خالدہ ضیا علاج کیلئے بیرون ملک نہ گئیں تو ان کی جان کو خطرہ ہے: ڈاکٹرز

ڈھاکہ،29نومبر- بیمار اپوزیشن رہنما اور سابق وزیر اعظم خالدہ ضیا کا علاج کرنے والے بنگلہ دیشی ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ اگر انہیں علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت نہ دی گئی، تو ان کی جان کو خطرہ ہے۔ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق موجودہ وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی سخت مخالف 76 سالہ خالدہ ضیا کو جگر کی بیماری کی تشخیص ہوئی ہے۔ان کے ڈاکٹروں نے بتایا ہے کہ انہیں گزشتہ دو ہفتوں میں تین مرتبہ انٹرنل بلیڈنگ (جسم کے اندر خون بہنے) کا سامنا رہا تھا۔ان کے ڈاکٹر فخرالدین محمد صدیقی نے اپنے گھر پر رپورٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یہاں پر جسم کے اندر خون بہنے کو کنٹرول کرنے اور روکنے کے لیے وسائل اور ٹیکنالوجی نہیں ہے۔اس موقع پر ان کے ہمراہ ان کی میڈیکل ٹیم میں چار دیگر ڈاکٹرز بھی موجود تھے۔انہوں نے کہا کہ اس بات کا 50 فیصد امکان ہے کہ خالدہ ضیا کو اگلے ہفتے میں ایک مرتبہ پھر خون بہنے کا سامنا کرنا پڑے گا اور 70 فیصد امکان ہے کہ یہ اگلے 6 ہفتوں میں ہوگا۔انہوں نے کہا کہ خون کے بہاؤ پر قابو پانے کے امکانات بہت کم ہیں، ’اس صورت میں ان کی موت کا خطرہ زیادہ ہے، اگر ہم مریض کی جان بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں آئی پی ایس کرنے کی ضرورت ہے۔واضح رہے کہ ٹی آئی پی ایس ایک جدید ترین طبی طریقہ کار ہے جو اندرونی سطح پر خون کے بہاؤ کو روکنے میں مدد فراہم کرتا ہے، یہ صرف ترقی یافتہ ممالک جیسے امریکہ، برطانیہ اور جرمنی میں دستیاب ہے۔خالدہ ضیا کووڈ 19 سے صحت یاب ہونے کے صرف پانچ ماہ بعد 13 نومبر سے ڈھاکہ کے ایک ہسپتال کے کریٹیکل کیئر یونٹ (سی سی یو) میں ہیں۔تاہم مرکزی اپوزیشن پارٹی کی رہنما کو عدالت نے 2018 میں بدعنوانی کے الزامات میں سزا سنائے جانے کے بعد ملک چھوڑنے سے روک دیا تھا۔ان کی حالت بگڑنے پر ان کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے کارکنوں اور حامیوں نے ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے اور کہ انہیں علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی جائے۔
شیخ حسینہ واجد رواں ماہ کے آغاز میں خالدہ ضیا کے خاندان اور ان کی پارٹی کی درخواستوں کو مسترد کرتی نظر آئی تھیں۔ایک پریس بریفنگ میں ان کا کہنا تھا کہ’میں خالدہ ضیا کے لیے جو کچھ کر سکتی تھی وہ کیا، اب قانون آئندہ کے لائحہ عمل کا فیصلہ کرے گا‘۔ایک وزیر نے یہ بھی تجویز دی کہ بی این پی بیرون ملک سے ڈاکٹروں کو لے کر آجائے۔ خالدہ ضیا کو فروری 2018 میں کرپشن کے الزام میں 10 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔اس فیصلے کے بارے میں 2001 سے 2006 تک اقتدار میں رہنے والی بی این پی کا کہنا ہے کہ اسے سیاسی بنیادوں پر سنایا گیا تھا۔