غداری کا قانون منسوخ ہوگا ؟

Posted on May 13th, 2022 | Editorial

بھارت کے مجاہدین آزادی کو اوقات میں رکھنے کے لئے انگریزی حکومت کے ذریعہ بنائے گئے غداری کے قانون کے مطابق کارروائی پر سپریم کورٹ کےذریعہ فی الحال روک لگا دئے جانے کی وجہ سے ملک نے قدرے راحت کی سانس لی ہے۔یہ وہی قانون ہے ، جس کا انگریزوں نے من مانے ڈھنگ سے استعمال کرکےحصول آزادی کی جدو جہد کو اتنا مشکل ترین بنا دیا تھاکہ اگر ہمارے آبا و اجداد میںجنون کی حد تک حب الوطنی کا جذبہ موجزن نہیں ہوتا تو یہ معرکہ کبھی سر نہیں ہو سکتا تھا۔ جی ہاں، یہ وہی قانون ہے جو آزادی کے 70برسوں کے بعد بھی اپنے ملک میں نافذ ہے۔اور اس طرح نافذ ہے کہ اس نے لفظ’’ غداری‘‘ کی آڑ میں انتقامی سیاست کے تمامتر رکارڈ کو بریک کر دیا ہے۔ہاں، یہ وہی قانون ہے کہ اس کے رہتے کسی کو سر اٹھاکر چلنےکی اجازت نہیں ہے۔ ان کی مرضی کے خلاف اب تک جن لوگوں نے بھی بولنے کی ہمت کی ہے ، وہ برسوں سے سلاخوں کے پیچھےہیں۔ اس قانون کا بے جا استعمال کرکے ملک کو آئین کے مطابق چلانےکی بجائے پچھلے کچھ دنوں سےاپنے حساب سے چلانے کی کوششیں ہونے لگی تھیں۔جب پانی ناک سے اوپر سے گزرنے لگا تھا تو چند محبان وطن کو اس قانون کے خلاف سپریم کورٹ جانے کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل نہیں رہ گیا تھا۔ سپریم کورٹ کےفیصلے کے بعد ملک کو راحت نصیب ہوئی ہے۔ اب پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے من مانے ڈھنگ سے اس قانون کا استعمال نہیں کرسکیں گے۔اب ملک میں غیر معلنہ طور پر نافذ مطلق العنانیت پر کوئی بھی شہری انگلی اٹھا سکتا ہے، سوال پوچھ سکتا ہے۔ سپریم کورٹ نےسب کے لبوں کو آزاد کر دیا ہے۔

خیال رہے کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے کے لئے اختیاریافتہ دیگر ایجنسیوں کے اہل کار وں کی من مانی کی وجہ سے پچھلی تمام حکومتوں میں بے گناہ شہری قید و بند کی صعوبتیں جھیلتے رہے ہیں۔ لیکن موجودہ دور میں جیل میں سڑنے والوں کی تعداد نسبتاََ زیادہ ہے۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں اس قانون کے غلط استعمال کا چلن بہت بڑھا ہے ۔1934 سے 1937 تک بھارت کے سپریم کونسل کے لا ممبر اور اور لا کمیشن کے ہیڈ لارڈ میکالے نے ہی انڈین پیلن کوڈ کی ڈرافٹ نگ کی تھی ۔اسی نے سب سے پہلے اس قانون کو آئی پی سی میں شامل کیاتھا۔1860میں سہواًاسےآئی پی سی شامل نہیں کیا جاسکاتھا، لیکن بعد( (1890میںاسےآئی پی سی کی دفعہ 124Aکے تحت قابل سزا جرم قرار دیاگیاتھا۔اس قانون کے تحت جسے سزا دی جاتی تھی ، اس کا مقصدمجرم کو قدرتی زندگی سے محروم کرنا اور سمندر پار بھیجنا تھا۔اس قانون استعمال مجاہدین آزادی کے خلاف تو ہوا ہی آزادی کے بعد بھی اس کا خوب غلط استعمال ہوا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ اس قانون کے جواز کو پہلے بھی چیلنج کیا جاتا رہا ہے۔انسانی حقوق، آزادی اوراظہار خیال کے علمبردار اس قانون کے جوازاور اسکے غلط اور سیاسی مقاصد کے استعمال کے خلاف برابر آوازاٹھاتے رہے ہیں۔ بات عدالتوں تک بھی پہنچی ہے،لیکن اس کا کوئی خاص نتیجہ کبھی سامنے نہیں آیاہے۔آج کے حالات یہ ہیں کہ اس قانون کے تحت 12 برسوں میں 867 مقدمات درج ہوئے ہیں اور 13 ہزار ملزمان بنائے گئے ہیں۔ لیکن ٹرائل کے دوران صرف 13 ملزمین کا جرم ثابت ہو سکا ہے۔ اگر ہم 2010 سے 2021 تک کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ جن پانچ ریاستوں میں سب سے زیادہ اس قانون کا استعمال کیا گیا ہے ان میں بہار، تمل ناڈو ، اتر پردیش، جھارکھنڈ اور کرناٹک کے نام شامل ہیں۔اس قانون کے تحت تعلیمی اداروں اور طلبہ پر بھی مقدمات بھی درج کیے گئے ہیں اور 144 کو ملزم بنایا گیا۔سیاسی کارکنوں کے خلاف 66 کیسز درج کیے گئے اور 117 ملزمان بنائے گئے۔ دوسری جانب عام ملازمین اور تاجروں کے خلاف 30 مقدمات درج کیے گئے، 55 ملزمان کو نامزد کیا گیا۔ صحافیوں کے خلاف 21 مقدمات بنائے گئے اور 40 ملزمان کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔مگرفی الحال سپریم کورٹ سے اس معاملے کو جس سنجیدگی سے لیا ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ یہ قانون منسوخ ہونے کی راہ پر گامزن ہے۔