مہاراشٹر کا سیاسی منظرنامہ

Taasir Urdu News Network – Mosherraf-24 June

کوئی نہیں جانتا کہ مہاراشٹر کا سیاسی ڈرامہ کیسے ختم ہوگا۔ ادھو حکومت بنے گی یا گرے گی، یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ابھی ہر ایک آدمی جاننا چاہتا ہے۔ لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اس سیاسی بحران کے بعد ابھرنے والا سیاسی منظرنامہ کیسا ہوگا۔اس سلسلے میں سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اگر مہاراشٹر میں حکومت گرتی ہے اور شیوسینا میں پھوٹ پڑتی ہے تو اس سے نہ صرف سینا کمزور ہوگی بلکہ کانگریس کی بھی بے چینی بڑھ سکتی ہے۔
معروف سیاسی تجزیہ کارنیرجا چودھری کے مطابق اس سیاسی ڈرامے کے دو رخ ہیں۔ پہلا یہ کہ اب تک کی صورتحال یہ ہے کہ شیوسینا الگ ہو چکی ہے۔ ایکناتھ شندے اور بی جے پی قیادت اس لمحے کا انتظار کر رہی ہے، جب انہیں باغی ایم ایل ایز کی جادوئی تعدادملے گی۔ اگر شندے کے باغی گروپ کو شیوسینا کے دو تہائی ممبران اسمبلی کی حمایت حاصل ہو جاتی ہے، تو شندے قانونی طور پر یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ وہ اسمبلی میں شیوسینا کے لیڈر ہیں، ادھو ٹھاکرے نہیں۔ اس سے بی جے پی کے لیے شندے کی سربراہی میں ‘آفیشل شیوسینا گروپ کے ساتھ حکومت بنانے کا راستہ صاف ہو جائے گا۔جب ایسا ہوگا تو آزاد اور چھوٹی پارٹیاں بھی ان کے ساتھ آئیں گی، یہ طے ہے۔ لیکن ایک اور امکان غالب ہے۔ اگر شندے جادوئی نمبر جمع کرنے میں ناکام رہتے ہیں، تو سوال یہ ہے کہ کیا مہاراشٹر میں کچھ وقت کے لیے صدر راج لگایا جا سکتا ہے؟ اور جب بی جے پی اور شندے سینا حکومت بنانے کی پوزیشن پر پہنچ جائیں گے تو کیا اسمبلی بحال ہو جائے گی؟ ایسی صورتحال بھی پیدا ہو سکتی ہے کہ ادھو ٹھاکرے اپنی اور پارٹی کی شبیہ کو بچانے کے لیے بی جے پی حکومت کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہو جائیں۔ وہ یہ شرط رکھ سکتے ہیں کہ بی جے پی حکومت بنائے لیکن دیویندر فڑنویس سی ایم نہیں بنیں، جو مسلسل ادھو پر حملہ کر تے رہے ہیں۔
ادھرشیوسینا لیڈر سنجے راوت نے باغیوں کو پیشکش کی ہے کہ وہ ممبئی واپس آنے پر غور کر سکتے ہیں۔ دراصل باغیوں کا مطالبہ ہے کہ شیو سینا کو بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت بنانی چاہیے۔ بی جے پی کے لیے ایک اور شندے فیکٹر ہے۔ شندے بڑے لیڈر ہیں، 2019 میں جب سی ایم کے حوالے سےبات ہو رہی تھی تو ان کے نام پر بھی چرچا ہوا تھا، حالانکہ بعد میں شرد پوار نے ادھو کے نام پرزور بھی دیا تھا۔ فی الحال، بی جے پی شندے اور ان کے گروپ کو اپنے ساتھ گھسیٹنا چاہے گی۔حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی نہ صرف مہاراشٹر میں حکومت بنانے کے بارے میں سوچ رہی ہے بلکہ وہ شیوسینا کو بڑا جھٹکا دینے کا بھی ارادہ رکھتی ہے تاکہ وہ دوبارہ کبھی چیلنج کی پوزیشن پر نہیں پہنچ سکے۔
تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ مہاراشٹر میں بی جے پی کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے اور شیوسینا کا اثر کم ہوا ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شیوسینا کے پاس اب آپشن کیا ہے؟ یہ واضح ہے کہ ادھو پارٹی کے اندر کے اختلاف ختم کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہو کہ وہ کچھ عرصے سے بیمار ہیں، لیکن بڑی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ وہ اپنے ہی ایم ایل ایز اور وزراء کی پہنچ سے دور رہے ہیں۔اور شاید یہی دوری ان کے لئے سب سے زیادہ نقصاندہ ثابت ہوئی ہے۔
ادھو ٹھاکرے کا وزیر اعلی کی سرکاری رہائش گاہ چھوڑنا اور جذباتی تقریر کرنا باغی ایم ایل اے کو واپس لانے کی حکمت عملی کا حصہ ہو سکتا ہے۔ انھوں نےبدھ کو کہا تھا کہ اگر باغی ایم ایل اے کہتے ہیں کہ وہ انہیں (ٹھاکرے) کو چیف منسٹر کے طور پر نہیں دیکھنا چاہتے تو وہ استعفیٰ دینے کے لیے تیار ہیں۔ اتنا ہی نہیں، سی ایم نے کہا کہ اگر شیو سینکوں کو لگتا ہے کہ وہ (ٹھاکرے) پارٹی کی قیادت کرنے کے قابل نہیں ہیں، تو وہ شیوسینا پارٹی صدر کا عہدہ چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔ یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس ڈائیلاگ سے ادھو پارٹی کیڈر سے جڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔ شیو سینک برسوں سے ٹھاکرے خاندان کے وفادار رہے ہیں۔ وہ ہر الیکشن میں شیو سینا کو ووٹ دیتے رہے ہیں کیونکہ وہ خود کو سپاہی سمجھتے ہیں۔ لہٰذا، ادھو نے محسوس کیا ہوگا کہ ان کے اس اخلاقی مظاہرہ سے متاثر ہوکر ناراض ایم ایل ایزواپس آجائیں گے۔ تاہم اب تک ایسا کچھ ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا ہے۔
آج کے تناظر میں ایک بات طے ہے کہ شندے کی کامیابی کے بعد ادھو کی سینا کی حیثیت ایک کمزور پارٹی سے زیادہ کچھ بھی نہیں رہے گی۔حالانکہ شیوسینا کے علاوہ مہاراشٹر کانگریس کو بھی بڑا نقصان ہونے والا ہے۔اگر ایم وی اے حکومت گر جاتی ہے تو کانگریس ریاست پر ایگزیکٹو کنٹرول کھو دے گی۔ ایسی صورت حال میں صرف شرد پوار ہی اپنی پارٹی این سی پی کو ایم وی اے حکومت کے خاتمے کے بعد بہتر پوزیشن میں لا سکتے ہیں۔ ان کی پارٹی میں کانگریس کے کمزور ہونے سے پیدا ہونے والی جگہ کو پورا کرنے کی صلاحیت موجودہے۔ چنانچہ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے، لیکن مستقبل میں اگر مہاراشٹر کا سیاسی منظرنامہ بی جے پی بمقابلہ این سی پی بن جائے تو حیرانی نہیں ہونی چاہیے۔