ہندوستانی خواتین کا بے بسی سے بااختیار بنانے تک کا سفر

اسمرتی زوبیں ایرانی

وزیر اعظم نریندر مودی کی سرپرستی میں حکومت نے آزادی کا امرت مہوتسو کے سلسلے میں ’ناری شکتی‘ کے نئے دور کا اعلان کیا ہے۔ ا س دور میں پروگرام جاتی مداخلتیں صنعتی مرکزی دھارے میں شامل ہندوستان کی تاریخوں کا عمدہ ثبوت ہیں۔ اب خواتین غیر تصوراتی پالیسیوں کا شکار نہیں رہیں جو اِنھیں محدود کرداروں میں ماں اور بیوی کے طور پر نشانہ بناتی رہی ہیں۔ اس امرت کال میں خواتین قابل رہنما ہیں، افرادی قوت میں فائدے مند ہاتھ اور ہندوستانی معاشرے کا اعصابی مرکز ہیں۔خواتین کو بااختیار بنانے کی بات کرتے ہوئے سابقہ حکومت نے اس حقیقت کو فراموش کردیا، جو کہ مودی حکومت نے اسے مجموعی، قومی ترقی کے حصول کے لیے ایک مقام دیا ہے۔ یہ امر ذہن سازی کی پالیسی مداخلتوں کی ایک حد کی تعمیر سے حاصل کیا گیا ہے۔ راشد کارڈ کو بنیادی طور پر گھر کے مرد سربراہ کے نام جاری کرنے کی روایتی شناختی منطق کو بدل کر سب کے لیے منفرد شناخت ، آدھار سے تبدیل کردیا گیا ہے۔ سابقہ راشٹریہ سواستھیہ بیمہ یوجنا (آر ایس بی وائی) کو خواتین کی بیماریوں کے خلاف خدمات پیش کرنے کے لیے از سر نوتیار کیا گیا۔ پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا (پی ایم-جے اے وائی) کے ذریعے اس کی غیر ضروری پانچ مستفیدین کی خاندان کی مردوں کی ترجیحی حد کو ہٹا دیا گیا اور اس کی جگہ پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا پی ایم- جے اے وائی نے لے لی۔ پی ایم- جے اے وائی کسی بھی بالغ مرد ممبر کے بغیر ہی گھرانوں تک صحت کی دیکھ بھال خدمات کی توسیع دیتا ہے جس میں گھر کے سائز کی کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔ اشیا کی بڑی اسکیم میں، ہندوستانی خواتین کے لیے شوہروں اور باپوں سے آزاد ایک شناختی سکون خود اعتمادی، خود اختیاری اور آتم نربھر بھارت کی ایک بڑی مشق ہے۔حکومت ہندوستان روزگار اور مزدوروں کے فن تعمیر کی ایک منظم انداز میں دوبارہ شخصیت سازی کر رہی ہے۔ پردھان منتری مدرا یوجنا کے تحت خواتین کی کاروباری ذہانت کو استحکام حاصل ہو رہا ہے، اس طرح کی خواتین مدرا کاؤنٹس ہولڈرز کا 68 فیصد حصہ ہیں۔آمدنی پیدا کرنے والی سرگرمیوں کے لیے دیئے گئے مدرا قرضوں میں خواتین کے لیے اس سے قبل ناقابل رسائی کے مواقع کے دائرے کو مثبت طور پر وسعت دی ہے۔ اسٹینڈ اپ انڈیا کے تحت مینوفیکچرنگ سروس اور زراعت سے منسلک شعبوں میں گرین فیلڈ انڈرپرائزز کی خواہشات کے برخلاف قرضوں کے ساتھ خواتین کی زندگی میں حائل بڑی مالی رکاوٹوں کو ختم کیا گیا ہے۔ مزید برآں، اسٹارٹ ا پ انڈیا کے فنڈ کا 10 فیصد، جو کہ 1000 کروڑ روپئے کے برابر ہے، کو ایس آئی ڈی بی آئی کے زیر انتظام والے فنڈز میں سے خواتین کی قیادت والے اسٹارٹ اپس کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ زراعت میں خواتین کی حصہ رسدی، جو کہ نسبتاً ایک مردانہ پیشہ ہے، کو مہیلا کسان دِوَس کی تقریبات کے سالانہ مشاہدے اور خواتین کسانوں کے لیے حکومتی، زرعی فائدہ اٹھانے والے سے متعلق مداخلتوں میں فنڈز کے 30 فیصد اختصاص کرنے کے مینڈیڈ کے ساتھ سامنے لایا گیا ہے۔