بنگلہ دیش معاشی بحران کی زد میں

درآمدات پر ہونے والے خرچ کے بڑھنے اور اس تناسب میں برآمدات سے ہونے والی آمدنی میں اضافہ نہیں ہونے کی وجہ سے بنگلہ دیش تقریباََمعاشی بحران کی زد میں آگیا ہے۔موجودہ معاشی حالات کے پیش نظر ماہرین اقتصادیات نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ بنگلہ دیش کی حالت بھی سری لنکا جیسی ہو سکتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش کے درآمداتی اخراجات میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر ختم ہو رہے ہیں۔ بین الاقوامی منڈی میں اشیائے ضروریہ، خام مال و ایندھن اورسامان کی نقل و حمل وغیرہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے سے بنگلہ دیش بری طرح متاثر ہوا ہے۔ سری لنکا کے دیوالیہ ہونے کے بعد بنگلہ دیش میں بھی حالات تیزی سے خراب ہو رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کے درآمداتی اخراجات میں اضافہ بنگلہ دیش کے لیے تشویشناک بات ہے۔کیوں کہ اس کے درآمداتی اخراجات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جبکہ اس کی برآمداتی آمدنی میں زبردست کمی آئی ہے۔ جولائی ، 2021سے مارچ، 2022 کے عرصے میں بنگلہ دیش کے درآمداتی اخراجات میں 44 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ بنگلہ دیش کے ایک اخبار ی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش کے درآمداتی اخراجات میں جس شرح سے اضافہ ہوا ہے، برآمدات سے ہونے والی آمدنی اس تناسب نہیں میںبڑھ پائی ہے۔ اس کی وجہ سے تجارتی خسارہ کا بڑھنا اور زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ کا پڑنا فطری ہے۔چنانچہ تجارتی خسارہ گزشتہ کئی ماہ سے بتدریج بڑھ رہا ہے۔
دنیا جانتی ہے کہ سری لنکا کے زرمبادلہ کے ذخائر بھی تقریباً ختم ہو چکے ہیں۔جس کی وجہ سے وہ کنگالی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر کے معاملے میں بنگلہ دیش بھی سری لنکا کے ہی نقوش قدم پر چل رہا ہے۔ یعنی بنگلہ دیش کے زرمبادلہ کے ذخائر خالی ہوتے جا رہے ہیں۔ ملک میں جتنا زرمبادلہ بچا ہے،اس سے صرف 5 ماہ تک کام چلایا جا سکتا ہے۔اگر عالمی منڈی میں قیمتیں مزید بڑھتی ہیں تو بنگلہ دیش کے درآمداتی اخراجات میں مزید اضافہ ہوگا ۔اس طرح زرمبادلہ کے ذخائر پانچ ماہ سے پہلےبھی ختم ہو سکتے ہیں۔قابل ذکر ہے کہ2021-22 کے جولائی سے مارچ کے درمیان بنگلہ دیش میں22 ارب ڈالر کے صنعتی خام مال کی درآمد ہوئی ہے، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں54 فیصد زیادہ ہے۔ خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ کے سبب درآمدات 87 فیصد بڑھی ہے۔کنزیومرز پروڈکٹس کی درآمدات پر41 فیصد درآمدات بل بڑھا ہے۔ ان اعداد و شمار سے ظاہر ہے کہ درآمدات پر خرچ بڑھتا جا رہا ہے۔اس طرح بنگلہ دیش کی درآمدات کا ہدف مالی سال 2021-22کے پہلے 10 مہینوں میں ہی پورا ہو گیا تھا۔ بنگلہ دیش نے اس دوران43.34 ارب ڈالر کے پروڈکٹس کی درآمد کی، جو گزشتہ سال سے 35 فیصد زیادہ ہے۔ جولائی 2021 سے اپریل 2022 کے درمیان گارمینٹس ایکسپورٹس، چمڑے اور اس سے بنے پروڈکٹس کی درآمد بڑھ کر ایک ارب ڈالر سے اوپر پہنچی ہے۔
دوسری جانب اگر عالمی منڈی کی بات کریں تو اس وقت تیل کی قیمتوں میں اضافے اورروس اور یوکرن کے درمیان جنگ کے اثرات پوری دنیا میں نظر آرہے ہیں۔ خاص طور پرامریکہ میں بھی اس کی وجہ سے معاشی سست روی کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے ساتھ ہی حکومتوں سے فوری طور پرمعقول اقدامات کی اپیل کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش کے پاس اس وقت 42 بلین امریکی ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر موجود ہیں۔ لیکن بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)، بنگلہ دیش پر غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کا درست حساب کتاب کرنے کے لیے مسلسل دباؤ بھی ڈال رہا ہے۔ اگر بنگلہ دیش آئی ایم ایف کی اس ہدایت پر سختی سے عمل کرتا ہے، تو برآمداتی کریڈٹ فنڈز، سرکاری پراجیکٹس، سری لنکا کو دی جانے والی رقم اور بنگلہ دیش کے سرکاری بینک ’’سونالی بینک‘‘ میں جمع رقم کا حساب لگانا پڑے گا۔سر دست یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے کہ ملک کے معاشی حالات کیسے ہیں۔ ویسے یہ بھی خبر ہے کہ دھیرے دھیرے وہاں معاشی حالت بہتری کی جانب بڑھ رہی ہے۔اسے بنگلہ دیش کے لیے امید کی کرن کہا جا سکتا ہے کیونکہ ملک کی برآمدات مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ بنگلہ دیش کی حکومت نے بھی معاشی بحران کے پیش نظر معیشت کو تحریک دینے کے لیے مختلف اصلاحاتی منصوبوں پر کام شروع کر دیا ہے۔وزیر خزانہ مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ حکومت نے غیرملکی زر مبادلہ بحران سے بچنے کے لئے ان منصوبوں کو چھ ماہ یا اس سے زیادہ دنوں کے لئے مؤخر کیا جا سکتا ہے۔ادھر زرمبادلہ بچانے کے لئےدیگر اقدامات کے ساتھ سرکاری اہل کاروں کو ہدایت دی گئی ہے کہ جب تک ضروری نہیں ہو وہ کوئی غیر ملکی دورہ نہیں کریں گے۔
معاشی طور پر مشکل حالات سے گزرتے ہوئے بنگلہ دیش کی سرشت میںیہ جذبہ موجود ہے کہ برے سے برے حالات سے مقابلہ کرتے ہوئے معاشی استحکام کے معاملے میں وہ بھارت سمیت دیگر پڑوسی ممالک کوپیچھے چھوڑ سکتا ہے۔لہٰذا، یہ امید کی جانی چاہئے کہ سخت اقدامات کی بدولت جلد ہی وہ حالات پر قابو پا لیگا۔
*******