمیر کی سرزمین۔ اور اس کے پیچھے سب سے بڑی وجہ تھی وہاں کی مخصوص قانونی صورتحال۔ دفعہ 370 کے سبب نہ تو وہاں کے لوگوں کو اپنے تمام آئینی حقوق حاصل ہو پا رہے تھے اور نہ ہی مرکز کی جانب سے چلائی جا رہی فلاحی اسکیموں کا انہیں فائدہ مل پا رہا تھا۔ عوام الناس کی بے چینی علاقے کے نوجوانوں کی سوچ سے ظاہر ہو رہی تھی۔
5-4 اگست، 2019 کو آئین کی دفعہ 370 اور اسی کے ساتھ دفعہ 35 اے کو منسوخ کرکے مودی حکومت نے جموں و کشمیر اور لداخ کے باشندوں کے سامنے با اختیاری اور ترقی سے پُر ایک نئی دنیا کا دروازہ کھول دیا۔ جو بیج دو سال پہلے بویا گیا تھا، اس کے کونپل اور اس کی نرم شاخیں پہلے قانونی التزام، پھر شہری اور تجارتی ادارے اور اب گاؤں گاؤں میں نظر آ رہی ہیں۔ ترقی اور با اختیاری کے اس بیج کو اب ایک بڑے، سایہ دار درخت بننے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔
سماجی بھید بھاؤ کا خاتمہ
اگر بات سرحدی علاقوں سے شروع کی جائے تو آزادی کے فوراً بعد اور پاکستان کے دو جنگوں میں پناہ گزین بن کر جموں و کشمیر میں آئی ایک بہت بڑی آبادی دفعہ 370 کے سبب مقامی باشندہ کے حقوق حاصل نہیں کر پا رہی تھی۔ المیہ یہ کہ لوک سبھا کے انتخابات میں تو اپنے حق رائے دہی کا استعمال کر سکتے تھے مگر اسمبلی اور مقامی ادراوں کے انتخابات میں نہیں۔ بھید بھاؤ کی دردناک کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔
سماج کے محروم طبقہ کو بھی کئی طرح سے ظلم و ستم کا شکار ہونا پڑ رہا تھا۔ اور یہ سلسلہ کئی دہائیوں تک چلتا رہا۔ ایک طرف جہاں شیخ عبداللہ کے حامی ان کے اصلاح اراضی کے اقدامات کی تعریف کرتے تھے، تو وہیں وہ بھول جاتے تھے کہ آزادی کی کئی دہائیوں کے بعد بھی کچھ محروم طبقوں کو اپنا پیشہ چُننے کی آزادی نہیں ملی۔ ایک صفائی ملازم کے بچے کو تمام ڈگریاں لیکر بھی وہی کام کرنا پڑ رہا تھا اور اس ذلت، اس مجبوری کی بات کو کہیں اٹھا تک نہیں سکتے تھے۔
خواتین کو سماجی تحفظ
بھید بھاؤ اور ظلم و ستم صرف سماج کے کچھ طبقوں تک ہی محدود نہیں تھے۔ پورے جموں، کشمیر اور لداخ کی خواتین پر ہمیشہ ایک تلوار لٹکتی رہتی تھی۔ دفعہ 35 اے کے تحت جموں و کشمیر کے باشندوں کے لیے مخصوص التزامات کیے گئے تھے، جس کے تحت کوئی بھی مقامی خاتون اگر کسی غیر باشندہ سے شادی کرے تو وہ مقامی باشندہ کے حق یعنی ’اسٹیٹ سبجیکٹ‘ کا حق کھو دیتی تھی۔ اب نہ صرف یہ نا انصافی پر مبنی التزام ختم ہوا ہے بلکہ اس کے شوہر کو وہاں کے حقوق دیے جانے کا نیا التزام بھی متعارف کرایا گیا ہے۔ بیٹیوں سے رشتہ ختم کرنے کی بجائے اب نئے رشتے استوار کرنے کا آغاز ہوا ہے۔
علاقائی عدم توازن کا خاتمہ