خواتین کو تبدیلی کے سپاہی کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جب کہ کاروباری کوریسوپونڈینٹ سکھیاں، دین دیال انتیہ یودیہ یوجنا-دیہی روزی روٹی کا قومی مشن (ڈی اے وائی- این آر ایل ایم)، مہیلا سووچھ گریہہ، سووچھ بھارت عوامی تحریک کے تحت گندے پانی کی نکاسی کی خدمات کو ہر گھر تک پہنچا رہی ہیں۔ جہاں کہیں بھی خامیاں سامنے آئی ہیں، انھیں صلاحیت سازی کے ذریعے پورا کیا جارہا ہے۔پنچایت راج اداروں کی منتخب خواتین نمائندوں (ای ڈبلیو آر) کے لیے صلاحیت سازی کا پروگرام ایک ایسی ہی مداخلت ہے جو خواتین نمائندوں کو خواتین اور بچوں سے متعلق مسائل پر تعمیری انداز میں سوچنے کی تربیت دیتا ہے اور انھیں تبدیلی کے ایجنٹ بننے کے قابل بناتا ہے۔ پردھان منتری گرام ڈیجیٹل ساکشرتا ابھیان ( پی ایم جی ڈی آئی ایس ایچ اے) کے تحت ایک یادگار ڈیجیٹل خواندگی کی مہم کے ذریعے، مرد اور خواتین کے ڈیجیٹل فرق کو ختم کرنے کے لیے بھی اقدامات کئے گئے ہیں۔اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ بہتر تعلیم یافتہ خواتین باخبر سماجی، معاشی اور خاندانوں سے متعلق فیصلے کرسکتی ہیں، حکومت نے اس کے اچھے مستقبل کے لیے سرمایہ کاری کی ہے۔بچوں کی بقا، تحفظ اور زیادہ تعلیمی شراکت کے لیے قومی مہم بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ (بی بی بی پی)، عزت مآب وزیر اعظم کی طرف سے نگرانی کے اہل اہداف کے ذریعے سماجی فوائد حاصل کرتی دکھائی دیتی ہے۔ پیدائش کے وقت جس کا تناسب (ایس آر بی)، این ایف ایچ ایس-5 کے مطابق 991 (16-2015) سے بڑھ کر 1020 (21-2019) ہوکر 29 پوائنٹ بہتر ہوا ہے۔ یو ڈی آئی ایس ای کے اعداد وشمار کے مطابق ثانوی سطح پر اسکولوں میں لڑکیوں کے مجموعی اندراج کا تناسب ( جی ای آر)، (13-2012) 68.17 فیصد سے بڑھ کر (21-2020) 79.46 فیصد ہوگیا ہے۔ درحقیقت 13-2012 اور 20-2019 کے درمیان ، ثانوی اور اعلیٰ ثانوی، دونوں سطحوں پر لڑکیوں کے لیے جی ای آر میں لڑکوں کے مقابلے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔خواتین کی بے لوثی سے خود اختیاری تک کے راستے کوایک ہمہ گیرسماجی، سیاسی اور قانونی ماحول نے سہارا دیا ہے۔ خواتین کی خواندگی کے پروگرام، صلاحیت سازی کے ماڈیول اور معاش پر مبنی اسکیمیں ہندوستانی معاشرے، سیاست اور معیشت میں خواتین مداخلت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے کچھ حکمت عملیاں ہیں۔ حکومت نے 2017 میں کام کرنے والی ماؤں کے بچوں کے لیے قومی کریچ اسکیم متعارف کرائی تھی تاکہ نگہداشت کی مطلوبہ سرگرمیوں کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جاسکے۔کام کرنے والی خواتین کی مزید مدد کرنے کے لیے سابقہ 12 ہفتوں کی چھٹی کی حد پر آزاد نظر ثانی کی پیش کش کی گئی تھی جس کے ذریعے حاملہ ماؤں کے لیے 26 ہفتوں کی زچگی کی پیڈ چھٹی کی سہولت دی گئی تھی۔
