امریکہ چین کے ہائپر سونک میزائل کو بڑا خطرہ کیوں سمجھتا ہے؟

واشنگٹن،3دسمبر- امریکی وزیر دفاع نے جمعرات کو چین پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ واشنگٹن ایشیا میں ممکنہ فوجی خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ انہوں نے انتباہ کیا کہ امریکہ کے میزائل شکن دفاعی نظام سے بچنے کے لیے ہائپر سونک ہتھیاروں کے حصول کی طرف چین کی پیش رفت سے خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہو گا۔وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کی جانب سے امریکہ کے قریبی اتحادی جنوبی کوریا کے ساتھ سالانہ سیکیورٹی مذاکرات کے بعد سخت بیانات بائیڈن انتظامیہ کی خارجہ پالیسی کی بڑی پریشانیوں میں سے ایک کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یعنی واشنگٹن اور اس کے شراکت دار کس طرح چین کی فوج کا راستہ روک سکتے ہیں جس کے ہتھیاروں اور اعتماد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ چین خطے میں امریکی تسلط کے خاتمے کی کوششیں بھی کر رہا ہے۔
چین زیادہ تر ایشیا کو اپنے اثر و رسوخ کے قدرتی دائرے کے طور پر دیکھتا ہے۔ لیکن خطے میں بہت سے لوگ چین کی جانب سے اپنے حریفوں پر غلبہ پانے کے لیے درکار ہتھیاروں کے حصول کی کوششوں اور دخل اندازی کے انداز سے خبردار کر رہے ہیں۔آسٹن کے تبصرے جولائی میں چین کی جانب سے ہائپرسونک ہتھیار کے تجربے کے بارے میں تھے، جو فضا میں دوبارہ داخل ہونے اور اپنے ہدف تک گلائیڈنگ کرنے سے پہلے جزوی طور پر زمین کے گرد چکر لگانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کا جدید ہتھیاروں کا نظام واضح طور پر امریکی میزائل ڈیفنس سسٹم سے بچنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، جب کہ چین کا اصرار ہے کہ اس نے ایک ایسی خلائی گاڑی کا تجربہ کیا جسے دوبارہ استعمال کیا جا سکتا ہو، نہ کہ میزائل کا۔آسٹن نے ہائپر سونک ہتھیاروں کے ٹیسٹ کے متعلق کہنا تھا کہ ” ہمیں ان فوجی صلاحیتوں کے بارے میں خدشات ہیں جن کے حصول کی کوششیں چین کر رہا ہے۔ ان صلاحیتوں سے خطے میں تناؤ بڑھے گا۔انہوں نے کہا، “ہم چین کی طرف سے خود کو اور اپنے اتحادیوں کو لاحق ممکنہ خطرات سے دفاع اور اسے روکنے کی صلاحیتوں کو برقرار رکھیں گے۔”
آسٹن نے جہاں چینی فوج کی صلاحیت کو امریکہ کے لیے تیزی سے بڑھتا ہوا چیلنج قرار دیا وہیں وضاحت کی کہ امریکہ تمام شعبوں میں اپنی صلاحیت بڑھانے پر متوجہ ہے اور صرف ہائپر سونک میزائل کی جانب اس کی توجہ نہیں ہے۔پینٹاگان نے عالمی صورت حال کے جائزے سے متعلق اپنی رپورٹ میں “چین کی ممکنہ فوجی جارحیت اور شمالی کوریا کی طرف سے خطرات” کے مقابلے کے لیے اتحادیوں کے ساتھ اضافی تعاون کا مطالبہ کیا ہے۔گزشتہ ماہ،جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل مارک ملی نے کہا تھا کہ امریکہ ہائپر سونک ہتھیاروں پر بھی کام کر رہا ہے۔ لیکن واشنگٹن میں یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ وہ اس قسم کے ہتھیاروں کے حصول میں چین اور روس سے پیچھے ہے۔ روس نے پیر کو کہا تھا کہ اس کی بحریہ نے ایک ممکنہ ہائپر سونک کروز میزائل کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ہائپرسونک ہتھیار، جو کہ آواز کی رفتار سے پانچ گنا زیادہ تیزی سے پرواز کرتے ہیں، میزائل دفاعی نظام کے لیے اہم چیلنج بن سکتے ہیں۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہائپر سونک میزائلوں سے ہتھیاروں کی ایک نئی دوڑ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔امریکی وزیر دفاع آسٹن نے کہا ہے کہ وہ جنوبی کوریا کے وزیر دفاع سو ووک کے اس خیال سے اتفاق کرتے ہیں کہ شمالی کوریا کا بڑھتا ہوا ہتھیاروں کا پروگرام “علاقائی سلامتی کو تیزی سے عدم استحکام کی جانب دھکیل سکتا ہے۔”آسٹن کا مزید کہنا تھا کہ ان کے اتحادی، شمالی کوریا کی جانب سفارت کاری کی کوششیں جاری رکھیں گے۔یہ خیال کیا جاتا ہے کہ شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاروں میں حالیہ برسوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ 2016 اور 2017 میں متعدد طاقت ور میزائل اور جوہری تجربات کرنے کے بعد شمالی کوریا نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے امریکی سرزمین پر جوہری حملہ کرنے کی صلاحیت حاصل کر لی ہے۔ جنوبی کوریا کے 2018 میں لگائے گئے اندازوں کے مطابق اس وقت تک شمالی کوریا 60 کے لگ بھگ جوہری ہتھیار بنا چکا تھا۔کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے نتیجے میں شدید اقتصادی مشکلات میں گھرے ہونے کے باوجود شمالی کوریا تحفیف اسلحہ کے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی امریکی پیش کشوں کو مسلسل مسترد کرتے ہوئے یہ کہتا رہا ہے کہ پہلے امریکہ کو اپنی دشمنی ترک کرنا ہو گی۔ جب کہ بائیڈن انتظامیہ کا موقف ہے کہ شمالی کوریا پر بین الاقوامی پابندیاں اس وقت تک برقرار رہیں گی جب تک وہ ملک کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کرتا۔شمالی کوریا کی ممکنہ جارحیت کو روکنے کے لیے امریکہ نے جنوبی کوریا میں اپنے تقریباً 28,500 فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔ جمعرات کی ملاقات کے دوران، آسٹن نے مشترکہ بیان میں کہا کہ امریکہ جنوبی کوریا میں اپنی افواج کی موجودہ سطح کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔آسٹن اور ان کے جنوبی کوریا کے ہم منصب سو ووک نے جاپان کے ساتھ سہ فریقی تعاون جاری رکھنے کا بھی عہد کیا۔ لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ جنوبی کوریا اور جاپان کس طرح جزیرہ نما کوریا میں موجود ان کشیدگیوں پر قابو پا سکتے ہیں جو سن 1910 سے 1945 کے دوران اس خطے پر ٹوکیو کے نوآبادیات کے دور میں پیدا ہوئی تھیں۔