جموں و کشمیر آنے جانے والا ہر شہری یہ جانتا ہے کہ بھید بھاؤ کا درد صرف سماج کے کچھ طبقوں تک محدود نہیں تھا۔ علاقائی عدم توازن کی شکایت سب سے زیادہ تھی۔ لیکن تمام مظاہروں، تحریکوں کے باوجود کچھ خاص تبدیلی نہیں آئی تھی۔ اب ایسے ٹھوس قدم اٹھائے جا رہے ہیں جس سے عدم توازن کی جڑ میں جو وجہ ہے اسے دور کیا جا سکے۔ اسمبلی اور لوک سبھا کے حلقہ انتخاب کی حد بندی اسی سمت میں اٹھایا گیا ایک بہت ہی اہم قدم ہے۔ لوگوں، خاص کر دور دراز کے علاقوں میں رہنے والوں کے لیے، وزیر یا رکن پارلیمنٹ سے کہیں زیادہ ان کے مقامی نمائندوں کی اہمیت ہوتی ہے۔ کبھی دہشت گردی، کبھی خصوصی قانون اور مین اسٹریم سے الگ رہ کر مقامی سیاسی آرزوؤں کی وہاں ہمیشہ اندیکھی ہوئی ہے۔ پہلی دفعہ ڈی ڈی سی کے انتخاب سے یہ کمی دور کرنے کی کوشش ہوئی۔ جب حدبندی کا عمل پورا ہو جائے گا تو یہ بھی صاف ہو جائے گا کہ دہائیوں سے پاک حمایت یافتہ دہشت گردی، اقتصادی سرگرمیوں میں کمی اور دیگر وجوہات سے جموں و کشمیر کے پارلیمانی و اسمبلی حلقوں کی شکل و صورت کتنی بدل چکی ہے۔ تبھی صحیح معنوں میں اسمبلی انتخابات کا مطلب ہوگا۔
ترقی کی رفتار ہوئی تیز
ترقیاتی کاموں میں بھید بھاؤ مٹانا، حساسیت پیدا کرنا اور رفتار کو برقرار رکھنا، آج ان تمام باتوں کو ذہن میں رکھا جا رہا ہے۔ ضلع ہی نہیں، اس سے بھی نچلی سطح پر جانا اور افسروں کا گاؤں میں جاکر لوگوں سے ان کی دشواریوں کا بیورہ لینا لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی انوکھی پہل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ لیکن قیادت، انتظامیہ کی ذمہ داری صرف پریشانیوں کا بیورہ لینے سے پوری نہیں ہوتی۔ آج ہر ضلع میں خصوصی تقرری مہم چلائی جا رہی ہے۔ ’بیٹ ٹو ولیج‘ پروگرام کے تحت گاؤں گاؤں میں نوجوانوں کے لیے خود روزگار، آسانی سے مالی مدد مہیا کرانا اور مرکزی اسکیموں کے ذریعے ایک روشن مستقبل کی بنیاد ڈالنے کے لیے آمادہ کیا جا رہا ہے۔
انتہا پسند طاقتوں کی چنوتی
سوال صرف روزگار کا نہیں ہے۔ جموں و کشمیر، خاص طور پر وادیٔ کشمیر کا نوجوان طبقہ اور جموں کے سرحدی علاقوں کے نوجوانوں پر پاکستانی امداد یافتہ طاقتوں کی بری نظر ہے۔ اگست 2014 کے بعد پورے علاقے میں آگ لگ جانے کی پیشن گوئی کرکے دنیا بھر میں شور مچانے والا پاکستان آج ٹھگا ہوا محسوس کر رہا ہے۔ علاقے میں امن اور ترقی کی رفتار دیکھ کر سرحد پار بیٹھی طاقتوں میں بوکھلاہٹ ہے۔ سیکورٹی فورسز کی مستعدی سے دہشت گردی اور اپنی آخری سانسیں گن رہی ہے۔ ایسے میں ان طاقتوں کے لیے نوجوانوں کو زبردستی انتہا پسندی کی جانب دھکیلنا ہی واحد راستہ رہ گیا ہے۔ اسی لیے ترقیاتی کاموں، بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرنے اور تعلیم و روزگار کے بہترین مواقع کے لیے نوجوان طبقہ میں حب الوطنی اور تخلیقی توانائی کی آبیاری بھی ضروری ہے۔ یہی کام آرمی کی ’آپریشن سدبھاونا‘ اور انتظامیہ کی جانب سے چلائے جا رہے ’مشن جے اینڈ کے یوتھ‘ کا فوکس ہے۔ جموں و کشمیر کے باشندے ترقیاتی کاموں سے پوری طرح مستفید ہوں، دہشت گردی و تشدد سے پاک زندگی بسر کریں اور نوجوان اسی طرح ملک کی ترقی میں تخلیقی تعاون فراہم کریں جیسے بھارت کے دیگر حصوں میں ان کے ساتھی، یہی کشمیر میں اُس نئی صبح کی تعریف ہے جس کی بات تو دہائیوں سے وہاں کے لیڈر کہہ کر لوگوں کو فریب دیتے رہے، لیکن اب وہ صبح افق پر چمکتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