…….ایک صلح حدیبیہ اور سہی!

نماز فجر کی اذان لاؤڈاسپیکر سے نہیں دئے جانے سے متعلق ریاست کرناٹک کے علمائے کرام کے ذریعہ لیا گیا متفقہ فیصلہ حد درجہ قابل ستائش ہے۔کچھ لوگ اسے دیر سے اٹھایا گیا صحیح قدم بھی قرار دے رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ فیصلہ ریاستی حکومت کے ذریعہ جاری اس سرکلرکے تناظر میں لیا گیا ہے ، جس میں رات دس بجے سے صبح چھ بجے تک لاوڈ اسپیکر کا استعمال نہیں کرنے کی بات کہی گئی ہے، لیکن اس اعتبار سے بھی یہ فیصلہ قابل قدر ہے کہ اس میں انانیت اور جذباتیت آڑے نہیں آئی ہے۔بصورت دیگر برے دل و دماغ کے لوگوں کو اسلام اور اسلام کے ماننے والوں کے خلاف ، پورے ملک میں،ماحول سازی کا ایک دوسرا ایشو آسانی سے ہاتھ لگ جاتا۔چونکہ اسلام میںاور تو اور بے مقصد خود کو بھی ایذا رسانی کی اجازت نہیں ہے۔ چنانچہ اگر ہماری گفتگو کی آواز، انداز اور لب و لہجہ سے بھی اگرکسی کو تکلیف پہنچنے کا اندیشہ لاحق ہو تو چاہئے کہ اپنے رویہ میں تھوڑی تبدیلی لانے کی کوشش کی جائے۔[
آپ کو یاد ہوگا کہ ایک برس پہلے بالی ووڈ کے مشہور نغمہ نگار جاوید اخترنے لاؤڈ اسپکر سے اذان دئے جانے کی تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اس سے پریشانی ہوتی ہے۔لہٰذا، اذان لاوڈ اسپیکرسے نہیں دینی چاہئے۔‘‘انھوں نے جذبات میں آکر یہ بھی کہہ دیا تھا کہ’’ جب لاؤڈ اسپیکر کی ایجاد نہیں ہوئی تھی ، اس سے پہلے سے ہی اذان دئے جانے کی روایت رہی ہے۔ لاؤڈ اسپیکرکے وجود میں آنے کے بعد یعنی لاؤڈ اسپیکر کے شروعاتی دنوں میں مائک سے اذان کو ممنوع قرار دے دیا گیا تھا، لیکن پھر لاؤڈ اسپیکر سے اذان دینےروایت چلی تو پھر چل پڑی۔انھوں نے مائک سے اذان دینے والوں سےاس امید کا اظہار بھی کیا تھا کہ’’ لوگوں کو ہو رہی پریشانی کو سمجھتے ہوئے لاوڈ اسپیکر سے اذان دینا وہ خود ہی بند کردیں گے۔‘‘ ظاہر ہے جاوید اختر کا بیان متوازن نہیں تھا۔ چنانچہ انھیں زبردست عوامی تنقید کا سامنا پڑا۔انھیں اتنا سخت اور طنز آمیز بیان بالکل نہیں دینا چاہئے تھا۔بر سبیل تذکرہ یہاں قابل ذکر یہ بھی ہے کہ دو تین برس قبل بالی ووڈ نغمہ نگار سونو نگم نے بھی اذان کے سلسلے میں یہی بات کہی تھی۔ تب بھی کافی ہنگامہ ہوا تھا۔ انہوں نےکہا تھا کہ ان کےگھر کے آس پاس بہت سی مسجد یں ہیں۔ اکثر انھیں ایک ہی وقت میں کئی بار اذان سننی پڑتی ہے، جس سے ان کی نیند میں خلل پڑتا ہے۔
دوسری طرف مائک سے اذان کے معاملے کو لیکر ملک کی ، بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں کے ماحول کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔کرناٹک کے حالات تو اور بھی ناگفتہ بہہ ہیں۔ ایسے میں ’’صلح حدیبیہ‘‘ میں مضمر تدبر، تحمل اوراس کے دور رس نتائج کو یاد کرتے ہوئے ہمیں دو قدم پیچھے ہٹنے اور اعتدال کا راستہ اختیار کرنے میںاحساس شکستگی کا شکار ہر گز نہیں ہونا چاہئے۔ جب ان کے لئے ان کا دین ہے اور ہمارے لئے ہمارا دین ہے، تو پھر ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہم اپنے مقدس دینی کلمات کو جبراََ ان کے کانوں میں انڈیلیں، جو لاؤڈ اسپیکر سے اذان کی مخالفت کر رہے ہیں؟ اگربظاہر ہماری ایک چھوٹی سی حکمت عملی سے شب وروز کے شور شرابہ کے متعدد راستوں کو بند کرنے کا قانونی راستہ ہموار کرنے کی پوزیشن میں ہے تو’’ایک اور صلح حدیبیہ اور سہی۔
بہر حال ملک کے تمام مسلمانوں سے ہماری اپیل ہوگی کہ صوتی آلودگی سے متعلق سپریم کورٹ کے ذریعہ 2005 میں دی گئی ہدایت کو غور سے پڑھنے، سمجھنے اور اس پر صد فیصد عمل پیرا ہونے کی کوشش کی جائے۔جن اوقات میں لاؤڈ اسپیکر سے اذان دئے جانے میں کسی کو کوئی دشواری نہیں ہے، اس وقت بھی اسپیکر کا وولیوم سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق ہی رکھا جائے۔اس کے علاوہ اذان دینےکے کام پر ترجیحی بنیاد پر ایسے مؤ ذن حضرات کو مامور کیا جائے، جن کی آواز اذان کی شایان شان ہو۔ہمیں اللہ کی ذات سے پورا یقین ہے کہ چند ہی دنوں میں حالات بدل جائیں گے۔ ہم ان میں سے کئی ایسے لوگوں کو جانتے ہیں، جو اذان کی بہترین آواز سننے کے لئے ترستے رہتے ہیں۔