حکومت نے واضح طور پر، اثاثوں اور وسائل کی غیر مصنفانہ تقسیم کو مساوی کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ پردھان منتری اجولا یوجنا کمزور گھرانوں میں استفادہ کنندگان کو رعایتی ایل پی جی کنکشن دینے کاوعدہ کرتی ہے۔ اس طرح انھیں ایک سہولت کے ذریعے زیادہ عزت دی جاتی ہے۔ اسی کے ساتھ اجولا یوجنا خواتین کو دھوئیں سے پاک ماحول فراہم کرتی ہے اور ایندھن کے لیے لڑکی جمع کرنے کی مشقت کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں دقت اور صحت کی غربت سے تحفظ فراہم کرتی ہے۔وزیر خزانہ کے حالیہ اعلان کے مطابق 12 گیس سلینڈروں پر 200 روپئے کی سبسڈی دینے کے ساتھ ہی مستقبل کی سلینڈر کو دوبارہ بھروانے کی پریشانی دور ہوئی ہے۔ ایندھن کی قیمتوں میں کمی کے ساتھ ، توانائی کی بڑھتی ہوئی مہنگائی کی عالمی سیاسی ماحول کے درمیان ، یہ اقدام خواتین کے لیے زندگی میں زیادہ آسانی کا وعدہ کرتا ہے۔اسی طرح، پردھان منتری آواس یوجنا بھی خواتین مستفیدین کو ترجیح دیتی ہے۔ حقیقتاً، آواس یوجنا کے تحت 75 فیصد مکان کے مالکان خواتین ہیں۔ آواس یوجنا ، اثاثوں کی ملکیت میں اچھی طرح سے ، تاریخی،غیر متناسب خلا کو دور کرتی ہے جو بحران کے دوران خواتین کو سماجی تحفظ اور ’فال بیک‘ کے اختیارات سے محروم کردیتی ہے۔عوامی گفتگو میں خواتین کی خود مختاری کو ایک مرکزی مقام کے مطابق حکومت نے 3 انتہائی اہم اقدام میں خواتین کو اپنی قسمت کا ذاتی معمار بنایا ہے۔ اس سلسلے میں مسلم خواتین (شادی کے حقوق کے تحفظ) کے قانون 2019 کے ذریعے فوری تین طلاق کے غیر معیاری عمل کو منسوخ کردیا گیا ہے۔ میڈیکل ٹرمنیشن آف پریگننسی (ترمیمی) قانون، 2021 کے ذریعے کمزور خواتین کے لیے اسقاط حمل کے لیے جائز حمل کی عمر کو 20 ہفتے سے بڑھا کر 24 ہفتے تک کا کردیا گیا ہے۔ بچوں کی شادی کی ممانعت (ترمیمی) بل ،2021 کے تحت شادی کی قانونی عمر کو مردوں کے برابر بڑھا کر 21 سال کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔خواتین کو بااختیار بنانے کے اس حقیقی عزم میں خواتین کی فیصلہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کیا ہے۔ ایف ایف ایچ ایس-4 (15-2014) اور 5 (21-2019) کے درمیان ، تقریباً 89 فیصد شادی شدہ ہندوستانی خواتین نے گھروں سے متعلق فیصلہ سازی میں حصہ لیا جو سابقہ سروے کے مقابلے میں 5 فیصد بہتر ہے۔ واضح طور پر پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ خواتین (43.3 فیصد)، اکیلے یا مشترکہ طور پر ، کے اپنے بینک کھاتے (78.6 فیصد) تھے، جنھیں وہ خود استعمال کرتی تھیں۔
مودی سرکار نے اپنے آٹھ سال پر محیط کیریر میں ’ناری شکتی‘ کا احترام کرتے ہوئے مثال پیش کی ہے۔ موجودہ وزرا کی کونسل میں 11 خواتین شامل ہیں، جن کے پاس اہم کلیدی قلمدان ہیں اور جو کہ انتظامی اقدامات کے مرکز کو دوبارہ ترجیح دینے کی ایک خوشگوار یاددہانی کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ امرت کال میں صنعتی دقیانوسی تصورات اور بے اختیاری کی داستانوں سے ہندوستانی خواتین کے لیے نئے کرداروں کے تئیں ایک ٹیک ٹونک تبدیلی کا اشارہ دیاہے جو ’ناری شکتی‘ کو ا جاگر کرتا ہے۔ خواتین نے پچھلے 8 سالوں میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہیں۔ اس امرت کال میں ، ملک کی تقدیر کے فیصلہ کنندوں کے طور پر جو کہ اپنے جمہوری حقوق کا استعمال کرنے والے مضبوط ا رادے والے رائے دہندگان کی حیثیت سے رائے سازوں کے طور پر، رویے کی تبدیلی کے سپاہی کے طور پر اور سماجی تبدیلی کے ایجنٹ کے طور پر ، قوم سازی کا مستقبل بلا شبہ ’عورت‘ ہے۔
*********
مضمون نگار معروف سیاستداں اور مرکزی حکومت میں کابینہ وزیر ہیں